ایکسیوس نامی امریکی میڈیا کے تجزیے کے مطابق، بیجنگ میں منعقدہ عظیم پریڈ کی تقریب کے بعد، جہاں چین، روس، شمالی کوریا اور ایران کے رہنما اکٹھے ہوئے، "امریکی صدر کی بدولت تیز رفتار عالمی طاقت کی ساختی پلیٹیں (Tectonic plates) تیزی سے حرکت میں ہیں، اور اس ہفتے چین سے دنیا بھر میں نشر ہونے والی تصاویر [عالمی طاقت کی] اس نقل مکانی کے حتمی مقصد کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔"
ایکسیوس کے مطابق، چین، روس اور شمالی کوریا کے رہنما کل رات بیجنگ میں ایک ساتھ چل کر ایک عظیم فوجی پریڈ میں شریک ہوئے تاکہ واشنگٹن کو ایک پیغام بھیجیں۔
رپورٹ کے مطابق، پہلی بار ایسا ہؤا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ان تین طاقتوں کے رہنما، جو برسوں سے امریکی اتحادوں، پابندیوں اور [امریکی] "اصولوں پر مبنی نظام" سے رنجیدہ خاطرہیں، ایک ساتھ اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ اتحاد کا مظاہرہ کریں، اور ڈونلڈ ٹرمپ دور سے اس ماجرا کو دیکھ رہے تھے؛ یہاں تک کہ انھوں نے [بے بسی کے عالم میں] شی جن پنگ کو ایک پیغام بھیجا: "براہ کرم جس وقت آپ امریکہ کے لئے سازش کر رہے ہیں، ولادیمیر پوٹن اور کم جونگ کو میرا گرم گرم سلام پہنچایئے!"۔
اس امریکی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، یہ ممالک، جنہوں نے ایران کے ساتھ مل کر [امریکہ کے بقول] "محور آشوب" (فساد کا محور) کا خطاب دیا گیا ہے، نے باہمی تعاون کو گہرا کر دیا ہے، اور ٹرمپ کے مشیروں کے لئے خاص طور پر پریشان کن امر روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہؤا تعلق ہے۔
رپورٹ میں امریکی صدر کے روسی ہم منصب کے قریب ہونے اور یوکرین جنگ ختم کرنے کی ناکام کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "کچھ لوگوں کا استدلال ہے کہ پوٹن کو مسترد کرنے کے بجائے قریب لا کر شاید روس کو چین سے الگ کیا جا سکتا ہے، لیکن اب تک یہ محض ایک خواب ہی ثابت ہوا ہے"۔
ایکسیوس نے لکھا ہے کہ امریکہ مخالف محور کے بڑے ممالک کے درمیان باہمی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں "لیکن فی الحقیقہ، ان کے درمیان رابطے کے عوامل، بشمول امریکہ کے خلاف مشترکہ دشمنی، اختلافات سے کہیں بڑھ کر ہیں"۔
بیجنگ میں دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ فوجی پریڈ میں اہم شخصیات نے شرکت کی اور فوجی ساز و سامان کی نمائش کی گئی۔ شی جن پنگ نے اعلان کیا کہ "چینی قوم ظالموں سے کبھی نہیں ڈرتی اور مسلسل آگے بڑھتی رہتی ہے"۔ اس کے بعد بیجنگ کی سڑکوں پر جدید ترین ہتھیاروں کی پرکشش رونمائی ہوئی، جن میں بین البراعظمی ایٹمی بیلسٹک میزائل، لیزر انٹرسیپٹر اور دیو ہیکل آبدوز ڈرونز شامل ہیں۔
ایکسیوس کے تجزیے کے مطابق، جہاں شی جن پنگ کی دنیا بھر کے 20 سے زائد رہنماؤں کے ساتھ بیجنگ میں اکٹھے ہونے کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں میں نمایاں ہیں، وہیں ایک دن قبل کی ایک اہم تصویر امریکی پالیسی سازوں کو اتنا ہی پریشان کرے گی۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی، جو ٹرمپ کی تجارتی پابندیوں اور توہین آمیز رویے سے ناخوش ہیں، تیانچن میں منعقدہ ایک اقتصادی فورم میں شی جن پنگ اور ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ظہورپذیر ہوئے!
ایکسیوس کے تجزیے کے مطابق، "امریکہ کی یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اپنی انڈو-پیسیفک حکمت عملی کی بنیاد، بنیادی طور پر ہندوستان کے ساتھ شراکت اور چین کے ساتھ رقاب پر رکھی تھی، لیکن اب شی جن پنگ واضح طور پر امریکہ اور ہندوستان کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" انھوں نے مودی سے کہا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ ڈریگن اور ہاتھی مل کر چلیں۔"
اس ذریعۂ ابلاغ نے امریکہ کی گذشتہ اور موجودہ حکومتوں کے رویوں کا موازنہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو احساس ہؤا کہ امریکہ کے دشمن متحد ہو رہے ہیں، اسی لئے وہ امریکہ کے روایتی اتحادیوں کے قریب تر آ گئی۔ تاہم ٹرمپ امریکہ کو عالمی میدان کا سب سے طاقتور کھلاڑی سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ دوسرے ممالک کو آپس میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس، ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ وہ "امریکہ مخالف محور کے مضبوط ہوتے وقت" امریکہ نواز اتحاد کو کمزور کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ