بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں عوامی رائے کے خوف سے، فی الحال، اسرائیل کے ساتھ مصالحت نہیں کر سکتے۔
ایکسیوس ویب سائٹ کے مطابق، گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات بظاہر بہت گرم جوش اور دوستانہ تھی لیکن غیر اعلانیہ نشستیں شدید کشیدہ ہوگئیں۔ اس کشیدگی کا سبب، اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لئے، سعودی عرب کی 'ابراہیم معاہدوں' میں سعودی عرب کی شمولیت، کی خاطر ٹرمپ کا سعودی ولیعہد پر شدید دباؤ تھا۔
ایکسیوس کے مطابق، دو امریکی عہدیداروں اور ۱۸ نومبر کو ہونے والی اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے خود معاملہ اٹھایا اور بن سلمان سے سخت مطالبہ کیا کہ سعودی عرب فوری طور پر ابراہیم معاہدوں میں شامل ہو جائے۔
ابراہیم معاہدے پر سنہ 2020ع میں، ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران دستخط ہوئے تھے، جس کی بنیاد پر، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے [فلسطین اور امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہوئے] اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کر دیئے؛ اس واقعے کو ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک سمجھتے ہیں!
لیکن بن سلمان نے مزاحمت کی اور وضاحت کی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ان کی '''ذاتی خواہش''' کے باوجود، غزہ کی جنگ اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام پر سعودی معاشرے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے فی الحال ایسا قدم اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سعودی عرب کی رائے عامہ اسرائیل کے سخت خلاف ہے اور موجودہ حالات میں ایسا کوئی فیصلہ ناممکن ہے۔
ایک مطلع ذریعے کا کہنا تھا: "بہترین وضاحت یہ ہے کہ ٹرمپ مایوس اور تھوڑے سے غصے ہو گئے۔ ٹرمپ سنجیدگی سے، چاہتے ہیں کہ سعودی عرب ابراہیم معاہدوں میں شامل ہو اور انھوں نے بن سلمان کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی۔ بحث ایماندارانہ تھی، لیکن بن سلمان نے بھی اپنا مؤقف مضبوطی سے برقرار رکھا۔"
اس کے جواب میں، بن سلمان نے سعودی شرط دہرائی: اسرائیل کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے میں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے ایک "ناقابل تنسیخ، مستحکم اور معینہ ٹائم ٹیبل پر مبنی پروگرام" ضرور شامل ہونا چاہئے۔
به نوشته آکسیوس، او همین موضع را پس از دیدار، علناً هم اعلام کرد. در حالی که رژیم اسرائیل به شدت با هرگونه راهحل دو کشوری مخالف است.
اکسیوس کے مطابق، انھوں نے ملاقات کے بعد عوامی طور پر بھی اسی مؤقف کا اعلان کیا۔ جب کہ اسرائیلی ریاست کسی بھی دو ریاستی حل کی سخت مخالف ہے؛ اور اس کے سرغنے اعلانیہ طور پر کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں فلسطین نامی کوئی چیز روئے زمین پر ہے ہی نہیں اور یہ کہ وہ فلسطین کا نام تک سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ