25 اکتوبر 2025 - 20:42
ایک خفیہ دستاویز: سعودی عرب غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے

سعودی عرب کے محکمۂ خارجہ کی ایک خفیہ دستاویز سے ظآہر ہوتا ہے کہ ریاض غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد "تعمیر نو کے دور" میں قیادت کا کردار ادا کرنے کے عزائم رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ حماس کو بتدریج غیر مسلح کرنے اور غزہ کے انتظام کو بتدریج فلسطینی خود مختار اتھارٹی کے حوالے کرنے پر مشتمل ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سعودی وزارت خارجہ کی ایک اندرونی دستاویز، جو مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ کے ہاتھ لگی ہے، عیاں کرتی ہے کہ سعودی عرب غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد اس 'غزہ' میں 'قیادت' کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے جس کو اس نے دو سالہ مصائب میں تنہا چھوڑ رکھا تھا۔

دستاویز کے مطابق، سعودی حکام [اسرائیل کا ہاتھ بٹاتے ہوئے] حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے اثر و رسوخ کو کم کرکے میں مدد کرکے اور مالیاتی اور لاجسٹک حمایت فراہم کرکے، خود مختار فلسطینی اتھارٹی کی مدد سے، مستقبل میں غزہ کے انتظام میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

اس دستاویز میں درج ہے کہ سعودی عرب غزہ میں بین الاقوامی امن فوج بھیجنے کی تجویز کی حمایت کرتا ہے اور ممکنہ طور پر خود بھی دیگر ہم خیال عرب و اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر اس فورس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

اس منصوبے کا مقصد غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں مبینہ طور پر استحکام بڑھانے کے لئے سعودی نقطہ نظر پیش کرنا ہے، جس کی رو سے حکومت میں حماس کا کردار کم کرنا اور خود مختار اتھارٹی میں اصلاحات کا اہتمام کرنا شامل۔ اس کا مقصد، بظاہر 'فلسطینی عوام کی خواہش کے مطابق' 1967 کی سرحدوں تک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا۔

اس سعودی خارجہ وزارت کے دستاویز میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہم آہن ہوکر دعویٰ کیا گیا ہے کہ "حماس کا اثر منفی ہے، جو امن کے عمل میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور اختلافات کو بڑھاتا ہے، اس لئے اس کے کردار کو کم کیا جانا چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے، بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں کے ذریعے حماس کو بتدریج غیر مسلح کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اور حکومت کو بتدریج خود مختار اتھارٹی کے حوالے کرنا بھی حماس کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے۔"

سعودی عرب مصر، اردن اور خود مختار اتھارٹی کے ساتھ مشاورت سے یہ اقدامات عمل میں لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود مختار اتھارٹی میں اصلاحات میں 'بدعنوانی کے خلاف جدوجہد، کارکردگی بہتر بنانا اور تمام فلسطینی گروپوں کی نمائندگی یقینی بنانا' شامل ہوگا۔ یہ اصلاحات قومی اتحاد اور شفاف و مؤثر حکمرانی قائم کرنے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ریاض فلسطینی عوام کو بنیادی خدمات فراہم کرنے کے لئے مالی اور تکنیکی مدد بھی فراہم کرے گا، اگرچہ اس حوالے سے کسی متعینہ رقم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

یہ دستاویز یہ بھی بتاتی ہے کہ خود مختار اتھارٹی کے تحت گروپوں کو متحد کرنے اور قومی یکجہتی کو مضبوط بنانے کے لئے فلسطینی قومی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جائے گا، اور اعلان کیا گیا ہے کہ سعودی عرب ان بات چیت کی حمایت کے لیے علاقائی ورکشاپس اور کانفرنسیں منعقد کرے گا۔ دستاویز میں اس عمل میں حماس کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہے، اور اسرائیل کا نام بھی نہیں لیا گیا ہے۔

دستاویز کی تاریخ 29 ستمبر ہے، یعنی سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے ایک دن بعد، جس میں انھوں نے غزہ میں "اسرائیلی نسل کشی" کو روکنے کے لئے فوری بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

موسم گرما کے دوران، سعودی عرب اور فرانس نے مبینہ طور پر غزہ کے لئے ایک جامع حل تلاش کرنے کی کوشش کی جس میں نسل کشی کا خاتمہ، بین الاقوامی سکیورٹی دستوں کی تعیناتی اور فلسطینی-اسرائیلی مذاکرات کا آغاز شامل تھا۔ لیکن آخرکار اکتوبر کے شروع میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک کی حمایت سے اپنے جنگ بندی معاہدے کو نافذ کیا جس میں سعودی-فرانسیسی تجویز کے کچھ حصے شامل تھے۔

اس معاہدے میں قیدیوں کے تبادلے اوراسرائیلی فوجوں کے غزہ سے جزوی انخلا پر اتفاق کیا گیا اور حماس کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا گیا، اگرچہ حماس کا کہنا ہے گوکہ وہ غزہ کے حکومتی معاملات سے باہر رہنے کے لئے تیار ہے لیکن اسے کسی طور بھی غیر مسلح نہیں کیا جا سکے گا؛ حماس کی قیادت نے کہا ہے کہ حماس کا غیر مسلح ہونا صرف قبضہ ختم ہونے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

ٹرمپ نے جنگ بندی کی بات چیت پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔

اس دوران مصر کے ایک سینئر سیکیورٹی ذریعے نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ ٹرمپ نے تمام موجودہ ممالک - اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر - سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد بین الاقوامی امن فوج میں حصہ لیں۔ ٹرمپ نے غزہ کے مستقبل کے جائزے کے لئے عالمی رہنماؤں کو شرم الشیخ میں اجلاس کے لئے مدعو کیا، لیکن محمد بن سلمان اور محمد بن زاید اس اجلاس میں موجود نہیں تھے، جس کے بارے میں مصری، سعودی اور اماراتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے میں ان کی محدود کردار سے ناراضگی کا اظہار ہے۔

چونکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے کے سب سے زیادہ امیر ممالک ہیں، اسی لئے غزہ کے انسانی امداد اور تعمیر نو کی اصل لاگت انہیں اٹھانا پڑے گی جبکہ ان سارے اخراجات اور تاوان جنگ کی ادائیگی اس غاصب ریاست پر عائد ہوتی تھی جس نے جارحیت کا ارتکاب کئی لاکھوں کو قتل اور زخمی کیا اور غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔

عجیب بات یہ ہے کہ سعودی عرب کو اسرائیل کی جارحیت کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی اور اس پر ٹرمپ کی طرف سے یہ دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ غاصب ریاست کے سفارتی تعلقات قائم کرے اور اسرائیل کو ایک معمول کی ریاست کے طور پر تسلیم کرے! چنانچہ امریکہ اسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو سرکاری طور پر نارملائز کرنے پر 'راضی' کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha