اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ ابنا || ڈاکٹر پروفیسر فواز جرجس کہتے ہیں:
اب خطے میں امریکہ کے دیگر اتحادی واشنگٹن پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، جب اسرائیل اس کی معلومات اور اجازت سے ایک آزاد اور امریکی اتحادی ملک پر حملہ کرتا ہے؟ یہاں تک کہ یورپ بھی اب امریکا پر اعتماد نہیں کرتا۔ اس اقدام کے امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات ہوں گے؛ کیونکہ اب اور کوئی بھی ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ آج امریکا انتشار، لاقانونیت اور افراتفر کا شکار ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی قیادت کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔ انٹرویو ملاحظہ ہو:
میزبان: بہت سے لوگ حیرت زدہ ہوئے اس حملے سے، یہ حملہ کیوں انجام پایا؟
ڈاکٹر جرجس: امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر حماس کو دھوکہ دیا، غداری کی، انہیں توقع تھی کہ وہ سب ایک کمرے میں اکٹھے ہوجائیں اور اسرائیل ان سب کو یکجا قتل کردے۔ اس حملے سے متعلق معلومات سے قطع نظر، اس حملے کا مطلب یہ ہے کہ قطر کی ثالثی اختتام پذیر ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں ہمہ جہت جنگ لڑنا چاہتا ہے۔
میزبان: ہم نے وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے بھی سنا کہ شاید یہ ایک موقع ہو کہ امن کے حصول کے لئے، اور شاید امن کی بنیادوں کو مستحکم کر دے، یا جنگ بندی تک پہنچنے کے لئے!!! لگتا ہے کہ آپ کی سوچ اس سے مختلف ہے!!
ڈاکٹر جرجس: مجھے یہ مسئلہ بالکل سیدھا اور دوٹوک انداز میں بیان کرنے دیجئے، جو کچھ بنیامین نیتن یاہو کر گذرنا چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ اور قطر میں اس ناکام حملے کے درمیان غیریت کا تصور ابھارنا چاہتا ہے اور زور دے رہا ہے کہ گویا یہ اسرائیل نے اپنی مرضی سے کیا ہے، مسلسل یہی بات دہرا رہا ہے کہ اس کی اپنی مرضی کا حملہ تھا۔
اس حملے سے پہلے ایک اسرائیلی اہلکار نے ایک اسرائیلی ذریعے سے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو 'ایک ہری بتی' دکھائی تھی۔ کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بنیامین نیتن یاہو جرات کرے اور مشرق وسطی میں ـ واشنگٹن کی ہری بتی کے بغیر ـ امریکہ کے حامی پر حملہ کرے!؟
وائٹ ہاؤس نے خود ہی اعتراف کیا کہ امریکہ اس حملے سے پیشگی با خبر تھا! میں یہاں صرف نقل کر رہا ہوں یہ بات کہ امریکیوں نے کہا: "حماس کے تمام رہنماوں کو ایک ہی حملے میں مار ڈالنا اس کے قابل تھا۔"
چنانچہ آپ کے سامعین و ناظرین کو جان لینا چاہئے کہ نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ قطر پر اسرائیلی حملے سے باخبر تھے، بلکہ میرے ادراک کے مطابق، امریکہ نے نیتن یاہو کو ہری بتی دکھا دی ہے۔ ٹرمپ کو توقع تھی کہ اسرائیل اپنے حملے میں حماس کی پوری قیادت یکجا مار ڈالے گا۔
امریکی قیادت کہاں ہے، امریکی قیادت کو کہاں تلاش کرنا چاہئے؟ وہ قیادت جس کی کوشش ہونی چاہئے کہ آگ کو بجھا دے نہ یہ آگ پر تیل چھڑک دے۔
اچھی بات ہے کہ آپ کے ناظرین جان لیں کہ قطر پوری دنیا میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈوں میں سے ایک کا میزبان ہے، قطر امریکہ کا قریب ترین 'غیر نٹیو اتحادی' ہے۔ قطری حکام نے امریکی دورے کے دوران وعدہ کیا کہ وہ امریکہ میں 1000 ارب (ایک ٹریلین) ڈالر کی اقتصادی سرمایہ کاری کرے گا؛ قطر خلیج فارس تعاون کونسل کا رکن ملک ہے؛ ایک اقتصادی اداکار اور طاقت سمجھا جاتا ہے، قطر بھی اور اس کونسل کے دوسرے اراکین بھی۔
یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ پیشگی جانتا تھا کہ اسرائیل قطر پر حملہ کرنے والا ہے، ایک خودمختار ملک پر حملے کرنا والا ہے، قطر کی تذلیل کرنا چاہتا ہے، امریکہ کے ایک اتحادی کی تذلیل؛ اور اصولی طور پر [ٹرمپ] بنیامین نیتن یاہو کو اس کام انجام دینے کی اجازت دیتا ہے، تو اب مشرق وسطی کے راہنما ـ حتی کہ امریکہ کے اتحادی ـ امریکہ پر کیونکر اعتماد کر سکیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتماد کر سکیں گے؟
یورپی بھی مزید ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتماد نہیں کرتے، اسرائیل کا یہ حملہ ـ وہ امریکہ کی شہ پر ـ پوری دنیا میں امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ کیونکہ امریکہ مزید معتبر نہیں ہوگا، دنیا میں کوئی بھی صدر ٹرمپ کی بات پر یقین نہیں کر سکے گا۔ اسی بنا پر آپ ایسے ممالک کو دیکھ رہے ہیں جو رفتہ رفتہ دوسرے فریقوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں؛ یا تو چین کی طرف چلے جاتے ہیں یا پھر خود بیٹھ کر ـ امریکی مدار سے باہر ـ اپنے اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں شدید لاقانونیت اور افراتفری کا شکار ہو گیا ہے۔
جی ہاں! گوکہ یہ حملہ قطر پر ہؤا جو بہت چھوٹا ملک ہے، لیکن اس سے معلوم ہؤا کہ امریکی قیادت یہاں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیامین نتین یاہو اس قدر گستاخ ہوگیا ہے کہ سوچ رہا ہے کہ جو کچھ بھی اس کا جی چاہے، ـ پورے اسثنا کے ساتھ ـ کر سکتا ہے؛ اور ہر ملک کو اور حتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بذات خود، اپنی انگلیوں پر نچائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ