بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی مقاومتی تحریک حماس نے جنگ بندی کی ایک نئی تجویز موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ "ہمیں ثالثوں کے ذریعے امریکی فریق کی طرف سے جنگ بندی کا سمجھوتہ حاصل کرنے کے لئے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔"
حماس کے بیان میں کہا گیا: "ہم ایسے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو جارحیت روکنے کی کوششوں میں معاون ہو۔"
حماس نے مزید کہا ہے: "ہم فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں تاکہ 'جنگ کے خاتمے کے صریح اعلان' کے واضح اعلان کے بدلے 'تمام قیدیوں کی رہائی پر بات چیت' کی جا سکے۔"
تحریک مقاومت اسلامی 'حماس' نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے: "ہم جنگ کے خاتمے، غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء اور 'غزہ پٹی کے انتظام کے لئے ایک آزاد اور خودمختار کمیٹی' کے قیام کے بدلے قیدیوں کی رہائی پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔"
حماس نے زور دیا: "ایسی ضمانت دی جانی چاہئے کہ دشمن اعلانیہ طور دو ٹوک طور پر نئے معاہدے کی پابندی کرے گا۔ تاکہ ماضی کے تجربات دہرائے نہ جائیں۔"
حماس نے مزید کہا ہے: "ہم ثالثوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ امریکی فریق کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو ایک جامع معاہدے میں تبدیل کیا جا سکے، ایسا معاہدہ جو ہمارے عوام کے مطالبات کی تکمیل کرے۔"
کچھ گھنٹے قبل اسرائیلی نیٹ ورک i12 نے اعلان کیا کہ ٹرمپ نے حماس کو ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس میں ـ پچھلی تجاویز کے مقابلے میں ـ بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ تجویز ذیل کے نکات زور دیتی ہے:
1۔ معاہدے کے پہلے دن 48 صیہونی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ہلاک شدہ صہیونی قیدیوں کی لاشیں حوالے کی جائیں اور اس کے بدلے 2000 سے سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
2۔ اسرائیل غزہ شہر پر قبضے کے لیے 'گیڈئون 2' نامی کارروائی روک دے گا۔
3۔ جنگ ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا عمل فوری طور پر براہ راست ٹرمپ کی نگرانی میں شروع ہوگا۔
4۔ مذاکرات کے دوران جنگی کارروائیاں دوبارہ شروع نہیں ہوں گی۔
5۔ یہ تجویز اس مفروضے پر مبنی ہے کہ حماس جنگ کے خاتمے کے بارے میں ٹرمپ کے وعدوں پر اعتماد کرے، کیونکہ قیدیوں کی واپسی کے بعد صہیونی ریاست کے لئے جنگ جاری رکھنے کے لیے داخلی اور بین الاقوامی جواز حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اسی سلسلے میں، اسرائیلی نیٹ ورک i13 نے باخیر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ ٹرمپ نے اپنے ایلچی 'اسٹیو وِٹکاف' کے ذریعے حماس کو اپنی تجویز بھیجوائی اور گذشتہ اتوار کی ملاقات میں وِٹکاف سے کہا کہ اس معاملے کو آخر تک جاری رکھا جائے اور جامع معاہدے کے حصول کی کوشش کی جائے۔
نکتہ:
واضح رہے کہ حماس کے بعض راہنماؤں نے امریکہ اور صہیونی ریاست کی سابقہ عہد شکنیوں کی بنا پر ٹرمپ اور امریکہ کے وعدوں پر شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
یاد رہے وٹکاف نے ایران کو بتایا تھا کہ مذاکرات کے دوران اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کرے گا، لیکن مذاکرات کے عین وقت پر اس نے حملہ کیا اور امریکہ نے بھی اسرائیل کا ہاتھ بٹایا چنانچہ ان شیطانوں پر اعتماد کم عقلی کا ثبوت ہو سکتا ہے۔
فلسطینی اور عالمی رائے عامہ کا عام اور سادہ سا سوال ہے کہ امریکہ غزہ پر جارحیت اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام اور جبری بھکمری میں برابر کا شریک ہے تو وہ کیونکر ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ