صہیونی ریاست کا دوحہ میں حماس کے اجلاس پر حالیہ حملہ کوئی نیا اور الگ تھلگ واقعہ نہیں، بلکہ "مذاکرات" کے نام پر بنائے گئے منصوبہ بند جالوں کی ایک اور کڑی ہے۔ ایک ایسا دہرایا جانے والا نمونہ جس کا آغاز ایک سفارتی چہرے کے منظر عام پر آنے سے ہوتا ہے اور دھوئیں، آگ اور خون کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔
اس ویڈیو کلپ میں لندن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے استاد ڈاکٹر پروفیسر فواز جرجس (Fawaz A. Gerges) نے قطر پر ـ امریکی حمایت میں ـ غاصب صہیونی ریاست کے حملے پر تبصرہ کیا ہے اور کہا ہے: "امریکہ اور اسرائیل نے غداری کی اور حماس کے رہنماؤں کو دھوکہ دیا اور مذاکرات کے بہانے ان سب کو ایک ساتھ ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ نیتن یاہو کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ اور قطر میں اس ناکام حملے کے درمیان فاصلہ پیدا کرے اور مسلسل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ کارروائی اس کی اپنی مرضی کے مطابق تھی لیکن یہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نیتن یاہو نے واشنگٹن کی "ہری بتی" کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اتحادی پر حملہ کر ہی نہیں سکتا۔
نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کے خواہاں ہیں۔ یہ مسئلہ، جو پہلے صرف نظریاتی سطح پر زیر بحث تھا، پہلی بار اس حکومت کے ایک سرکاری عہدیدار نے عمومی طور پر بیان کیا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل 'پانی' کو بطور ہتھیار استعمال کرکے مصر پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ غزہ سے جبری طور پر نکالے گئے مظلوم فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں رہائش کی اجازت دے دے۔
نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کے خواہاں ہیں۔ یہ مسئلہ، جو پہلے صرف نظریاتی سطح پر زیر بحث تھا، پہلی بار اس حکومت کے ایک سرکاری عہدیدار نے عمومی طور پر بیان کیا ہے۔