اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے باوجود، صحت و علاج کا شعبہ اب بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ محمد ابو عفش، ڈائریکٹر غزہ میڈیکل ریلیف آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ ضروری طبی سہولیات اور امدادی سامان کی کمی کے باعث اسپتالوں اور طبی مراکز کی کارکردگی بری طرح متاثر ہے۔
ابو عفش نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا:ہمیں امید تھی کہ جنگ بندی کے بعد بنیادی طبی ضروریات غزہ پہنچ جائیں گی، مگر بدقسمتی سے حالات اب بھی سنگین ہیں۔ طبی عملہ کم وسائل کے ساتھ دن رات کام کر رہا ہے اور اسپتالوں میں ضروری دوائیں اور آلات دستیاب نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے شہریوں کو فوری طور پر موبائل کلینکس اور فیلڈ اسپتالوں کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زخمیوں اور مریضوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکے۔
ابو عفش نے اس بات پر زور دیا کہہمیں بچوں اور عام شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ایک واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔”اس سے قبل، عدنان ابو حسنہ، ترجمان انروا نے شمالی غزہ کی سنگین صورتحال پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایریز اور زیکیم سرحدی گذرگاہوں کو بند رکھنے سے امدادی سرگرمیاں تقریباً ناممکن ہو گئی ہیں۔
انہوں نے کہا جب تک شمالی گذرگاہیں دوبارہ نہیں کھلتیں، وہاں کے تقریباً 10 لاکھ فلسطینی بنیادی امداد سے محروم رہیں گے۔ موجودہ امداد انتہائی محدود ہے اور ضروری غذائی و طبی سامان شمال تک نہیں پہنچ پا رہا۔
ابو حسنہ نے تمام پانچ زمینی گذرگاہوں کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف کرم ابو سالم پر انحصار کافی نہیں، کیونکہ اس سے امداد کی رفتار اور مقدار دونوں متاثر ہو رہی ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیلی افواج نے 7 اکتوبر 2023 سے، امریکہ اور یورپ کی حمایت سے، غزہ پر وسیع پیمانے پر حملے کیے۔ ان حملوں میں ہزاروں عمارتیں تباہ ہوئیں، غذائی و طبی رسد منقطع کر دی گئی اور لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 2 لاکھ 38 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، 11 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں اور بڑے پیمانے پر قحط کے باعث درجنوں بچوں نے جان گنوا دی ہے۔
آپ کا تبصرہ