بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اس بل کے پیش کرنے والے سینیٹر ٹومی ٹبر ویل (Tommy Tuberville) ، کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے مخالف ممالک کے طلبا امریکی ویزے کا غلط استعمال کرسکتے ہیں اور امریکی مفادات کے خلاف سرگرم ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے بارے میں یونیورسٹیوں کی رپورٹنگ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ وہ تعلیمی ادارے جو اس قانون پر عمل نہیں کریں گے، ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
اس سینیٹر کے مطابق، یہ بل ’امریکی قومی سلامتی اور تعلیمی نظام کے تحفظ‘ کے سلسلے میں وسیع تر اقدامات کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طلبا، خاص طور پر حریف ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی موجودگی، امریکی طلبا کے لئے تعلیمی مواقع کم کر دیتی ہے۔
یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب سیاسی اور سلامتی کے حوالے سے امریکہ اور چین و ایران جیسے ممالک کے درمیان تناؤ جاری ہے۔
ناقدین نے اس بل کو امتیازی اور علمی تبادلے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔
مختصر تبصرہ
یہ امریکی امتیازی اقدام نہ صرف اس کی "کھلی تعلیمی اور تحقیقی فضا" کی تاریخی شہرت کو داغدار کرتا ہے، بلکہ اس کے طویل المدتی نقصانات بھی انتہائی گہرے ہوں گے:
علمی اور سائنسی زوال:
امریکہ کی ترقی کا راز ہمیشہ سے بین الاقوامی ذہانت کو اپنی طرف کھینچنا رہا ہے۔ آج بھی امریکہ میں مقیم 35% نوبل انعام یافتہ افراد غیر ملکی ہیں۔ چین اور ایران جیسے ممالک کے ہونہار طلبا اور سائنسدانوں کو خارج کر کے امریکہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔
ایرانی اور چینی سائنسدان اب اپنے وطن کی خدمت کریں گے
امریکہ سائنس کے میدان میں بھی کمزور ہو جائے گا
امریکہ کی ترقی کا راز ہمیشہ سے "دماغوں کی چوری" (Brain gain or Brain theft) کی بنیاد پر استوار رہا ہے؛ وہ غیر ملکی ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور انجینئرز کو اپنے ہاں اعلیٰ تنخواہوں اور سہولیات کے جال میں پھنسا کر، اپنے وطن واپس جانے سے روکتا رہا ہے۔ یہ "علمی استعمار و استحصال" (یا ساننسی نوآبادکاری) دراصل امریکہ کا وہ عیارانہ طریقہ کار رہا ہے جس نے غریب ممالک کو ان کے بہترین ذہنوں سے محروم کرکے ان کی ترقی کو سبوتاژ کیا، جبکہ امریکہ خود اِن ہی ذہین لوگوں کی محنت کی بنیاد پر سپر پاور بنا۔ آج جب یہی امریکہ ایران و چین جیسے ممالک کے طلبا پر پابندیاں لگا رہا ہے، تو درحقیقت وہ اپنے ہی تعلیمی و سائنسی مراکز کو کمزور کر رہا ہے؛ کیونکہ امریکی کی طرف داخلے کی پابندی سے ان ایرانیوں اور چینیوں کی تعلیم کا راستہ بند نہیں ہوگا، بلکہ وہ تو مزید بہتر انداز سے تعلیم حاصل کریں گے اپنے ممالک میں بھی اور امریکہ کے بغیر دوسرے ممالک میں جاکر بھی، اور یوں مستقبل میں بھی بڑے سائنسدان، ڈاکٹر، انجنیئر اور ماہر کاریگر ان ہی ممالک سے اٹھتے رہیں گے، اور ان میں سے کچھ نوبل بھی پائیں گے، وہ اپنے ممالک میں سائنسدان یا ٹیکنالوجی کے موجد بنیں گے، مگر اب وہ امریکہ کے بجائے اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی خدمت کریں گے! چنانچہ اس لحاظ سے یہ امریکی بل ان دو ممالک کے لئے نہ صرف نقصان دہ نہیں ہے بلکہ مفید بھی ہے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ آج کے زمانے میں علم و سائنس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔
ثقافتی اور سفارتی نقصان:
طلبا کا تبادلہ نرم طاقت (Soft Power) کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ اقدام امریکہ کو "غیر روادار" ریاست ثابت کرکے دنیا بھر کے نوجوانوں کے دل میں امریکہ کے لئے [مزید] نفرت پیدا کرے گا۔ مستقبل میں یہی طلبا اپنے ممالک میں فیصلہ ساز بنیں گے تو لا محالہ، امریکہ کے ساتھ ان کا رویہ امتیاز پر مبنی ہوگا، جیسا کہ وہ آج امریکی امتیازی رویے کا نشانہ بنیں گے۔
معاشی نقصانات:
بین الاقوامی طلبا امریکی معیشت کو $40 ارب سالانہ سے زائد کا منافع پہنچاتے ہیں۔ چین اور ایران جیسے ممالک کے طلبا اب امریکہ کے بجائے اندرونی ملک تعلیم حاصل کریں گے یا پھر دوسرے ممالک کا رخ کریں گے جس سے امریکی یونیورسٹیوں کو ملنے والی آمدنی اڑ جائے گی اور ان یونیورسٹیوں میں بہت سارے تحقیقی منصوبے متاثر ہوں گے؛ اور جس طرح کہ معاشی پابندیوں سے وہ اپنے آپ کو کمزور سے کمزور تر کر رہا ہے، علمی اور سائنسی لحاظ سے بھی زوال پذیر ہوجائے گا۔
سائنس کی عالمی برادری سے علیحدگی:
علم و سائنس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ایسے اقدامات سے امریکہ عالمی سائنسی تعاون کے میدان سے نکل جائے گا، جبکہ ایران اور چین جیسے ممالک اپنی یونیورسٹیوں کو فروغ دے کر امریکہ کی جگہ لے لیں گے؛ جبکہ اسی وقت بھی ایران اور چین میں ہزاروں غیر ملکی طلبا علم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ بل 'تعصّب پر مبنی خوف' کی پیداوار ہے، جو امریکہ کو تاریخی طور پر سب سے بڑا فائدہ پہنچانے والی چیز - وسیع النظری — کو خود ہی تباہ کر دے گا۔ مستقبل میں امریکہ کو ضرور احساس ہوگا کہ وہ ان ہی تنگ نظرانہ اقدامات کی وجہ سے، عالمی سطح کی سائنسی اور علمی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، اور اس عظیم نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ