اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عجب ہیں وہ جو مولا کے نام پر جھگڑا کررہے ہیں وہ بھی چودہ صدیوں سے! کہتے ہیں " مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا علیٌ مَولاه" میں "مولا" کا مطلب دوست ہے!!! ویسے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حدیث رسول کی تاویل جائز نہیں ہے بالخصوص اہل حدیث اور وہابی تو حدیث اور قرآن کے ظواہر میں تاویل کرنا جائز ہی نہیں سمجھتے اور کہتے کہ "الرَّحْمنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى" (سورہ طہ، آیت 5) کا مطلب ہے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے اور " أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ" (سورہ شرح، آیت 1) کے معنی یہ ہیں کہ "کیا ہم نے آپ کے سینے کا آپریشن نہیں کیا" گوکہ جب ہم کہتے ہیں کہ "قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي" (سورہ طہ، آیت 25) کا مطلب پھر کیا ہوگا؟ تو خفا ہوجاتے ہیں۔ یہی لوگ "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" (سورہ مائدہ، آیت 55) پر آتے ہیں تو بھی اصرار کرتے ہیں کہ "ولی" کا مطلب "دوست" ہے!!
مسلمانوں کی پوری تاریخ کچھ لوگوں کو فضیلت دینے اور کچھ لوگوں کی فضیلت چھیننے پر صرف ہوئی، کچھ کو فضیلت دینا بھی کچھ کی فضیلت چھیننے کے لئے تھا اور ہے۔ کچھ جو بلندی پر نہیں جاسکتے تھے تو کچھ کی بلندی چھیننے کی کوشش کی گئی تاکہ سطح برابر ہوجائے حالانکہ علماء کا کام یہ تو نہیں ہے۔ علماء کا کام یہ ہے کہ جو دھارا علم کا اللہ اور اس کے رسول نے عطا کیا ہے اسی کے مطابق حرکت کریں اور اگر مسلم علماء یہی کام کرتے تو آج کوئی شیئے مبہم نہ ہوتی اور مسلمان ایک روشن اور آشکار دین سے متلذذ ہوتے اور ترقی کرتے اور دشمنان دین ان پر مسلط نہ ہوتے لیکن 14 صدیوں سے مسلم علماء علم حاصل کرتے ہیں صرف اس لئے کہ اللہ کے دیئے ہوئے دھارے کا رخ بدل دیں اور اپنا سرمایہ اسی پر خرچ کریں اور بہتے دریا کے رخ کو پلٹا دیں۔
آپ توجہ کریں ذرا: قتل و غارت کے فتوے، تکفیری تفکرات، مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے کس وجہ سے پیدا ہوئے؟ مسلمانوں پر کفار کا تسلط ـ جو قرآن نے حرام قرار دیا ہے ـ کیوں آج پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے؟ یہاں تک کہ اب تو تاویل آیات کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ آیات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہود کی دوستی کو قابل فخر سمجھا جانے لگا ہے اور وہ جو علمبردار کہلواتے تھے عظمت اسلام کے، وہ یہودیت کی گود میں جابیٹھے ہیں لیکن تکفیری فتووں کی منڈی گرم کرنے والے خاموش ہیں اور ان کو قرآن کی وہ آیات کسی بھی رد عمل پر آمادہ نہیں کررہی ہیں جن میں یہود کو بدترین دشمن قرار دیا گیا ہے اور یہود و نصاری کے ساتھ دوستی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو فرض اور آپس میں رحم و شفقت کو مسلمانوں کی خصوصیت قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انما ولیکم اللہ اور من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ میں لفظ مولا کی تاویل کی جاتی رہی ہے اور جن کو اللہ نے چن رکھا ہے مسلمانوں کے لئے، ان کا درجہ گھٹانے کے لئے غیر برگزیدگان کا درجہ بڑھانے اور غیر برگزیدگان کا درجہ بہتر بنانے کے لئے برگزیدگان کا درجہ گھٹانے پر پورا علم اور پورا سرمایہ خرچ کیا جاتا رہا ہے۔
چودہ صدیوں کے اس عرصے میں اس عجیب و غریب تاویل کا علمی جواب دیا گیا ہے لیکن گویا کہ جن کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے وہ نہ تو پڑھتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں اور اگر پڑھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں تو اس جواب کو نظر انداز کرتے ہیں اس لئے کہ ان کی دکانیں کہیں بند نہ ہوجائیں کیونکہ ان کی دکانیں عوام کی جہالت کے ویرانوں پر بنی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں، میں نے مشرف بہ تشیّع ہونے والے ایک ایرانی عالم دین کا ایک واقعہ پڑھا جو شاید سادہ اندیش لوگوں کے ادراک کے لئے آسان، بہت سادہ اور بہت مدلل اور منطقی ہے۔
دیکھئے:
مجھے شیعہ ہونا چاہئے تھا!
"ہر وقت سوچتا رہتا تھا کہ کس طرح سے ثابت کروں کہ حدیث غدیر میں "مولا" سے مراد "دوست" نہيں ہے بلکہ اس کے معنی "پیشوا" اور "رہبر و سرپرست و حاکم" کے ہیں۔ حتی کہ این دن میں مولوی محمد عمر سربازی کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ کتاب کو پڑھ لیا اور بند کیا تو نظریں جلد کے اوپر لکھے ہوئے نام پر پڑیں: "مولانا محمد عمر سربازی"۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی حضرات سے لفظ "مولانا" کے معنی پوچھ لوں اور ان سے سوال کروں کو مولوی محمد عمر سربازی کو "مولانا" کیوں کہتے ہیں؟ کئی مولویوں سے پوچھا تو انھوں نے کہا: لفظ "مولانا" میں مولا کے معنی "ہمارے واجہ، ہمارے رہبر، ہمارے پیشوا!"۔
میں نے ان سے کہا: حیران ہوں! "مولا" کا لفظ آپ کے اکابرین کے لئے رہبر و پیشوا کے لئے آتا ہے لیکن [خدا] اور رسول کے کلام میں یہی لفظ "دوست" کے معنی میں آیا ہے!!!
چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ایک سنی دوست مجھ سے ملنے آئے تو میں نے ان کے ساتھ اہل بیت کی حقانیت کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی اور غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خطبے سے استناد کیا۔ ہمارے سنی دوست کہہ رہے تھے کہ خطبہ غدیر میں لفظ "مولا" کے معنی "دوست" کے ہیں اور اس کے معنی سرپرست اور پیشوا اور رہبر کے نہیں ہیں۔ میں دلائل لاتا رہا اور وہ بغیر کسی دلیل و سند و ثبوت کے انکار کرتے رہے اور آخرکار وداع کرکے سیستان و بلوچستان کی طرف روانہ ہوئے۔
ایک گھنٹہ سفر کیا ہوگا میرے دوست نے کہ میں نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور کہا: "آپ سے بہت ہی زیادہ ضروری کام پیش آیا ہے فورا واپس تشریف لائیں"۔
کہنے لگے: "نہیں بھائی، میں واپس نہیں آ سکتا، میرے گھر والے میرا انتظار کررہے ہیں اور پھر میں نے کافی فاصلہ طے کرلیا ہے، کیا کام ہے آپ کا مجھ سے؟ فون ہی پر کہہ دیں"۔
میں نے کہا: کام بہت اہم ہے اور میں فون پر نہیں بتا سکتا آپ کو خود یہاں ہونا چاہئے۔
میرے شدید اصرار پر وہ واپس آئے اور جب میرے پاس پہنچے تو کہنے لگے: "آپ کا اہم کام کیا تھا کہ دوبارے اپنے پاس لوٹا دیا؟
توجہ فرمائیں علامہ زاہدی صاحب کے جواب کو::
میں نے کہا: میں آپ کو دوست رکھتا ہوں!
دوست میرے بڑے ناراض ہوئے اور کہنے لگے: یہی بتانے کے لئے مجھے واپس لائے ہیں یہاں؟
میں نے کہا: جی ہاں یہ بتانے کے لئے کہ میں آپ کا دوست ہوں اور آپ کو دوست رکھتا ہوں!
میرے دوست نے کہا: میرے گھر والے منتظر تھے اور مجھے جانا چاہئے تھا؛ آپ نے مجھے اتنا طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس بلایا صرف اس لئے کہ کہہ دیں کہ "میں آپ کا دوست ہوں یا میں آپ کو دوست رکھتا ہوں؟ کیا مجھے ایذا پہنچانے کا ارادہ تھا؟"۔
میں نے کہا: میرا سوال بھی یہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ اتنی عجلت سے جارہے ہیں اس لئے کہ آپ کے گھر والے آپ کا انتظار کررہے ہیں اور میں جب آپ کو لوٹاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ "میں آپ کو دوست رکھتا ہوں" تو آپ ناراض ہوجاتے ہیں اور مجھے ناقص العقل قرار دیتے ہیں لیکن جب ہزاروں مسلمانوں کے گھر والے منتظر ہوتے ہیں اور رسول اللہ(ص) ان کو لوٹا دیتے ہیں اور سورج کی شدید تمازت میں تین دن تک روک لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ "جس کا میں "دوست" ہوں یہ علی(ع) ان کے "دوست" ہیں، تو آپ پیغمبر(ص) کے اس عمل کو معقول سمجھتے ہیں؟ کیا اگر رسول اللہ(ص) نے ایسی صورت حال میں فرمایا ہوتا کہ "جس کا میں "دوست" ہوں یہ علی(ع) بھی ان کے "دوست" ہیں۔ تو کیا مسلمان آپ(ص) سے ناراض نہ ہوتے اور (معاذ اللہ) مسلمان اپنے پیغمبر کی عقل میں شک نہیں کرتے؟
میرے دوست حیرت زدہ ہوچکے تھے اور ان کی زبان بند ہوچکی تھی، انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ کتنی مضحک بات ہے یہ کہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے اتنی شدید گرمی میں تین دن تک مسلمانوں کو روکا اس لئے کہ ان سے کہہ دیں کہ "علی(ع) ان کے دوست ہیں"؛ اور انھوں نے کم از کم یہ اقرار کرلیا کہ "غدیر خم کے واقعے میں خدا کے رسول اللہ(ص) کا مقصد ایک بہت اہم حقیقت کا اعلان کرنا تھا ورنہ دوستی کے اعلان کے لئے ضروری نہیں تھا کہ مسلمانوں کو لوٹا کر تین دن تک نہایت شدید گرمی میں روک لیں"۔
کتاب "مجھے شیعہ ہونا چاہئے تھا"، مؤلف علامہ شریف زاہدی، ص: 138۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱۰