بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق تسنیم نیوز کے مطابق اتوار کو تہران میں تعینات غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کے دوران عراقچی نے ایران کے اپنے دفاع کے حق اور اسرائیلی حکومت کے خلاف جوابی کارروائی کے جواز کو دہرایا، جو 13 جون سے ایران کے جوہری، عسکری اور شہری مقامات پر حملے کر رہی ہے۔
انھوں نے زور دیا کہ اسرائیلی حکومت امریکہ کی حمایت کے بغیر اس قسم کی جارحیت کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔
عراقچی نے کہا کہ ایران حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کے پاس ایسے مضبوط شواہد موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ امریکی افواج اسرائیلی حملوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ شواہد سے بھی اہم بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی کھلی حمایت ہے، امریکہ اسرائیلی حملوں میں شریک ہے اور اسے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ امریکہ اپنے موقف کی وضاحت کرے اور ایران کے جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرے، انھوں نے کہا کہ تہران کو توقع ہے کہ واشنگٹن اسرائیل سے خود کو علیحدہ کرے گا۔
انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیلی جارحیت پر خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں عسکری اور اقتصادی اہداف کو نشانہ بنانا، خود دفاع اور دشمن کی جارحیت کا جواب تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ایران نے پہلی لہر میں صرف اسرائیلی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، لیکن جب اسرائیل نے دوسرے روز اقتصادی اہداف پر حملے شروع کیے، تو ایران نے بھی جوابی طور پر ہفتے کی رات اقتصادی مراکز کو نشانہ بنایا۔
ایرانی خبر رساں ادارے مہر نیوز کے مطابق عباس عراقچی نے کہا کہ ایران پوری قوت سے اپنا دفاع جاری رکھے گا۔
انھوں نے غیرملکی سفرا کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب نے غزہ کے معاملے میں مشاہدہ کیا کہ صرف بے گناہ فلسطینی عوام ہی غزہ میں قتل نہیں کیے گئے، بلکہ انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون، اور تمام بین الاقوامی معیار بھی غزہ میں پامال کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اس بار صہیونی ریاست نے جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے بین الاقوامی قانون کی ایک نئی سرخ لکیر عبور کی ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک سنگین خلاف ورزی اور ناقابل قبول اقدام ہے اور کسی بھی صورت میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سلامتی کونسل نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، البتہ بہت سے ممالک بالخصوص خطے کے ممالک نے ایران کے خلاف صہیونی جارحیت اور خاص طور پر جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی ہے۔
انھوں نے کہاکہ یقیناً یورپ کے کچھ ممالک، جو مہذب ہونے اور بین الاقوامی قانون کے پابند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انھوں نے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے ایران کی مذمت کی، حالانکہ ایران خود جارحیت کا نشانہ بنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے جارحیت کا جواب دیا ہے، اور ہمارا جواب مکمل طور پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اور خود دفاع کے اصول پر مبنی ہے، ہر ملک کو اپنے خلاف جارحیت کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے اور یہی وہ کام ہے جو ہماری مسلح افواج نے دو رات قبل شروع کیا تھا، اور گزشتہ شب آپ نے اس کا نیا پہلو بھی دیکھا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی اور اقتصادی اہداف پر میزائل حملے کرنا صرف اپنے دفاع اور جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے، پہلی رات ہم نے صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، لیکن چونکہ کل صہیونی حکومت نے تہران کی ریفائنری اور عسلویہ میں کچھ علاقوں پر حملہ کیا، اس لیے ہم نے بھی اقتصادی اہداف کو نشانہ بنایا، اور مقبوضہ فلسطین میں ریفائنری پر بھی حملہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ عسلویہ پارس گیس فیلڈ پر حملہ کھلی جارحیت اور نہایت خطرناک اقدام تھا، خلیج فارس کے خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلانا ایک بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی ہے، جو غالباً دانستہ اقدام ہے، اور اس کا مقصد جنگ کو ایرانی سرزمین سے باہر نکالنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خلیج فارس ایک نہایت حساس اور پیچیدہ علاقہ ہے اور یہاں کوئی بھی فوجی پیش رفت پورے خطے بلکہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتی ہے، یہ اقدام صہیونی ریاست نے کل کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری فوری طور پر ان جرائم اور جارحیت کو روکنے کے لیے قدم اٹھائے گی۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری طاقت سے اپنا دفاع جاری رکھے گا، اور ہماری مسلح افواج پورے اختیار کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔
انھوں نے کہا کہ ہم اپنا دفاع کرتے ہیں، جو مکمل طور پر جائز ہے، اور ہم اختیار کے ساتھ اپنا دفاع کرتے ہیں، اور یہ دفاع ہی ہمارا جواب ہے، لہٰذا اگر جارحیت رک جائے، تو قدرتی طور پر ہمارے ردِعمل بھی رک جائیں گے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیل نے اہم ایرانی عہدیدار کو شہید کرکے جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، اسرائیلی حملوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے خلاف ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیلی حملے سے تنازع پورے خطے میں پھیل جائے گا۔
عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام پر کاربند ہے، حملہ ظاہرکرتاہے کہ اسرائیل ایران کاعالمی جوہری معاہدہ نہیں چاہتا، انھوں نے واضح کیا کہ ایران 60 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کا عمل جاری رکھے گا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت نے 13 جون کی علی الصبح تہران کے متعدد رہائشی علاقوں اور ایران کے دیگر حصوں میں واقع عسکری و جوہری مراکز پر حملے کیے تھے۔
ان حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز، کم از کم چھ ایرانی جوہری سائنسدان، اور درجنوں عام شہری شہید ہو چکے ہیں۔
ایرانی مسلح افواج نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے کئی شہروں پر تباہ کن بیلسٹک میزائلوں سے جوابی کارروائی کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت؛
امریکہ اسرائیلی حملوں میں شریک ہے، اسے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، وزیر خارجہ

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیلی حملوں میں شریک ہے، اسے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، ایران کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائیوں میں امریکی افواج اسرائیلی حکومت کی معاونت کر رہی ہیں، انہوں نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ ان کارروائیوں سے پیچھے ہٹ جائے۔
آپ کا تبصرہ