بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || زیادہ غور و فکر کے لئے ـ پروجیکٹ سینڈیکیٹ کے پروفیسر اسٹیفن ہومز (Stephen Holmes) سے ماخوذہ ایک تاثر؛ جو ـ قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
- ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کا نیا قومی سلامتی کی دستاویز، جس کا نعرہ "امریکہ کی عظمت واپس لانا" (MAGA) ہے، اپنی گہرائیوں میں اکیسویں صدی کے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک مربوط راہنما نقشے (Roadmap) سے محروم ہے؛ یہی نہیں بلکہ یہ دستاویز "MAGA" تحریک کے عالمی نظریئے کا صاف و شفاف آئینے کے طور پر کام کرتی ہے (جو آبادیاتی، ثقافتی اور جغرافیائی-سیاسی تبدیلیوں سے بری طرح خوفزدہ ہے) اور اس نے اس وجودی خوف کو اصلاح اور موافقت کے انجن کے بجائے انکار اور تباہ کاری کی جارحانہ حکمت عملی کی بنیاد بنا دیا ہے۔ اس دستاویز کا مرکزی محور قومی طاقت اور مفادات کی حقیقت پسندانہ سمجھ بوجھ کے بجائے "بڑے متبادل (Big replacement)" جیسے سازش بھرے نظریات کو تسلیم کرنے اور انہیں قانونی حیثیت دینے پر مبنی ہے، جس کے مطابق امریکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اب چین یا روس جیسے حریف نہیں ہیں، بلکہ ملک کی سرحدوں کے اندر تبدیلی اور ایک نئی اور زیادہ متنوع اجتماعی شناخت کی ظہور پذیری کا نادر الظہور واقعہ ہے۔ یہ ذہنی فریم ورک، جو مستقبل کو ایک قریبی آفت کے طور پر پیش کرتا ہے، فطری طور پر کسی بھی طویل مدتی تعمیری منصوبہ بندی کو بے معنی بنا دیتا ہے اور توجہ مکمل طور پر فوری فوائد حاصل کرنے، خوف و خطر کو کو قلیل مدتی طور پر قابو کرنے اور ماضی کی فرضی اور مثالی حالت کو برقرار رکھنے کوشش پر مرکوز ہے۔
* معیشت بطور لوٹ مار: سفارت کاری کو کمزور کرنا
- معاشی میدان میں، یہ عالمی نظریہ ایک خام اور مکمل طور پر استحصالی نقطہ نظر کو جواز فراہم کرتا ہے، جہاں سفارت کاری کی حیثیت ـ بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں کو منظم کرنے اور پائیدار اتحاد بنانے کے آلے کے بجائے، ـ فوری تجارتی معاہدوں کی تلاش اور دیگر ممالک کے اسٹریٹجک وسائل کی لوٹ مار کے دفتر کی حد تک گھٹ جاتی ہے۔ سفارتخانوں کو تجارتی ترقی کے دفاتر میں تبدیل کرنے اور مغربی نصف کرہ (Western Hemisphere) میں استحصال کے لئے "اسٹریٹجک علاقوں اور وسائل" کی نشاندہی کے لئے قومی سلامتی کونسل کے مشن کے واضح حکم سے، ایک ایسی ذہنیت (Mindset) کا پتہ چلتا ہے جو بین الاقوامی تعاون کو باہمی مفادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک 'صفر حاصل جمع کھیل' (Zero-sum game) اور جدید نوآبادیاتی سانچے میں بیان کرتی ہے۔ یہ نقطہ نظر، جسے لی مونڈے (Le Monde) جیسے اخبار نے بجا طور پر "معاشی لوٹ مار" کا نام دیا ہے، طویل مدت میں نہ صرف ممکنہ تجارتی شراکت داروں کے اعتماد کو کمزور اور تباہ کرتا ہے، بلکہ ایک ایسی دنیا میں ـ جو کثیرالجہتی تعاون پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، ـ امریکہ کو الگ تھلگ اور تنہا کر دیتا ہے۔
* اتحادوں کی جان بوجھ کر کردار کشی: اتحادیوں سے دوری
- اتحادوں اور روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں، مذکورہ دستاویز تاریخی اور جان بوجھ کر علیحدگی کا سبب بنتی ہے۔ اس میں ترمیم پسند (Revisionist) طاقتوں کے ساتھ کسی تعمیری مسابقت پر توجیہ دینے کے بجائے، بلکہ یورپ جیسے اتحادیوں پر عدیم المثال حملے کئے گئے ہیں (جن پر خود "تہذیبی نا بُودَگی [Civilizational Erasure]" کا الزام ہے)۔ اس رجحان کو ـ جسے فی الفور موجودہ یورپی حکومتوں کی مخالف عوامیت پسند اور قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل ہوئی ـ صرف ایک سادہ-نئی صف آرائی اور ترجیحات کی نئی ترتیب کا نام نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے ٹرانس اٹلانٹک آرڈر کی بنیادوں کی ایک منظم اور شعوری تخریب سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اتحادوں کو تباہ کرنے کی یہ حکمت عملی امریکہ کی عالمی قیادت کو دیمک کی طرح اندر سے ختم کر دیتی ہے کیونکہ اتحادیوں کے بغیر قیادت ناممکن ہے۔
* دشمنی کی نئی تعریف اور حریفوں سے ضمنی ہم آہنگی
- دستاویز کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں 'دشمن' کی تعریف ہی بدل دی گئی ہے اور بعض حریفوں سے ضمنی ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے۔ اس دستاویز میں روس کو وجودی خطرہ یا، حتی، ہی مکمل حریف قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ ایک اتفاقی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ دستاویز کے کئی اہم اجزاء اور کریملن کے انداز فکر میں کئی ایک چیزیں مشترکہ ہیں، جیسا کہ ثقافتی تنوع (اور رنگارنگی) کا خوف اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا رجحان۔ اس تناظر میں روس دشمن نہیں بلکہ ایک پرکشش نمونہ ہے جس کی بنیاد قدامت پسندی، سخت طاقت اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی ہے۔
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے (کیونکہ، کریملن اور اس دستاویز کی خاکہ کشی میں مؤثر اجزاء کے درمیان، کئی چیزیں مشترک ہیں، جیسے متنوع اور رنگارنگ ثقافتوں کی موجودگی کا خوف، لبرل بین الاقوامی اداروں سے دشمنی، مرکزی نسلی-قومی ریاست کی مداحی، علاقائی نظآم میں تشددپسندانہ ترمیم پسندی جیسے اہم اجزاء پر گہرا اتفاق رائے پایا جاتا ہے)۔ اس لحاظ سے، [اس دستاویز میں] روس ایک دشمن کے طور پر نہیں بلکہ انقلابی قدامت پسندی، سخت طاقت اور بین الاقوامی قواعد سے بے اعتنائی پر مبنی حکمرانی کے لئے ایک پرکشش رول ماڈل کے طور پر نمودار ہوتا ہے"۔
* حتمی تضاد: زوال کا منشور
- آخر میں یہ ماننا پڑے گا کہ یہ دستاویز ایک بڑے تضاد کی ترجمانی کرتی ہے: یہ دستاویز عالمی قیادت اور مطلق بالادستی کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر اس کے نتیجے میں عائد ہونے والے اخراجات، ذمہ داریوں اور پیچیدگیوں سے مکمل انکار کرتی ہے۔ یہ دستاویز نہ صرف بہتر مستقبل کی تعمیر کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کرتی بلکہ حتی کہ موجودہ صورتِ حال کو برقرار رکھنے کی تدبیر پر بھی مشتمل نہیں ہے؛ بلکہ یہ دستاویز تو لبرل بین الاقوامی اداروں کو تباہ کرنے کا ایک نظریاتی بیان (Ideological statement) ہے جن کی تعمیر میں امریکہ نے کسی وقت بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جب کوئی سیاسی تحریک مستقبل کا کوئی قابلِ قبول نظریہ نہیں رکھتی تو وہ مایوسی کے عانم میں ہر اس مستقبل کو تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اسے پسند نہ ہو۔ زوال کی رفتار ـ اچانک ـ بہت تیز ہو سکتی ہے۔ جن اتحادوں کی تعمیر پر نصف صدی کا عرصہ صرف ہؤا، وہ ایک ہی [چار سالہ] صدارتی مدت میں ہی بکھر سکتے ہیں، اور یہ دستاویز واضح طور پر اس ہلاکت خیز اور تباہ کن تیزرفتاری کے لئے ہری بتی [اور گرین سگنل] ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حامد حاچ حیدری
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ