بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران پر کیے گئے 12 روزہ صہیونی جارحیت کے بعد، ملک کے سیاسی اور سیکورٹی حلقوں میں دفاعی صلاحیتوں اور کمزوریوں پر گرماگر بحثیں چل رہی ہیں۔
بلاشبہ، ایک اہم نکتہ جو دشمن کے لئے ایران کو نقصان پہنچانے کا موقع فراہم کرتا رہا ہے، وہ 'مقام پر مبنی خدمات' (Location-based services) کا GPS نیویگیشن سسٹم پر انحصار ہے۔ اسی وجہ سے، جنگ بندی کے فوراً بعد ہی، ماہرین اور ذمہ داران نے مغربی نیویگیشن سسٹم کی جگہ کسی متبادل نظام کے استعمال پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے ژاؤ زیوین کے ایک آرٹیکل میں اس موضوع کو تفصیل سے اٹھایا ہے: ایران چین کے بیڈو (BeiDou Navigation System) سسٹم کو اپنا سیکورٹی خلا پر کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ اقدام طویل مدت میں مغربی ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران کا چین کے سیٹلائیٹ نیویگیشن نظام بیڈو (BeiDou) میں شامل ہونے کا منصوبہ مغربی ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے، کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کا شعبہ اب ایک اہم محاذ جنگ بن رہا ہے۔
یہ منصوبہ اس وقت سنجیدگی سے زیر غور آیا جب جون میں 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کو اپنی فوجی اور جوہری تنصیبات پر امریکہ اور اسرائیل کے حملوں سے قابل ذکر نقصان اٹھانا پڑا۔
ایران کے ڈپٹی وزیر مواصلات 'احسان چیت ساز' نے گذشتہ مہینے تصدیق کی تھی کہ ان کی وزارت نے جان بوجھ کر اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران GPS سگنلز کو بلاک کر دیا تھا تاکہ دشمن کے ڈرونز اور میزائلز کو گمراہ کیا جا سکے۔
چیت ساز نے کہا کہ تہران ملک کی کچھ 'مقام پر مبنی خدمات' جیسے کہ نقل و حمل اور زراعت سے متعلق خدمات کا بنیادی ڈھانچہ بدلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران چینی بیڈو جیسے سسٹمز کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی معاہدے کے اہم نکات میں سے ایک ہے۔
تہران اسٹراٹیجک اسٹڈیز سینٹر، کے رکن علی اکبر دارینی کہتے ہیں: "ایران کا بیڈو کی طرف جانا ایک خالصتاً ایرانی اسٹراٹیجک فیصلہ ہے جو مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کے تلخ تجربات کا نتیجہ ہے۔ شاید جون کی جنگ کے دوران GPS سگنلز میں خلل ڈالے جانے جیسے غیر پیشہ ورانہ مغربی اقدام نے ہی ایران کو متبادل کی تلاش پر مجبور کر دیا ہو۔"
چین میڈ پروجیکٹ کے [اطالوی] محقق تیئو نینسینی (Théo Nencini) ) نے کہا: "ایران اپنی دفاعی ڈھانچے میں موجودہ خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا: ایرانی پالیسی ساز اور اسٹراٹیجسٹ اب اپنے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو سمجھ چکے ہیں، خاص طور پر یہ کہ کیسے امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز اس میں دراندازي کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
انھوں نے مزید کہا: ایران کا یہ قدم "ایک مشکل اور پیچیدہ وقت میں چین کے ساتھ ہم آہنگی" کا ایک طریقہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اعلان 'ساکھ کے لحاظ سے' چینی مفادات کو تقویت دیتا ہے ـ اور خود کو اور اپنی ہائی-ٹیک مصنوعات کو امریکہ کے مقابلے میں ـ خاص طور پر ایسے حساس شعبوں میں ـ ایک معتبر متبادل کے طور پر ثابت کرنے کی چینی خواہش کو مضبوط کرتا ہے۔
بیڈو (BeiDou) چین کا عالمی نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم (GNSS) ہے، جس کا اکثر امریکہ کے GPS سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں سسٹم پوزیشننگ، نیویگیشن اور ٹائمنگ ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔ بیڈو کی کچھ امتیازی خصوصیات ہیں، جیسے سیٹلائٹس کی ایک بڑی تعداد، نگرانی کے متعدد اسٹیشن، اور کچھ علاقوں میں، GPS سے زیادہ درستگی۔ یہ نظام 60 سیارچوں کے نیٹ ورک کے ساتھ 2020 سے عالمی سطح پر سرگرم عمل ہے؛ 140 ممالک کو خدمات فراہم کرتا ہے لیکن چین نے اب تک کسی بھی ملک کو بیڈو کے "فوجی درجے" کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔
تاہم ایران اور چین کا بیڈو پر تعاون 2020 سے ہے، جب سابق ایرانی سفیر محمد کشاورز زادہ نے چین کے قومی ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ چین یہ نظام ایران کو فراہم کرے گا۔
نیپلز لی اورینٹیل یونیورسٹی میں پروفیسر اور جانس ہاپکنز SAIS یورپ میں وزٹنگ پروفیسر اینریکو فارڈیلا (Enrico Fardella) نے کہا: یہ اقدام مغربی ایشیا میں چینی موجودگی کو "فوجی ماحولیاتی نظام" کی سطح تک بڑھا دے گا۔
بیڈو صرف [ایک نیویگیشن سسٹم] نہیں ہے۔ جب اسے چینی ڈرون، میزائل اور سیٹلائٹ سپورٹ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، تو یہ ایک بڑے فوجی ماحولیاتی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین فوجی اڈے، فوجی یا سازوسامان فراہم کیے بغیر ایران کی مدد کر سکتا ہے۔
شنگھائی یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر فان ہونگدا نے کہا: اگر ایران ـ خاص طور پر حساس اور دفاعی ـ شعبوں میں بیڈو پر انحصار بڑھاتا ہے، تو وہ واضح طور پر 'مغربی ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا دے گا' اور 'چین کی تکنیکی اور فوجی ترقی کو تسلیم کرے گا۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ بیڈو نظام میں ایران-چین شراکت زیادہ ممالک کو اس ٹیکنالوجی کی طرف راغب کر سکتی ہے۔ چین نے 2019 سے، خطے میں اس کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے 'چین-عرب ممالک بیڈو سیٹلائٹ سسٹم کوآپریشن فورم' کے چار دور منعقد کئے ہیں۔
امریکی اتحادی ممالک ـ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ـ چین کے ساتھ سب سے فعال تعاون کر رہے ہیں؛ یہ ممالک چینی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجیز (AI, 5G) کی بڑھتی ہوئی مقدار درآمد کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فان ہونگدا کہتے ہیں کہ "جو ممالک سفارتی تنوع کی پالیسی اپناتے ہیں، ان کے لئے چین ایک قابلِ اعتماد متبادل بن رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کے باوجود، بقائے باہمی بھی ناممکن نہیں ہے۔ یہ بات مغربی ایشیا پر بھی صادق آتی ہے۔"
نیپلز لی اورینٹیل یونیورسٹی کے پروفیسر انریکو فارڈیلا کہتے ہیں کہ "مغربی ایشیا اب ٹیکنالوجی کی نئی جنگ کا میدان بننے جارہا ہے، جہاں امریکہ اور چین کا مقابلہ فوجی اڈوں اور بموں کے بجائے سیٹلائٹس، نیٹ ورکس اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ہوگا۔"
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ایشیا بتدریج تکنیکی میدان جنگ بن جائے گا، جو حالیہ برسوں میں امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تکنیکی مسابقت اور امریکہ کے دباؤ میں چین اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی سیکورٹی مصروفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ چین اور ایران نے حالیہ برسوں میں روس کے ساتھ باقاعدہ بحری مشقیں کی ہیں۔ لیکن چین نے طویل عرصے سے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایران یا جنگ میں شامل دیگر ممالک کو ہتھیار فروخت نہیں کرتا اور اس کا اصرار ہے کہ اس کے ہاں دوہری استعمال کی اشیاء کی برآمد پر سخت نگرانی ہے۔ تاہم، گذشتہ ہفتے، امریکی محکمہ خزانہ نے سرزمین چین، ہانگ کانگ اور تائیوان کی کئی کمپنیوں پر ـ ایران کے فوجی ڈرون پراجیکٹس کی حمایت کے ناطے، ـ پابندیاں عائد کی تھیں۔
سوشل میڈیا اور عالمی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اگر جی پی ایس کی جگہ بیڈو کو دیتا ہے تو اس سے جی پی ایس کے ذریعے شرانگیزی کرنے والی طاقت 'امریکہ' کو بڑا تزویراتی نقصان ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ