8 ستمبر 2025 - 21:40
ریاست کے خاتمے کے بغیر، حکومت کا خاتمہ

میں آپ کا توجہ محوری طاقتوں (Axis Powers) اور خاص طور پر جرمنی کے انجام کی طرف مبذول کرواتا ہوں: یہ وہ انجام ہے جو ایک ملک کے وجود کے حق کے مقابلے میں اس ملک کے اندر موجود ایک مخصوص حکومت (نظام) کے وجود کے حق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے رویے میں فرق کو واضح کرتا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جرمنی، اٹلی اور جاپان سبہی پر اتحادیوں نے قبضہ کرلیا۔ تاہم، تینوں کو بعد میں جائز ریاستوں کے طور پر اقوام متحدہ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی؛ لیکن یہ اس وقت ہؤا جب جرمنی میں نازی، اٹلی میں فاشسٹ اور جاپان میں اس سلطنت کے خاتمے کے بعد ہؤا جنہوں نے ان ملکوں کو جنگ میں دھکیل دیا تھا۔

اس سلسلے میں، 1944 میں امریکی وزیر خزانہ ہنری مورگینتھاؤ کی تجویز ریاست کے وجود کے حق سے انکار اور اس کے وجود کو ختم کرنے پر مبنی تھی جس پر سخت بین الاقوامی ہچکچاہٹ نمایاں ہوئی۔

جنگ کے بعد کے یورپ کے لئے مورگینتھاؤ کا منصوبہ [8] جرمنی کو ایک صنعتی ملک کے طور پر ختم کر دیتا تھا؛ روایتی طور پر "جرمن" کے بڑے علاقے ڈنمارک، فرانس اور پولینڈ کو دیے جانے تھے۔ روہر کا صنعتی علاقہ [جرمن صنعت کا مرکز] اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو بین الاقوامی کر دیا جانا تھا۔ تمام جرمن اسلحہ ساز فیکٹریوں کو پوری فوج سمیت تباہ کیا جانا تھا۔

مستقبل قریب کے لئے، جرمنی میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ پرائمری اسکولوں کی سطح تک ہی کام کرنے کی اجازت تھی۔ جنگ سے تباہ ہونے والے ممالک اپنی تعمیر نو کے لئے جرمن باشندوں سے جبری مشقت لیتے تھے۔ اور جرمن سرزمین کا وہ حصہ جو دوسرے ممالک کے لئے مختص نہیں کیا گیا تھا اسے تین الگ الگ، ـ اورزیادہ تر ـ زرعی ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

تاہم، مورگینتھاؤ کے منصوبے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حتی اس شدید انتہاپسندانہ منصوبے میں بھی،  جرمن ریاست کے خاتمے کا واضح مطالبہ کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔ جرمنی دونوں عالمی جنگیں شروع کرنے اور انسانی تاریخ کی سب سے تباہ کن نسل کشی کا ذمہ دار تھا، لیکن اس کے باوجود، ایک بڑی اور طاقتور ریاست کے وجود کو ختم کرنا 'بہت انتہائی قدم' سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بجائے، جرمن ریاست کو سزا دینے کے بجائے، اس پر حکومت کرنے والی نازی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

بلاشبہ، سوویت خطرے کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنے کے لئے مغرب کو وسطی اور مغربی یورپ کے لئے ایک مضبوط جرمنی کی ضرورت تھی، لیکن جس اصول پر زور دیا گیا وہ ایک طرف ریاستوں اور دوسری طرف حکومتوں پر لاگو ہونے والے معیار کے درمیان فرق تھا۔ اس طرح جرمن ریاست کے بجائے یورپ سے نازی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔

اس طرح، حکومتیں جس ملک پر حکومت کرتے ہیں اسے آلودہ کئے بغیر شرانگیز (اور بدعنوان) بن سکتی ہیں۔ حکومتیں بدل بھی سکتی ہیں بغیر اس کے کہ وہ ملک ختم ہوجائے جس پر ان کی حکمرانی ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاستیں غائب ہو سکتی ہیں، جیسا کہ سوویت اتحاد 1991 میں غائب ہو گیا، لیکن حکومت کی تبدیلی کی شرح کے مقابلے میں اس طرح کے غیر موجود ہونے کے واقعات بہت کم ہیں۔ 1989 میں، مشرقی یورپ میں حکومتیں تبدیل ہوئیں، لیکن جن ممالک پر انہوں نے حکومت کی وہ اپنی جگہ برقرار رہے۔

چین میں عوامی جمہوریہ نے بڑی حد تک قوم پرست حکومت کی جگہ لے لی جس نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے ملک پر حکومت کی تھی۔ اطالوی جمہوریہ نے فاشسٹ اٹلی کی جگہ لے لی۔ جاپان اب ایک آئینی بادشاہت ہے، سلطنت نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ایران میں پہلوی حکومت کو ہٹا کر اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی، اور اگرچہ بہت سے لوگ [اب] ایران میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن کسی نے بھی ایرانی ریاست کے وجود کے حق کو چیلنج نہیں کیا۔

اپارتھائیڈ اسرائیل

اسرائیل صہیونی تحریک کی طرف سے قائم کردہ ایک ریاست ہے، جس کی 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے توثیق کی، اور اسے 1948 میں دنیا بھر کے [کچھ] ممالک نے تسلیم کیا۔ صہیونیت کے معاشی، سیاسی اور فوجی ادارے اس ریاست میں پہلی اور اب تک واحد حکمران حکومت بن گئے۔ اسرائیلی ریاست ایک نظریاتی نظام ہے جس کا بیرونی منظر لبرل جمہوریت کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے، لیکن یہ سب سے بڑھ کر اپنے یہودی باشندوں کی موجودگی اور کامیابی کے حصول کے لئے وقف ہے۔

اسرائیل کے عرب باشندوں کا انتظآم ـ سنہ 1948 سے 1966 تک، ـ ایک فوجی حکومت کے پاس تھا جس نے ان کی اکثر اراضی کو ضبط کرنے کی منصوبہ بندی میں سہولت کاری کی تھی۔ سنہ 1966 میں فوجی حکومت کی تحلیل کے بعد، مختلف وزارتوں میں "عرب امور" کے لئے علیحدہ محکمے قائم کیے گئے جو سیکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر، امتیازی سلوک، شہریت [9] اور تقسیم کی بنیاد پر عربوں پر حکومت کی پالیسیاں نافذ کرتے رہے۔

سنہ 1967 کے بعد سے، فلسطینی عرب (جن کی آبادی اب مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں 50 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے) فوجی قبضے کی ایک شکل میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور  اپنے آبی اور زمینی وسائل اسرائیل اور اس کے آباد کاروں کے ہاتھوں کو کھو رہے ہیں کیونکہ ریاست نے ان کی زمینیں ضبط کر لی ہیں۔ ان شہریوں کی حکومتوں میں کوئی نمائندگی نہیں دی جاتی اور ریاست ان کی نقل و حرکت اور بیرونی دنیا تک رسائی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ سیاسی طور پر متحرک ہونے کے کسی بھی ذریعے سے محروم ہیں۔ وہ منظم طریقے سے غربت میں دھکیلے جاتے ہیں۔ اور انہیں روزانہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے جو کہ محتاط لہجے میں بھی کہا جا سکتا ہے یہ دردناک اور ذلت آمیز اور بدترین نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل کے 20 لاکھ عرب شہریوں کو درجنوں ایسے قوانین اور ضوابط کا سامنا ہے جو غیر یہودی اسرائیلیوں اور خاص طور پر عربوں کے خلاف واضح یا ضمنی طور پر امتیازی سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔ [10]

سنہ 2018 میں، اسرائیلی پارلیمنٹ نے حکومت کی نوعیت کی وضاحت کرنے کے لئے ایک آئینی دستاویز منظور کر لی جو ایک آئینی اعلامیے سے قریب ترین تھی؛ ایک "بنیادی قانون" جس کا عنوان تھا "اسرائیل بطور یہودی عوام کی قومی ریاست"؛ یہودی آباد کاری کو ایک "قومی قدر" قرار دیا۔ اور عربی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے محروم کر دیا۔ اعلامیے کے لکھنے والوں کے ارادوں کو ان کی ترامیم کو مسترد کرنے سے واضح کیا گیا تھا جس میں تمام شہریوں کی برابری کی ضمانت ہوتی تھی۔ [12]

اگرچہ اسرائیلی ریاست مؤثر اداروں، متحرک معیشت اور طاقتور فوج تشکیل دینے میں کامیاب رہی، لیکن وہ ایسی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام رہی جو اسرائیل کے قیام اور ترقی کے عمل میں فلسطین میں رونما ہونے والی تباہی کو، حتیٰ کہ معمولی درجے کی تسلی بخش حد تک بھی، حل کرتے ہوئے ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔

اور اب [غزہ کی جنگ] اسرائیلی ریاست کے لئے عملی امتحان (ٹیسٹ کیس) ہے۔ اسرائیلی حکومت اس جنگ کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہے، جسے درج ذیل میں سے کسی ایک شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے:

- یہ جنگ اپنے حکمران [اس معاملے میں بنیامین نیتن یاہو] کی ملازمت اور سیاسی حیات اور عہدے کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے؛  

- انتقام کی بھڑاس کا تشنجی (اور مضطربانہ  = Convulsive) مگر غیر اطمینان بخش انداز سے نکالنا؛ یا

- روز بروز واضح ہوتی ہوئی ہوئی نسلی صفائی (Ethnic cleansing)؛

بھوکے بچوں پر اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں گولیاں مارے جانے کی خبریں، ـ جو کھانا ڈھونڈنے کی مایوسانہ کوشش میں تھے ـ ناگزیر طور پر یہ سوال پیدا کرتی ہیں: "کیا افراد یا عالمی برادری اب بھی اس اسرائیلی ریاست کو جائز سمجھنے کی پابند ہے جس کے ہاتھوں غزہ کی انسانی آبادی تباہ ہو رہی ہے؟"

تو اب، آیا اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے یا نہیں ہے؟ بنیادی طور پر یہ ایک معنوی (Semantic) سوال ہے۔ یہ کہ آیا اسرائیل کی ریاست کو وجود کا حق ہے، یا نہیں!  یہ درجہ بندی (Classification) کی غلطی ہے۔ حقیقی سوال، اور ایک جو یہودیوں اور غیر یہودیوں کے درمیان توجہ اور بحث کا مستحق ہے، وہ یہ ہے کہ کیا اسرائیلی حکومت، جس نے اپنے قیام کے بعد سے ریاست پر حکومت کی ہے، اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا اس نے اپنی حکومتوں کے فیصلوں کے لئے دوسروں سے احترام اور قبولیت کا مطالبہ کرنے کی صلاحیت کھو دی ہے؟

(ریفرنسز آخری قسط کے آخر میں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha