18 ستمبر 2025 - 23:32
"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

یہ جرائم پیشہ ٹولہ جرائم کی حد سے بہت آگے بڑھ چکا ہے اور پورے خطے کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ اگر اس خونخوار ٹولے کو نکیل نہ ڈالی گئی تو اس کی جارحیتوں کی لہر سرحدوں کو پار کرے گی، اور مغربی ایشیا کے تمام ممالک تک پھیل جائے گی۔ یہ بالکل "عظیم تر اسرائیل" کے خطرناک منصوبے کے مطابق ہے جو نیل سے فرات تک پھیلا ہؤا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(‏ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مسلم دنیا کے مابین اتحاد و اتفاق اور اسلامی دنیا کے لئے امن و استحکام کے حوالے سے رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کے کلام سے کچھ دروس مندرجہ ذیل ہیں:

صہیونی ریاست، مغربی ایشیا کے ممالک کا مشترکہ دشمن

گذشتہ برسوں میں مغربی ایشیا میں امریکہ کا  اہم منصوبہ "معاہدہ ابراہیم" کو آگے بڑھانا اور صہیونی ریاست کے ساتھ کچھ عرب حکومتوں کے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کرنے سے عبارت تھی۔ واشنگٹن کی کوشش تھی کہ عرب ممالک کی سلامتی کو ایک ایسی ریاست سے جوڑ دے جو خود بحران، جارحیت اور خطے میں عدم استحکام کی جڑ ہے۔ اس دوران، کچھ عرب حکومتیں بھی سلامتی کی امید میں امریکہ کی اطاعت اور تل ابیب کے ساتھ رسمی تعلقات قبول کرنے کی طرف بڑھ گئیں۔

لیکن بین الاقوامی تعلقات کے "سخت حقائق" جلد ہی عیاں ہو گئے۔ 9 ستمبر 2025ء کو پیش آنے والا واقعہ ان ممالک کے چہروں پر بیداری کا ایک طمانچہ تھا؛ جب صہیونی ریاست نے 12 لگاتار حملے کرکے قطر کو نشانہ بنایا اور امریکی دفاعی نظامات نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا! اس واقعے نے واضح کر دیا کہ امریکہ پر انحصار کرنے والی سلامتی محض ایک سراب ہے اور صہیونی ریاست کی جارحیت کے مقابلے میں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہؤا کرتی۔

"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

گریٹر اسرائیل: تمام مغربی ایشیائی ممالک کے لئے تباہ کن خطرہ

یہ پیش رفت ایک ایسی صورت حال میں ہو رہی ہے جب عالمی واقعات انتہائی تیز رفتاری سے رونما ہو رہے ہیں۔ سیاسی رہنما اور اسلامی حکومتیں واقعات کی اس رفتار سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں۔ انہیں اپنی پوزیشن اور ذمہ داری کو واضح طور پر سمجھنا چاہئے۔ آج یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے کہ صہیونی ریاست استعماری اور استکباری طاقتوں کا پراکسی بازو ہے۔ ایک ایسی قوت جس نے علاقے میں اپنے قیام کے بعد سے آتش زنی اور جرائم کو انتہا تک پہنچایا ہے:

       "صہیونی ریاست استعمار کی پراکسی ریاست کے طور پر فتنوں اور جنگوں کی آگ بھڑکاتی ہے، نسل کشی اور جرائم کا ارتکاب کرتی ہے، اور اگر اسے موقع ملے تو وہ دوسرے ممالک پر بھی حملہ کر دے گا، جس طرح وہ اس وقت شام پر تسلط جمائے ہوئے ہے۔ وہ شام کی سرزمین میں داخل ہوتی ہے، یہاں تک کہ دمشق کے چند کلومیٹر تک بھی آئی ہے۔ وہ یہ کام ان ہی لوگوں کے پراکسی کے طور پر کر رہی ہے جنہوں نے عالمی جنگ کے بعد اس خطے پر ہاتھ ڈالا اور اس علاقے کو اس حالت تک پہنچایا، اور اب صہیونی ریاست ان ہی کی پراکسی قوت کے طور پر ان ہی کا کام آگے بڑھا رہی ہے اور مکمل کر رہی ہے۔" 31 مارچ 2025ع‍

یہ جرائم پیش ٹولہ گروہ (جو فلسطین پر حکومت کر رہا ہے) جرائم کی تمام حدیں پار کر چکا ہے اور پورے خطے کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ اگر اس درندہ صفت ٹولے کو نکیل نہ ڈالی گئی تو اس کے حملوں کی لہر سرحدیں پار کرے گی اور مغربی ایشیا کے تمام ممالک تک پھیل جائے گی، بالکل "عظیم تر اسرائیل" اس خطرناک اور تباہ کن منصوبے کے مطابق، جو نیل سے فرات تک کے علاقے پر مشتمل ہے:

       "اس جرائم پیش ٹولے نے حقیقتاً تمام حدیں پار کر دی ہیں! عالم اسلام کو کوئی اقدام کرنا چاہئے، کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ اسلامی دنیا کو متحد ہو کر - خواہ معاشی، سیاسی یا اگر ضروری ہو تو عملی سطح پر - اس مسئلے پر سوچنا اور کام کرنا چاہئے۔ البتہ انہیں خدا کے عذاب کا بھی انتظار کرنا چاہئے۔ یقیناً اس ظلم کی سخت آسمانی سزا کی صورت میں نمایاں ہوگی، اس میں کوئی شک نہیں ہے - لیکن یہ [الہی انتقام] عوام، ہمارے اور حکومتوں کے فرائض کو کم نہیں کرتا۔ خدا اپنا کام کرتا ہے، ہمیں بھی اپنے فرائض انجام پر عمل کرنا ہوگا۔" 15 اپریل 2025

"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

شیطانی ریاست کے مقابلے میں مزاحمت اسلامی ممالک کی اہم ذمہ داری ہے

اسلامی ممالک کا فرض اس ریاست کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے؛ یہ موقف ان کے اپنے قومی مفادات کے ہم آہنگ ہے۔ قطر پر صہیونی ریاست کے حملے نے عیاں کر دیا ہے کہ امریکی سلامتی پر انحصار یا دوسروں پر بھروسہ اس ریاست کے خطرات سے نمٹنے کے لئے کافی نہیں ہے؛ اسلامی حکومتوں کو خوشامد [اور چاپلوسی پر مبنی] رویہ چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس شیطانی ریاست کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ مزاحمت ہی صہیونی ریاست کی جارحیتوں کے مقابلے میں، ان کی بقاء کا واحد راستہ ہے:

       "آج اسلامی حکومتوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں حکومتوں سے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ آج خوشامد، تحفظات اور غیرجانبداری کا وقت نہیں ہے، آج خاموش رہنے کا دن نہیں ہے۔ اگر اسلامی ممالک میں سے کوئی ملک کسی بھی شکل میں، اور کسی بھی بہانے صہیونی ریاست کی حمایت کرے - خواہ تعلقات معمول پر لا کر، خواہ فلسطین کی مدد کا راستہ روک کر، خواہ صہیونیوں کے جرائم کی تاویل و توجیہ کرکے - تو وہ یقین رکھے کہ کلنک کا ٹیکہ اس کی پیشانی پر ہمیشہ کے لئے باقی رہے گا۔ البتہ آخرت کا حساب بھی ہے، قیامت بھی ہے، اللہ کی طرف کی سزا بھی ہے جو بہت سخت ہے، بہت سنگین ہے، وہ خدا کے سامنے جواب نہیں دے سکیں گے، لیکن صرف آخرت کی سزا ہی نہیں ہے؛ دنیا میں بھی قومیں اس غداری کو نہیں بھولیں گی۔ اور حکومتیں جان لیں کہ صہیونی ریاست پر انحصار کرکے کسی بھی حکومت کو سلامتی میسر نہیں آئے گی؛ وہ صہیونی ریاست پر بھروسہ کر کے سلامتی حاصل نہیں کر سکتے؛ کیونکہ صہیونی ریاست خدا کے فیصلے کے مطابق زوال پذیر ہے اور ان شاء اللہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گی۔" 4 جون 2025ء

آج صہیونی ریاست مغربی ایشیا کے تمام ممالک کا مشترکہ دشمن ہے اور اسلامی حکومتوں کو اس کے خلاف متحد ہو کر عمل کرنا چاہئے:

       "آج ہمارا دشمن، وہ دشمن جو ہمارے سامنے کھڑا ہے، یعنی صہیونی ریاست، دنیا کی سب سے زیادہ قابل نفرت ریاست ہے، دنیا کی سب سے قابل نفرت حکومت ہے۔ اقوام بھی صہیونی ریاست سے بیزار ہیں، اس سے نفرت کرتے ہیں؛ حکومتیں بھی اس ریاست سے، صہیونی ریاست کی مذمت کرتی ہیں۔ [گوکہ] زبانی مذمت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ مزاحمت محض زبان سے نہیں ہوتی کہ حکومتیں کہیں کہ ہم مخالف ہیں، ہم مذمت کرتے ہیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ صہیونی ریاست تک مدد پہنچانے کے راستے بند کرنا ہوں گے؛ ان تک پہنچنے والی مدد کے راستے بند کرنا ہونگے۔ یہ جو کام یمن کے بہادر عوام کر رہے ہیں، صحیح کام ہے؛ صحیح کام یہی ہے۔ صہیونی ریاست کے سربراہوں کے جرائم کے مقابلے میں، ان تک ہر طرف سے مدد کے راستے مکمل طور پر بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔" 24 اگست 2025ء

"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

عالم اسلام کا اتحاد، صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کی کنجی

اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ پہلے اس ریاست کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات منقطع کریں اور پھر سیاسی تعلقات کو بھی معطل کریں:

       "احتجاج کرنے والے ممالک - جن میں آج اسلامی اور غیر اسلامی ممالک شامل ہیں - خاص طور پر اسلامی ممالک، صہیونی ریاست سے اپنے تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کریں، حتی کہ سیاسی تعلقات بھی منقطع کریں، اسے الگ تھلگ کردیں۔ آج البتہ، خبیث صہیونی ریاست دنیا میں سب سے الگ تھلگ اور تنہا ریاست ہے، دنیا بھر میں قابل نفرت ترین ریاست ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اسے اس سے بھی زیادہ الگ تھلگ کرنا، ممکن ہے؛ راستوں کو بند ہونا چاہئے۔ یہ ایک فریضہ ہے جو حکومتوں پر عائد ہوتا ہے۔" 7 ستمبر 2025

اسلامی دنیا ایک وسیع خطہ ہے جس میں بڑی صلاحیتیں اور استعدادات موجود ہیں اور یہ اتحاد کے ساتھ اس ریاست کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے:

       "اسلامی دنیا ایک بڑی دنیا ہے۔ ہم مسلمان، نہ صرف کثیر آبادی ہیں، بلکہ دنیا کے جغرافیائی حوالے سے ایک اہم مقام پر ہیں، اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ممالک اور مجموعوں میں شامل ہیں؛ اگر اسلامی دنیا ان اہم مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، تو اسے ایک بنیادی اقدام کی ضرورت ہے اور وہ ہے اتحاد؛ اسلامی دنیا کا اتحاد۔" 31 مارچ 2025ء

اسلامی ممالک کا دفاعی بیلٹ اختیاری نہیں بلکہ بنیادی ضرورت ہے
کوئی بھی فائدہ یا منافع اسلامی ممالک کے اتحاد سے بالاتر نہیں ہے۔ اگر اسلامی ممالک میں یکجہتی ہوتی تو استعماری ریاستیں مغربی ایشیا میں جرائم اور فتنوں اور جنگوں کی آگ نہيں بھڑکا سکتی تھیں:

       "میرے خیال میں، امت اسلامیہ کے لئے کوئی منافع بھی اتحاد سے بڑھ کر [اہم اور بڑا] نہیں ہے۔ اگر امت اسلامی متحد ہو، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں، ہم آہنگی کرے، باہمی تعاون کرے، تو غزہ کا واقعہ پیش نہیں آتا، فلسطین کا واقعہ رونما نہیں ہوتا، یمن اس طرح دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ جب ہم الگ الگ ہوتے ہیں، تو [استعماری ریاستیں] - امریکہ ایک طرف، صہیونی ریاست بعض دیگر یورپی اور غیر یورپی ممالک دوسری طرف، - اپنے مفادات اور اپنے عزائم کو قوموں کے مفادات پر مسلط کر دیتے ہیں؛ نتیجہ ان ممالک کی طرح نکلتا ہے جو ان کے دباؤ میں ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؛ نتیجہ غزہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب اتحاد ہوتا ہے، تو سلامتی آتی ہے [اور امن آتا ہے]؛ جب اتحاد ہوتا ہے، ترقی آتی ہے؛ جب اتحاد ہوتا ہے، باہمی تعاون آتا ہے۔" 4 مئی 2025ء

اس سلسلے میں صہیونی ریاست اور اس کے حامیوں کی جارحیت کے خلاف "اسلامی ممالک کے دفاعی بیلٹ" کی حکمت عملی کو عملی شکل دینا اس خطرناک دشمن کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے:

      "ہر قوم اگر دشمن کے ناقابل برداشت محاصرے کا شکار نہیں ہونا چاہتی، تو اسے شروع سے ہی آنکھیں کھلی رکھنا چاہئیں، بیدار رہنا چاہئے؛ جب دیکھ لے کہ دشمن کسی دوسری قوم کے پیچھے پڑ گیا ہے، تو خود کو اس مظلوم اور زیر ستم قوم کے ساتھ شریک سمجھے، اس کی مدد کرے، اس کے ساتھ تعاون کرے تاکہ دشمن وہاں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر دشمن وہاں کامیاب ہو جاتا ہے تو اگلے مقام پر آئے گا۔ ہم مسلمان طویل عرصے سے اس حقیقت سے غافل رہے ہیں، اس کا خمیازہ بھی بھگت چکے ہیں؛ آج ہمیں پھر غفلت نہیں برتنا چاہئے؛ ہمیں چوکنا رہنا چاہئے۔ ہمیں افغانستان سے لے کر یمن تک، ایران سے غزہ اور لبنان تک، تمام اسلامی ممالک اور مسلم قوموں میں دفاعی بیلٹ، آزادی کی تحریک کا بیلٹ، عزت کا بیلٹ مضبوطی سے باندھ لینا چاہئے۔" 4 اکتوبر 2024ء

"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

بیان بازی سے عملی اقدام تک: آج مزاحمت کا وقت ہے

یہ واضح ہے کہ دوحہ کے ہنگامی اجلاس جیسے واقعات ـ جو صرف زبانی طور پر صہیونی ریاست کی مذمت کرتے ہیں ـ کافی نہیں ہیں۔ اسلامی دنیا کو متحد ہونا چاہئے، اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا چاہئے اور اس کے خلاف عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔ یہ اقدامات بجا لانا نہ صرف خطے کے عوام بلکہ خطے کی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے:

       "اسلامی دنیا کے اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مشترکہ مفادات کو پہچانیں؛ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ان کے مشترکہ مفادات کیا ہیں۔ اپنے مفادات کو اس طرح سے متعین نہ کریں کہ آپس میں اختلاف، جھگڑے اور تنازعات کا سبب بنیں۔ اسلامی دنیا کا خاندان ایک خاندان ہے، ایک مجموعہ ہے۔ ہمیں آپس میں تعاون کرنا چاہئے، باہمی مشورہ کرنا چاہئے، اسلامی دنیا کے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہئے؛ اس صورت میں جارح طاقتیں، ظالم طاقتیں، جابر آور بڑی طاقتیں اسلامی دنیا پر حملہ نہیں کر سکیں گی، جبر نہیں کر سکیں گی، بلیک میل نہيں کر سکیں گی، بھتہ نہیں مانگ سکیں گی۔ آج بدقسمتی سے تاوان خوری اور تاوان کی مانگ طاقتوں میں ایک عام کام بن گیا ہے۔ بڑی طاقتیں کمزور ممالک، حکومتوں اور قوموں سے اعلانیہ طور پر بھتہ مانگتی ہیں [انہیں بلیک میل کرتی ہیں]؛ اسلامی دنیا کو امریکہ اور امریکہ جیسی طاقتوں کی بلیک میلنگ سے دوچار نہ ہونے دیں۔" 31 مارچ 2025ء

"دفاعی بیلٹ" کا قیام اسرائیل کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ 

امریکہ، جو مغربی ایشیا میں بدامنیوں اور جنگوں میں شدت آنے کی اصل جڑی ہے، اسے خطے سے نکال باہر کرنا چاہئے اور صہیونی ریاست، ـ اسے ہلاکت خیز سرطانی پھوڑے ـ کو ضرور بضرور ختم کرکے رکھنا چاہئے۔ اس مقصد کا حصول کا راستہ اسلامی ممالک کا اتحاد اور کاہلی سے پرہیز ہے:

       "خطے کی قوموں کی کوششوں سے، امریکہ کو اس خطے سے جانا چاہئے اور ضرور جائے گا۔ یقیناً اس خطے میں فساد، جنگ اور اختلاف کا بنیادی سبب صہیونی ریاست ہے۔ صہیونی ریاست کو، جو اس خطے کا خطرناک اور مہلک کینسر ہے، ضرور پر اکھاڑ پھینکنا چاہئے اور اسے ضرور اکھاڑ پھینکا جائے گا۔" 17 مئی 2025ء

مغربی ایشیا کے ممالک کے پاس صہیونی ریاست کے مقابلے میں صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ ہے مزاحمت (و مقاومت)؛ یہ راستہ نہ صرف ان ممالک کی بقاء کا ذریعہ ہے بلکہ ان کی عزت اور شناخت کی علامت بھی ہے۔ مزاحمت، کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، لیکن ہتھیار ڈالنے کی قیمت اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھاری ہے۔ اسلامی ممالک کے اتحاد اور صہیونی ریاست اور امریکی حکومت کی جارحیت کے خلاف یکجہتی سے نہ صرف خطے کے علاقوں اور قوموں کا دفاع کیا جا سکتا ہے بلکہ اس ریاست کے زوال اور تباہی کی راہیں بھی ہموار کی جا سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha