بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ایک امریکی اور صہیونی ذرائع سے قریب اخباری ویب گاہ نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے ٹوٹ جانے کے امکان کے حوالے سے وائٹ ہاؤس میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
اخباری ویب گاہ 'ایکسیوس' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی عہدیدار غزہ میں بین الاقوامی فوجیں تعینات کرنے کے حوالے سے کئی ممالک کے ساتھ "حساس مشاورتیں" کر رہے ہیں۔
ایکسیوس نے لکھا کہ منگل کو جنگ بندی کا خاتمہ اس بات کا اشارہ تھا کہ قائم کیا گیا امن کتنا نازک تھا۔
تاہم، جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے، ایک بین الاقوامی فورس کا قیام اسرائیل، حماس اور ان ممالک کے لئے ایک مشکل کام بن گیا ہے جنہیں فوج بھیجنی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے ایکسیوس کو بتایا کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس سنٹرل کمانڈ (سینٹکام) اس فورس کے قیام کے لئے منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ دار ہے۔
ایکسیوس کے مطابق، اس منصوبے میں ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کا قیام شامل ہے جس کی تربیت کی ذمہ داری امریکہ، مصر اور اردن پر ہوگی۔
ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے مطابق، بین الاقوامی فوجیں بھیجنے کی شرط غزہ کے تقریباً 50 فیصد علاقے سے اسرائیل کے انخلا سے مشروط ہے۔
لیکن ایکسیوس لکھتا ہے کہ ان سب کی کامیابی حماس کی جانب سے اقتدار اور اپنے ہتھیاروں میں سے کم از کم کچھ حصہ چھوڑنے کی رضامندی پر منحصر ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کے دائیں بازو کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حماس یہ کام کبھی رضاکارانہ طور پر نہیں کرے گی، چنانچہ اسرائیل کے پاس جنگ دوبارہ شروع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا!
ایک مسئلہ جس نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، وہ اسرائیل کی طرف سے اس بین الاقوامی فورس میں ترکیہ کی فوج کی شمولیت کی مخالفت ہے۔
ایکسیوس لکھتا ہے کہ ترکیہ شرکت کے لئے تیار ہے، لیکن اسرائیل غزہ میں ترکیہ کی فوجی موجودگی کے خلاف ہے۔
ایک امریکی عہدیدار کے مطابق، واشنگٹن چاہتا ہے کہ ترکیہ، قطر اور مصر اس عمل کا حصہ بنیں کیونکہ وہ انہیں حماس کو "راضی کرنے اور مناسب رویہ اختیار کرنے" پر آمادہ کرنے کے لئے بہترین آپشن سمجھتا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی عہدیداروں نے ایکسیوس کو بتایا کہ جیسا کہ توقع تھی، حماس جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ میں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کرنے اور اپنی طاقت بحال کر رہی ہے۔
ایک باخبر ذریعے نے ایکسیوس سے کہا: "تنازع کی تاریخ جاننے والے زیادہ تر لوگ ان فورسز کے قیام سے زیادہ پر امید نہیں ہیں؛ پاگل ہی ہوگا کوئی جو اس صورت حال سے مایوس نہ ہو۔"
اہم نکتہ:
اس پوری خبر کا مطلب یہ ہے کہ "حماس قائم و دائم ہے، حماس کا کوئی متبادل نہیں ہے"، چنانچہ اگر غزہ کی جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے والے ـ جو شرم الشیخ میں جمع ہوکر اپنی ناپید مونچھوں پر ہاتھ رہے تھے، کہ کیا تیر مارا ہے انہوں نے ـ اگر غزہ میں جنگ بندی کے تحفظ کے لئے فکرمند ہیں، وہ غزہ کو حماس کے سپرد کیوں نہیں کرتے، جو پہلے ہی اس خطے پر حاوی ہیں؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
 
             
             
                                         
                                         
                                         
                                        
آپ کا تبصرہ