10 اپریل 2025 - 15:53
مقدّسات، اسلام کی روشنی میں

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا: "اے ایمان لانے والو! اپنی آوازوں کو پیغمبر (سے بات چیت کرتے ہوئے آ آپؐ) کی آواز پر بلند نہ کرواور نہ ان سے زور زور سے باتیں کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زور سے بات کرتے ہو کہیں (اس بے ادبی کی وجہ سے) تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں ایسے حال میں کہ تو بے خبر ہو"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

مقدّسات، اسلام کی روشنی میں

مقدسات کا احترام

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ؛ [1]

اے ایمان لانے والو! اپنی آوازوں کو پیغمبر (سے بات چیت کرتے ہوئے آ آپؐ) کی آواز پر بلند نہ کرواور نہ ان سے زور زور سے باتیں کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زور سے بات کرتے ہو کہیں (اس بے ادبی کی وجہ سے) تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں ایسے حال میں کہ تو بے خبر ہو"۔

پوری دنیا میں لوگ مختلف عقائد کی پیروی کے باوجود اپنے بزرگوں کے لئے خاص احترام کے قائل ہیں؛ شہروں، سڑکوں، جامعات، ہوائی اڈوں، اسکولوں اور اداروں کے نام اپنے بزرگوں کے نام کر دیتے ہیں۔ اسلام میں بھی کچھ لوگ اور حتی کہ بعض درخت اور پودے بھی مقدس ہیں۔ 

اسلام میں ہرچیز کی عظمت، عزت اور تقدس کی جڑ یہ ہے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ سے منسلک ہیں اور جس قدر کہ یہ وابستگی اور تعلق مضبوط تر ہو، تقدس بھی زیادہ سے زیادہ ہوگا اور ہمیں اس تقدس کا بہرحال تحفظ کرنا چاہئے۔

مقدسات

اللہ کی ذات با برکات

تقدس کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ ہے اور ـ اور مشرکین جو دوسروں کو اللہ کے برابر سمجھتے ہیں ـ قیامت کے دن اپنی گمراہی کا اقرار کریں گے اور اپنے خیالی معبودوں سے کہیں گے: ہماری تمام تر بدبختیوں کا راز یہ ہے کہ ہم نے تمہیں جہانوں کے پروردگار کے برابر سمجھا:

ارشاد ربانی ہے:

"تَاللَّهِ إِن كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ * إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ * وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ * فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَ؛ [2]

[بولے] خدا کی قسم! ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے * جب (ہم) تمہیں جہانوں کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے * اور ہمیں نہیں گمراہ کیا مگر نابکاروں نے * تو اب نہیں ہیں ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والے"۔

قرآن کریم میں خدائے متعال کی تسبیح و تنزیہ کی طرف بارہا اشارہ ہؤا ہے۔ قرآن کریم میں41 مرتبہ لفظ  "سُبْحَانَ"، 17 مرتبہ لفظ "يُسَبِّحُ"، 4 مرتبہ "سَبَّحَ" کو مختلف ترکیبوں میں لایا گیا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی ذات با برکات کے لئے وہی احترام و تقدس کا قائل ہونا چاہئے جس میں کوئی عیب و نقص کا تصور تک نہ ہو اور ہمارے اعتقاد میں اللہ تعالیٰ کی ذات بلکہ اس کا نام بھی منزہ اور مقدس ہونا چاہئے؛ فرمایا:

"سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَىٰ؛ [3]

تسبیح کیجئے اپنے پروردگار کے بلندوبرتر نام کی"۔

کتاب اللہ

اللہ کی کتاب بھی مقدس اور قابل احترام ہے، جسے خدائے بزرگ و برتر خود "عظیم" قرار دیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

"إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِيمُ * وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ؛ [4]

یقینا آپ کا پروردگار بڑا پیدا کرنے والا ہے، بڑا جاننے والا * اور بلاشبہ ہم نے آپ کو عطا کی ہیں سات دہرائی جانے والی آیتیں [سورہ حمد] اور قرآنِ عظیم"۔ 

چنانچہ قرآن کی تعظیم ہم پر لازم ہے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم ہے کہ جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموش رہو:

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ؛ [5]

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے"۔

ہمیں قرآن کریم کی تکریم کیتکریم کا اہتمام کرتے رہنا چاہئے کیونکہ خدائے کریم اپنی کتاب کو "کریم" کا عنوان دیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

"إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ؛ [6]

بے شک یہ بڑا عزت والا قرآن ہے"۔

نیز ہمیں قرآن کی تمجید کا اہتمام کئے رکھنا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالی کہ ارشاد ہوتا ہے:

"ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ؛ [7]

قاف۔ قسم ہے بڑے مرتبے والے قرآن کی"۔

"بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ * فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ؛ [8]

بلکہ یہ بزرگ مرتبہ قرآن ہے * (جو) لوح محفوظ میں ثبت ہے"۔

تمام انبیاء اور ان کے برحق جانشین مقدس ہیں

اللہ کی طرف کے راہنما، تمام انبیاء اور ان کے برحق جانشین (علیہم السلام)، بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپؐ کے اہل خانہ (اہل بیت علیہم السلام( خاص مقام و مرتبے کے مالک ہیں اور اس حقیقت پر قرآن کریم نے کئی مرتبہ تاکید فرمائی ہے اور ذیل کی آیات کریمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ میل جول کے کچھ آداب بیان ہوئے ہیں؛ جن میں سے کچھ تو آنحضرتؐ کے لئے مخصوص ہیں اور باقی آداب یقینا آپ کے اوصیائے برحق اور ان کے نائبین نیز اپنے والدین اور بزرگوں تکب بھی قابل نفاذ ہیں۔

خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا:

پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود و سلام بھیجنا

"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا؛ [9]

یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام جو حق ہے سلام بھیجنے کا"۔

تشریح:

"ابو حمزہ اپنے والد سے اور وہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اللہ تعالی کے ارشاد "إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا" کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

'اَلصَّلاَةُ مِنَ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ رَحْمَةٌ وَمِنَ اَلْمَلاَئِكَةِ تَزْكِيَةٌ وَمِنَ اَلنَّاسِ دُعَاءٌ وَأَمَّا قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً فَإِنَّهُ يَعْنِي اَلتَّسْلِيمَ لَهُ فِيمَا وَرَدَ عَنْهُ؛

"صلاۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر اللہ کی جانب سے ہو تو رحمت ہے، اور فرشتوں کی طرف سے ہو تو آپؐ کے لئے تزکیہ ہے اور مؤمنین کی طرف سے ہو تو یہ دعا ہے آنحضرتؐ کے لئے دعا ہے۔ اور جہاں تک جملہ "وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً" کا تعلق ہے تو اس کا مطلب ان تمام امور میں پیشوائے اسلام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے آگے تسلیم ہونا اور سر تسلیم خم کرنا ہے جو آپؐ ان سے بنی نوع انسان کے لئے وارد ہؤا ہے'۔

راوی کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: ہم درود و سلام کس طرح بھیجیں؟ تو آپؑ نے فرمایا:  کہو:

'صَلَوَاتُ اَللَّهِ وَصَلَوَاتُ مَلاَئِكَتِهِ وَأَنْبِيَائِهِ وَرُسُلِهِ وَجَمِيعِ خَلْقِهِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاَلسَّلاَمُ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ وَرَحْمَةُ اَللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ؛

اللہ کے درود و سلام اور اس کے ملائکہ اور انبیاء اور رسل اور اس کی تمام مخلوقات کے درود ہوں محمد اور آپؐ کے خاندان پر اور ان سب کا سلام ہو آپؐ پر اور ان [آل رسولؐ] پر اور اس کی رحمت اور برکتیں'۔

راوی کہتے ہیں: تو اس شخص کا اجر و ثواب کیا ہے جو محمد اور آل محمد (صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین) پر درود بھیجے؟ تو آپؑ نے فرمایا:

'اَلْخُرُوجُ مِنَ اَلذُّنُوبِ وَاَللَّهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ؛ [10]

اس کا ثواب یہ ہے کہ وہ اپنے تمام گناہوں سے نجات پائے گا اللہ کی قسم، اس حالت کی طرح جب اسے ماں نے جنا تھا"۔

عیون اخبار الرضا (علیہ السلام) میں مروی ہے ـ ان مسائل کے بارے میں جو مامون عباسی نے امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کی موجودگی میں علماء سے پوچھے ہیں، ـ کہ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَأَمَّا اَلْآيَةُ اَلسَّابِعَةُ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: 'إِنَّ اَللّٰهَ وَمَلاٰئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً' قالوا: يَا رَسُولَ اَللَّهِ قَدْ عَرَفْنَا اَلتَّسْلِيمَ فَكَيْفَ اَلصَّلاَةُ عَلَيْكَ؟ فَقَالَ: تَقُولُونَ 'اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ'؛ فَهَلْ بَيْنَكُمْ مَعَاشِرَ اَلنَّاسِ فِي هَذَا خِلاَفٌ؟  فَقَالُوا لَا؛ فَقَالَ المَأْمُونُ: هَذَا مِمَّا لَا خِلَافَ فِيهِ أَصْلاً وَعَلَيْهِ إِجْمَاعُ الْأُمَّةِ؛ فَهَلْ عِنْدَكَ فِي اَلْآلِ شَيْءٌ أَوْضَحُ مِنْ هَذَا فِي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ أَبُو اَلْحَسَنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ نَعَمْ، أَخْبِرُونِي عَنْ قَوْلِ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ 'يس وَاَلْقُرْآنِ اَلْحَكِيمِ' [11] فَمَنْ عَنَى بِقَوْلِهِ 'يس'؟ قَالَتْ اَلْعُلَمَاءُ يس مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ لاَ يَشُكُّ فِيهِ أَحَدٌ! فَقَالَ أَبُو اَلْحَسَنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: فَإِنَّ اَللَّهَ أَعْطَىٰ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ مِنْ ذَٰلِكَ فَضْلاً لاَ يَبْلُغُ أَحَدٌ كُنْهَ وَصْفِهِ إِلاَّ مَنْ عَقَلَهُ وَذَلِكَ أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُسَلِّمْ عَلَى أَحَدٍ إِلاَّ عَلَىٰ اَلْأَنْبِيَاءِ فَقَالَ: 'سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ' [12] وَ'سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ' [13] و'سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ' [14] وَلَمْ يَقُلْ سَلاَمٌ عَلَىٰ آلِ نُوحٍ وَلَمْ يَقُل سَلامٌ عَلَىٰ آلِ إبْرَاهِيمَ وَلَا قَالَ سَلامٌ عَلَىٰ آلِ مُوسَىٰ وَهَارُونَ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: 'سَلَامٌ عَلَىٰ آلِ يَاسِينَ' [15] يَعْنِي آلَ مُحَمَّدٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ.  فَقَالَ اَلْمَأْمُونُ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ فِي مَعْدِنِ اَلنُّبُوَّةِ شَرْحَ هَذَا وَبَيَانَهُ؛ [16]

اور ساتویں آیت اللہ تعالی کا قول ہے: 'إِنَّ اَللّٰهَ وَمَلاٰئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً'؛ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم آپ کے لئے تسلیم کو تو سمجھ گئے تو آپ پر صلاۃ کیونکر بھیجیں گے؟ فرمایا: کہو گے: 'اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ'۔ تو ابوالحسن (علیہ السلام) نے فرمایا: اے لوگو! کیا تمہارے درمیان اس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے؟ بولے: نہیں؛ تو مامون نے کہا: یہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ تو کیا آپ کے پاس قرآن میں 'آل' کے بارے میں مزید کچھ ہے جو اس سے واضح تر ہو؟ فرمایا: ہاں! مجھے بتا دو اللہ کے قول 'يس وَاَلْقُرْآنِ اَلْحَكِيمِ' کے بارے میں، اللہ تعالی کے ہاں 'يس' سے کون مراد ہے؟ تو علماء نے کہا: 'يس' محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں اور اس میں کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے۔ تو ابوالحسن (علیہ السلام) نے فرمایا: درحقیقت اللہ تعالیٰ نے محمد اور آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) اس سے سے ایک ایسی فضیلت اور برتری عطا کی ہے کہ جس کے بیان کی حقیقت کا ادراک کوئی  بھی نہیں کر سکتا سوا اس کے جو عقل سے کام لے اس کے سمجھنے والے کے سوا کوئی بیان نہیں کر سکتا؛ اس لئے کہ اللہ تعالی نے انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی پر سلام نہیں بھیجا اور فرمایا 'سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں'، اور 'سلام ہو ابراہیم پر'، اور 'سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر'، اور یہ نہیں فرمایا کہ 'سلام ہو آل نوح پر'، اور نہیں فرمایا کہ 'سلام ہو آل ابراہیم پر'، اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ 'سلام ہو موسیٰ اور ہارون کی آل پر'، اور اللہ عزّ و جلّ نے فرمایا: 'سلام ہو آل یاسین پر'، یعنی آل محمد صلوات اللہ علیہم، پر۔ تو مامون نے کہا: میں سمجھ گیا اس حقیقت کی شرح اور اس کا بیان نبوت کے سرچشمے میں موجود ہے"۔

فرشتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور علی (علیہ السلام) پر سات سال تک صلوات بھیجتے رہے

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"صَلَّتِ المَلائِكَةُ عَليَّ وَعَلىٰ عَلِيٍ سَبعَ سِنِينَ وذلِكَ أنَّهُ لَم يُصَلِّ مَعي أحَدٌ غَيرُهُ؛ [17]

فرشتے مجھ پر اور علی (علیہ السلام) پر سات سال تک درود و صلوات بھیجتے رہے کیونکہ [اس عرصے میں] ان کے سوا کسی نے بھی میرے ساتھ نماز ادا نہیں کی"۔

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرمایا کرتے تھے:

"صَلَّتِ الْمَلَائِكَة عَلَيَّ وَعَلَىٰ عَلِيٍ سَبْعاً وَذَلِك أَنَّهُ لَمْ يُرْفَعْ إِلَی السَّمَاءِ شَهَادَةٌ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا مِنِّي وَمِنْهُ؛ [18]

فرشتے مجھ پر اور علیؑ پر سات سال تک صلوات بھیجتے رہے اور یہ اس لئے تھا کہ [اس عرصے میں] 'لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ' کی شہادت میرے اور علیؑ کے سوا کسی [کی طرف سے] سے بھی آسمان تک نہیں پہنچتی تھی"۔

اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) میں سے آپؐ کے اوصیاء، اولیاء اور برحق جانشینوں، آپؐ کی ذریت اور آپؐ سے تعلق رکھنے والے تمام بزگواروں، عادل فقہاء اور علمائے حق مراجع تقلید کا احترام کرنا اور ان کی زیارت کرنا اور اس طرح سے ان کا حق ادا کرنا، ہم سب پر لازم ہے۔ علمائے ربانی اور فقہاء معصومین (علیہم السلام) کے نائبین ہيں اور معصومین (علیہم السلام) نے فرمایا: کہ اگر کوئی فقیہ عادل کا فیصلہ اور حکم رد کر دے تو گویا کہ اس نے اللہ کو رد کر دیا ہے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَدْ رَوَى حَدِيثَنَا وَنَظَرَ فِي حَلَالِنَا وَحَرَامِنَا وَعَرَفَ أَحْكَامَنَا فَليَرضُوْا بِهِ حَكَماً فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذا حَكَمَ بِحُكمِنا فَلَم يُقبَل مِنهَ، فَإنّما استُخِفّ بِحُكمِ اللهِ، وَعَلَينا رُدَّ، وَالرَّادُّ عَلَينا الرَّادُّ عَلَى اللهَ، وَهُوَ عَلى حَدِّ الشِّركِ بِاللهِ؛ [19]

تم میں سے وہ فرد جو ہماری حدیثیں بیان کرتا ہے اور ہمارے حلال و حرام میں صاحب رائے ہے اور ہمارے احکام سے آگاہ ہے، تو عوام کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کے حکم یا فیصلے پر راضی و خوشنود ہونا چاہئے، پس میں نے اس کو تمہارے اوپر حاکم قرار دیا ہے۔ جب وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے / حکم دے اور اس کا حکم قبول نہ کیا جائے تو اللہ کے حکم کو نطر انداز کیا گیا ہے اور ہمیں رد کیا گیا ہے اور جس نے ہمیں رد کیا اس نے خدا کو رد کیا اور خدا کو رد کرنے والا شرک کی حد تک پہنچ چکا ہے"۔

علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں

"إنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأنْبِيَاءِ إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَاراً وَلا دِرْهَماً وَلَكِن وَرَّثوا العِلمَ فَمَن أَخَذَ مِنهُ أَخَذَ بِحَظٍ وافِرٍ؛ [20]

یقینا علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء نے اپنے پیچھے دینار اور درہم نہیں چھوڑے ہیں بلکہ علم کا ورثہ چھوڑا ہے، تو جو اس [علم] میں سے لے گا اس نے بہت بڑا فائدہ اٹھایا ہے"۔

علماء کا احترام اللہ اور اس کے رسولؐ کا احترام ہے

"أَكْرِمُوا الْعُلَمَاءَ فَإِنَّهُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ فَمَن أَكْرَمَهُمْ فَقَدْ أَكْرَمَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؛ [21]

علماء کا اکرام و احترام کرو، کیونکہ یقینا وہ انبیاء کے وارث ہیں تو جس نے ان کی عزت کی اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عزت کی ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ وَقَّرَ عالِماً فَقَدْ وَقَّرَ رَبَّهُ؛ [22]

جو شخص کسی عالم کا احترام کرے، اس نے اپنے پروردگار کا احترام کیا ہے"۔

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے اپنے شاگرد ہشام سے فرمایا:

"يَا هِشَامُ تَعَلَّمْ مِنَ اَلْعِلْمِ مَا جَهِلْتَ وَعَلِّمِ اَلْجَاهِلَ مِمَّا عَلِمْتَ وَعَظِّمِ العَالِمَ لِعِلْمِهِ و دَعْ مُنَازَعتَهُ؛ [23]

اے ہشام! علم میں سے جو کچھ نہیں جانتے ہو، سیکھ لو، اور جاہل کو تعلیم دو اور عالم کی تعظیم کرو، اور اس کے ساتھ جھگڑا نہ کرو"۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا صندق

نہ صرف انبیاء (علیہم السلام) بلکہ وہ چیزیں بھی قابل عزت اور مقدس ہیں جن کا ان سے تعلق ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہؤا ہے کہ جس صندوق میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدائش کے بعد جگہ دی گئی تھی اور پھر اس کو دریا میں ڈال دیا گیا، اس قدر مقدس  تھا کہ فرشتے اس کو اٹھاتے تھے اور دشمنوں پر اہل حق کی فتح و کامیابی کا سبب بنتا تھا۔

"وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ؛ [24]

اوران سے ان کے نبی نے کہا کہ اس [طالوت] کی بادشاہت کی پہچان یہ ہے کہ تمہا رے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکون و اطمینان کا سرمایہ ہے اور موسیٰ اورہارون کے خاندان کے کچھ باقی ماندہ اشیاء ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ضروراس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو"۔

والدین کی تکریم و تعظیم اور ان کے ساتھ نیکی

"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ؛ [25]

اور ہم نے انسانوں کو اس کے ماں باپ کے بارے میں ہدایت کی جس کو اس کی ماں نے بزمانہ حمل اٹھایا دہری دہری تکلیفوں کے ساتھ اور دو برس میں اس کی دودھ بڑھائی ہوئی کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر گزار رہنا، میری ہی طرف تو آخر میں پلٹنا ہے"۔

والدین کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حِجَّةٌ مَبْرُورَةٌ؛ قَالُوا يَا رَسُولَ اَللَّهِ! وَإِنْ نَظَرَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَأَطْيَبُ؛ [26]

کوئی بھی نیک بیٹا ـ جو اپنے والدین پر شفقت و رحمت بھری نگاہ ڈالتا ہے ـ ایسا نہیں ہے جس کے لئے ہر بار نظر ڈالنے پر ایک حج قبول نہ لکھا جاتا ہو؛ پوچھا گیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اگر وہ ہر روز 1000 مرتبہ والدین پر رحمت بھری نگاہ ڈالے تو بھی ہر نگاہ کے بدلے ایک حج قبول لکھا جائے، گا؟ فرمایا: ہاں! سب سے بڑا اور بہترین ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ أَنْ یطِیعَهُ فِي كلِّ شَيءٍ إِلا فِي مَعْصِيةِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ؛ [27]

بیٹے پر والد کا حق یہ ہے کہ ہر معاملے میں اس کی اطاعت کرے، سوائے اللہ سبحانہ کی نافرمانی کے"۔

انہیں نام لے کر مت پکارنا اور۔۔۔

امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ ؟ قَالَ: لَا يُسَمِّيهِ بإسمه ، وَلَا يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا يَجْلِسُ قَبْلَهُ وَلَا يَسْتَسِبُّ لَهُ؛ [28]

امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھا: والد کا بیٹے کا کیا حق ہے؟ فرمایا: باپ کو نام سے نہ پکارے، اس سے آگے آگے نہ چلے، اس سے پہلے نہ بیٹھے، اور ایسا کوئی عمل انجام نہ دے کہ دوسرے اس [باپ] کو گالی دے"۔

والدین پر اپنی آواز مت اٹھانا

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

لَا تَمْلَأَ عَيْنَيْكَ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِمَا إِلَّا بِرَحْمَةٍ وَرِقَّةٍ وَلَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ فَوْقَ أَصْوَاتِهِمَا وَلَا يَدَيْكَ فَوْقَ أَيْدِيهِمَا وَلَا تَتَقَدَّمْ قُدَّامَهُمَا؛ [29]

ان کی طرف گھور کر نظرِ تند سے مت دیکھو، بلکہ مہربانی اور محبت سے ان کی طرف دیکھا کرو اور اپنی صدا ان کی آواز پر بلند نہ کیا کرو اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر نہ رکھو، اور [راہ چلتے ہوئے] ان سے قدم آگے نہ بڑھاؤ"۔

تقریبا تمام مراجع عظام متفق ہیں کہ اگر اولاد کا سفر والدین کے لئے باعث اذیت ہو تو یہ سفر حرام ہے اور اس کے دوران نمازی پوری ادا کرنا پڑے گی۔ نافلہ پڑھتے وقت اگر والدین آواز دیں، تو نافلہ چھوڑ نا پڑے گا، اور واجب نماز سے پہلے اگر والدین آواز دیں تو نماز مؤخر کرکے والدین کو جواب دینا چاہئے۔

خدائے متعال نے سورہ بقرہ کی آیت 83، سورہ نساء کی آیت 36، سورہ انعام کی آیت 151، سورہ اسرا‏ء کی آیت 23 اور سورہ لقمان کی آیت 14 میں والدین پر احسان اور ان کی شکرگزاری کے وجوب کو اللہ کی بندگی اور عبادت کے وجوب کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

کچھ اوقات بھی مقدس ہیں:

شب قدر

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ * وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ * لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ *  تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ * سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ؛ [30]

خدا کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے * ہم نے اس [قرآن] کو شب قدر میں اتارا * اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا چیز ہے * شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر [اور قابل احترام] ہے * اس [رات] میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے اذن [اور فرمان] کے مطابق ہر امر کو [جو مقرر ہؤا ہے] لے کر اترتے ہیں * وہ [رات] صبح صادق تک امن و سلامتی ہے"۔

نیز ارشاد ربانی ہے:

"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * حم * وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ * إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ * أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ * رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ؛ [31]

حا۔ میم * قسم اس کھلی ہوئی کتاب کی * ہم نے اس کو اتارا ہے ایک مبارک رات میں یقینا ہم عذاب سے ڈرانے والے رہے ہیں * اس میں فیصلہ ہوتا ہے ہر حکیمانہ بات کا * جو ہماری طرف کی بات ہوتی ہے، بلاشبہ ہم تھے بھیجنے والے * تمہارے پروردگار کی رحمت کے طور پر یقینا وہ سننے والا، بڑا جاننے والا ہے".

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ أَحْيَىٰ لَيْلَةَ الْقَدْرِ حُوِّلَ عَنْهُ الْعَذَابُ إِلَى السَّنَةِ الْقَابِلَةِ؛ [32]

جس نے شب قدر کو زندہ کیا (اور ذکر و دعا و عبادت کرتے ہوئے جاگ کر گذارا)، اس سے اگلے سال تک عذاب اٹھایا جاتا ہے"۔

"مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَاناً وَاحْتِسَاباً، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ؛ [33]

جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام [اور عبادت کا اہتمام] کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"هُوَ شَهْرٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ نَزَلَتِ الْمَلائِكَةُ فِيْهَا مِنَ السَّماءِ فَتُسَلِّمُ عَلَى الصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ بِإِذْنِ رَبِّهِم إِلَى مَطْلَعِ الفَجْرِ وَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ فِيْهَا وَلاَيَتِي قَبْلَ أَنْ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِأَلْفَيْ عَامٍ، صِيَامُ يَوْمِهَا أَفْضَلُ مِنْ صِيَامِ أَلْفِ شَهرٍ وَالعَمَلُ فيها أفضَلُ مِنَ العَمَلِ في ألفِ شَهرٍ؛ [34]

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات واقع ہوئی جس میں فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اور اللہ کے اذن و فرمان سے صبح صادق کے طلوع تک روزہ دار مردوں اور روزہ دار عورتوں پر سلام کرتے ہیں، اور وہ رات 'شب قدر' ہے۔ جس میں آدم (علیہ السلام) کی خلقت سے دو ہزار سال قبل، میری ولایت مقدر ہوئی۔ اس مہینے میں روزہ رکھنا ہزار مہینوں کے روزوں سے افضل ہے اور اس میں نیک عمل، ہزار مہینوں کے عمل سے برتر و بہتر ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"قَلبُ شَهرِ رَمَضانَ لَيلَةُ القَدرِ؛ [35]

ماہ رمضان کا دن شب قدر ہے"۔

"التَّقْدِيرُ فِي لَيْلَةِ تِسْعَ عَشرَةَ وَالْإِبرَامُ فِي لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَالْإِمْضَاءُ فِي لَيْلَةِ ثَلَاثَ وَعِشْرِينَ؛ [36]

مقدرات کا تعین ماہ رمضان کی انیسویں کی رات کو ہوتا ہے، اکیسویں کی رات کو ان کی تائید و تصدیق ہوتی اور ان کی منظوری تئیسویں کی رات کو ہوتی ہے"۔

"مَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أدْرَكَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؛ [37]

جس نے سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کو اس طرح سے پہچانا جیسا کہ پہچاننے کا حق تو یقینا اس نے شب قدر کو پا لیا ہے"۔

مسجد

مسجد کا نام قرآن کریم میں مجموعی طور پر 28 مرتبہ آیا ہے: 22 مرتبہ مفرد "مسجد" [38] اور چھ مرتبہ جمع کی صورت میں: "مساجد"۔ [39]

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ؛ [40]

اللہ کی مسجدوں کو تو بس وہ آباد کرے گا جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور نماز ادا کرتا ہو اور زکوٰة دیتا ہو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتا ہو تو یہ لوگ بہت ممکن ہے کہ ہدایت قبول کرنے والوں میں ہوں"۔

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ؛ [41]

اور وہ بھی ہیں جنہوں نے مسجد [مسجد ضرار] بنائی ضرر رسانی، کفر، مؤمنین میں تفرقہ پیدا کرنے اور ان لوگوں کو گھات لگانے کا موقع دینے کے لئے، جنہوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے پیغمبر سے جنگ کی ہے، اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا [ایسا] کوئی مقصد نہیں ہے سوا بھلائی کے اور اللہ اس کا گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں"۔

"لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ؛ [42]

آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہو جایئے، بے شک وہ مسجد جس کی شروع دن ہی سے بنیاد پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے، اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، وہی جس میں ایسے اشخاص ہیں جن کی خواہش ہے کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے"۔ 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"إِنَّ الْمَسَاجِدَ بُيُوتُ الْمُتَّقِينَ ومَنْ كانَتِ المَساجِدُ بُيوتَهُ فَقَد خَتَمَ اللَّهُ لَهُ بِالرَّوحِ وَالرَّحمَةِ وَالجَوازِ عَلَى الصِّراطِ الى الجَنَّة؛ [43]

مساجد پرہیزکاروں کے گھر ہیں، جس شخص کا گھر مسجد ہو (اور اپنے اوقات مسجد میں عبادت کرتے ہوئے بسر کرتے ہیں) اللہ تعالی اس کا انجام رحمت اور سرور قرار دیتا ہے اور صراط سے جنت کی طرف گذرنے کی اجازت عطا کرتا ہے"۔ [44]

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَا يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهِ غَمٌ مِنْ غُمومِ اَلدُّنْيَا أَن يَتَوَضَّاءَ ثُمَّ يَدْخُلَ المَسْجِدَ فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ يَدْعُوااللَّهِ فِيهِمَا أَمَا سَمِعْتَ اَللَّهَ يَقُولُ 'اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاة؛ [45]

کونسی چیز تم میں سے کسی کو ـ جس پر دنیا کے غموں نے یلغار کی ہے ـ منع کرتی ہے کہ [اٹھ کر] وضو کرے اور مسجد میں داخل ہو اور دو رکعت نماز بجا لائے؟ کیا تم نے نہیں سنا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: 'صبر اور نماز سے مدد لیا کرو'"۔

مسجد الحرام

"إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ؛ [46]

یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لئے مقرر ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایۂ ہدایت تمام جہانوں کے لئے"۔

مسجد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ)

مسجد النبیؐ، مسجد الحرام کے بعد شرف اور تقدس کے لحاظ سے بہت عظیم القدر ہے اوررسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ ساتھ اس مسجد میں نماز کی بڑی فضیلت ہے۔ کعبۃ اللہ کے بعد نماز و عبادت اور اللہ کے ساتھ راز و نیاز کا بہترین مقام ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"صَلاَةٌ فِي مَسْجِدِي تَعْدِلُ عِنْدَ اَللَّهِ عَشَرَةَ آلاَفِ صَلاَةٍ فِي غَيْرِهِ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلاَّ المَسْجِدَ الحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلَاةَ فِيْهِ تَعْدِلُ مِائَةَ أَلْفِ صَلَاةٍ؛ [47]

میری [اس] مسجد میں ایک نماز اللہ کے نزدیک ـ دوسری مساجد میں ـ دس ہزار نمازوں کے برابر ہے، سوا مسجد الحرام کے جہاں ہر نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے"۔

مسجد الاقصیٰ

مسجد الاقصی مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ای ہے جو بیت المقدس کے شہر بیت المقدس میں واقع ہے۔ اس مسجد کی بنیاد حضرت داؤد نبی (علیہ السلام) نے رکھی ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے مکمل کر لیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد بھی 17 مہینوں تک مسجد ‌الاقصی نماز ادا کی۔ جو لوگ اس زمانے میں مسجد الاقصی کے دفاع کو اپنے اوپر فرض نہیں سمجھتے ان کے ہاں یہ مسجد مسجد الحرام اور مسجد النبیؐ کے بعد تیسرا حرم اور مقدس ترین مقام ہے۔ اہل سنت کی روایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسجد الاقصی کو حضرت آدم (علیہ السلام) نے، اللہ کے حکم سے، بیت اللہ الحرام کی تعمیر کے 40 سال بعد تعمیر کیا ہے۔

گوکہ دنیائے اسلام کے بہت سے مقدسات پر بالواسطہ طور پر اسلام اور قرآن کے دشمن مسلط ہیں لیکن مسجد الاقصی، جو فلسطین کے مقدس شہر "بیت المقدس" میں واقع ہے ـ پر براہ راست انسان اور اسلام کے دشمنوں کا تسلط قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو زبان سے تسلیم کرتے ہیں لیکن دل سے تسلیم نہیں کرتے اور عملی طور پر اس کا انکار کرتے ہیں، کہ مسجد الاقصیٰ مسلمانون کا قبلۂ اول ہے؛ اور خدائے متعال نے اس کا یوں تذکرہ کیا ہے:

"سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ؛ سورہ اسراء، آیت 1۔

پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد الاقصی تک جس کے آس پاس ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے تاکہ ہم انہیں دکھائیں اپنی کچھ نشانیاں یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا"۔

مسجد کوفہ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"لَمّا اُسْرِيَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا أَرَانِي مَسْجِدَ كُوفَانَ، فَقُلْتُ: يَا جَبْرَئيلُ، مَا هَذَا؟ قَالَ: مَسَجِدٌ مُبارَكٌ، كَثيرُ الخَيْرِ عَظيْمُ البَرَكَةِ، اخْتَارَهُ اللّهُ‏ لِأَهْلِهِ، هُوَ يَشْفَعُ لَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ؛ [48]

جب مجھے [شب معراج] نچلے آسمان پر لے جایا گیا تو خدا نے مجھے مسجد کوفہ کی مسجد دکھائی۔ میں نے کہا: اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ جبرائیل نے کہا: یہ ایک مبارک اور خیر کثیر و عظیم برکت والی مسجد ہے۔ اسے اللہ تعالی نے اپنے اہل [اللہ والوں] کے لئے پسند فرمایا ہے اور یہ مسجد قیامت کے دن ان کی شفاعت کرے گی"۔

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إنَّ مَسْجِدَ الْكُوفَةِ بَيْتُ نُوْحٍ عَلَيْهِ ‏السَّلَامُ، لَوْ دَخَلَهُ رَجُلٌ مِائَةَ مَرَّة لَكَتَبَ اللّهُ لَهُ مِائَةَ مَغْفِرَةٍ، لِأَنَّ فيْهِ إِجَابَةَ دَعْوَةِ نوْحٍ عَلَيْهِ ‏السَّلَامُ، حَيْثُ قَالَ: 'رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا [49]

یقینا مسجد کوفہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا گھر ہے، اگر ایک آدمی اس میں سو مرتبہ داخل ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک سو مغفرتیں لکھ دیتا ہے، کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی دعا اسی مسجد میں قبول ہوئی جب انھوں نے اللہ سے التجا کی: 'اے میرے مالک مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان رکھتے ہوئے داخل ہو'"۔ [50]

بلا شبہہ عالم اسلام میں متعدد عظیم الشان مساجد موجود ہیں جن میں سے کچھ تاریخی ہیں اور کچھ حالیہ برسوں میں تعمیر ہوئی ہیں۔ مساجد کی تعمیر میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں شک نہیں ہے لیکن عالم اسلام افسوسناک صورت حال سے دوچار ہے اور مساجد کا کردار امت کی نجات میں کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہے، اور دوسری طرف سے مساجد سے کفر و شرک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جا رہا ہے۔ غزہ اور فلسطین، یمن اور لبنان اور شام پر حملے ہو رہے ہیں، فلسطین پر کفار کا قبضہ ہے، لبنان کو کفر کی طرف سے مشکل کا سامنا ہے، شام پر کفر کے نمائندوں کا قبضہ ہے اور اس کے تمام اثاثے یہود و نصاریٰ نے منہدم کر دیئے ہیں اور ایک علامتی سربراہ کو سربراہ مملکت کا نام دیا جا رہا ہے، یمن پر کفر کے حملے ہو رہے ہیں، بڑے اسلامی ممالک امت کی نجات کے لئے کوشش کرنے کے بجائے مسجد الاقصیٰ پر براہ راست اور حرمین شریفین پر بالواسطہ قبضہ کرنے والی کافر قوتوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے منصوبے بنا رہے ہیں اور مساجد بالکل خاموش ہیں اور یوں اس افسوسناک رجحان کو مزید تقویت پہنچ رہی ہے۔

مقدس پتھر

حجر الاسود

حجر الاسود مسجد الحرام کے انتہائی مقدس اجزاء میں سے ایک اور جنتی پتھروں میں سے ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ رہا اور ان کے زمین پر اتر آنے اور ان کی توبہ قبول ہونے کے ساتھ ہی زمین پر نازل ہؤا۔ [51]

مروی ہے کہ یہ پتھر بہت زیادہ سفید تھا، برف سے بھی زیادہ سفید؛ اور بنی آدم کے گناہوں کے وجہ سے سیاہ پڑ گیا۔ [52] اور یہ کہ یہ یہ ایک نورانی پتھر تھا اور اس سے روشنی اٹھتی تھی۔ [53]

مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"الْحجر اَلْأَسْوَدِ يَمِينُ اَللَّهِ فِى أَرْضِهِ فَمَنْ لَمْ يُدْرِكْ بَيْعَةَ اَلنَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ فَمَسَحَ اَلْحَجَرَ فَقَدْ بَايَعَ اَللَّهَ وَرَسُولَهُ؛ [54]

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہ "حجر الاسود زمین میں خدا کا دایاں ہاتھ ہے تو جس کو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، اور وہ اس کو مسح کرے تو گویا اس نے خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ بیعت کی ہے"۔

شیخ محمد بن علی بن بابویہ، المعروف بہ شیخ صدوق اور علی بن حسین المعروف بن موسیٰ سید مرتضیٰ علم الہدیٰ (رحمہما اللہ) فرماتے ہیں:

"طواف کے ہر چکر میں حجر الاسود کو چھوؤ اور چومو، اگر ایسا کرنے سے قاصر ہو تو طواف کے آغاز اور اختتام پر اسے چھوؤ اور چوم لو"۔ [55]

حجر الاسود، مقام ابراہیم اور بنی اسرائیل کا پتھر تینوں مقدس ہیں

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"نَزَلَتْ ثَلاَثَةُ أَحْجَارٍ مِنَ اَلْجَنَّةِ : اَلْحَجَرُ اَلْأَسْوَدُ اِسْتَوْدَعَهُ اللهُ إِبْرَاهِيمَ عَلَيهِ السَّلَامُ، وَمَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَحَجَرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ؛ [56]

جنت سے تین پتھر جنت سے نازل ہوئے: حجر الاسود، جسے اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے سپرد کیا، اور مقام ابراہیم (علیہ السلام) (جس پر آنجناب کے پاؤں کے نشان ہیں)، اور بنی اسرائیل کا پتھر (جس سے چشمے پھوٹتے تھے)"۔

نبی موسیٰ (علیہ السلام) کا پتھر

یہ پتھر جو مقام ابراہیم (علیہ السلام) اور حجر الاسود کی طرح آسمان سے اترا ہے، اور بنی اسرائیل کا پتھر بھی کہلاتا ہے، وہ معجزنما پتھر ہے جس پر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لاٹھی مارتے تھے تو اس سے بنی اسرائیل کے قبائل کے لئے پانی کے چشمے پھوٹتے تھے، اور یہ پتھر نبی موسیٰ (علیہ السلام) کے متروکات میں شمار ہوتا ہے۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا خَرَجَ الْقَائِمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مِن مَكَّةَ يُنَادِي مُنَادِيهِ ألَا لَا يَحْمِلَنَّ أَحَدُكُم طَعَاماً وَلَاشَرَاباً [وَلَا عَلَفاً] وَحُمِلَ [أَوْ يُحْمَلُ] مَعَهُ حَجَرُ مُوسَىٰ بْنِ عِمْرَانَ عَلَيهِ السَّلامُ وَهُوَ وِقْرُ بَعِيرٍ فَلا يَنْزِلُ مَنْزِلاً إِلاَّ انْفَجَرَتْ مِنْهُ عُيُونٌ فَمَنْ كانَ جائِعاً شَبِعَ ومَن كانَ ظَمآناً رَوِيَ ورَوِيَتْ دَوابُّهُم؛ [57]

جب حضرت قائم (علیہ السلام) ظہور کریں گے تو آپؑ کا منادی ندا دے گا کہ خبردار! تم میں سے کوئی بھی کھانے پینے کی اشیاء [اور چوپایوں کے لئے چارہ] نہ اٹھائے، اور امامؑ کے ساتھ لے جا رہا ہوگا، جو ایک اونٹ کے بوجھ جتنا وزنی ہوگا، چنانچہ آپؑ جہاں اتریں گے، وہاں اس پتھر سے چشمے جاری ہونگے، چنانچہ جو بھوکا ہوگا وہ سیر ہوجائے گا اور جو پیاسا ہوگا اس کی پیاس بجھ جائے گی اور ان کے پیاسے چوپائے بھی سیراب ہونگے"۔

اس پتھر کو بنی اسرائیل کا پتھر بھی کہا گیا ہے۔

آب زمزم

بہت ساری احادیث میں رسول اللہ اور ائمۂ معصومین (صلوات اللہ علیہم اجمعین) نیز بہت سارے بزرگوں اور محدثین و مفسرین نے آب زمزم کو شفاء کا وسیلہ قرار دیا ہے اور شیعہ اور سنی مصادر میں یہ احادیث و روایات اور اقوال مندرج ہیں، چنانچہ اس کی شفا بخشی اور تقدس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ، إِنْ شَرِبْتَهُ تُرِيدُ شِفَاءً شَفَاكَ اللَّهُ، وَإِنْ شَرِبْتَهُ لِظَمَأٍ أَرْوَاكَ اللَّهُ، وَإِنْ شَرِبْتَهُ لِجُوعٍ أَشْبَعَكَ اللَّهُ، وَهِيَ هَزْمَةُ جِبْرِيلَ بِعَقِبِهِ وَسُقْيَا اللَّهِ إِسْمَاعِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ؛ [58]

آب زمزم ہر اس حاجت کے لئے ہے جس کے لئے اسے پیا جاتا ہے: اگر تم نے زمزم کا پانی شفا اور تندرستی کی نیت سے پیا تو اللہ تمہیں تندرست کرے گا، اور اگر تم نے اسے پیاس بجھانے کے لئے پیا تو اللہ تمہیں سیراب کرے گا، اور اگر تم نے اسے بھوک مٹانے کے لئے پیا تو اللہ تمہیں سیر کرے گا، اور یہ [کنواں] جبرائیل کی ایڑی کی ضرب کا نشان اور اسماعیل (علیہ السلام) کو اللہ کا دیا ہؤا چشمہ ہے"۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ وإنِّي لَمَّا شَرِبتُ ماءَ زَمْزَمَ سَألْتُ اللهَ عِلْمًا نَافِعاً؛ [59]

آب زمزم ہر اس حاجت کے لئے ہے جس کے لئے اسے پیا جاتا ہے، میں نے جب زمزم کا پانی پیا تو اللہ تعالیٰ سے نفع بخش علم طلب کیا"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"ماءُ زَمْزَم شِفاءٌ لِمَا شَرِبَ لَهُ؛ [60]

آب زمزم شفاء ہے ہر اس مرض کے لئے جس کے لئے اسے پیا جائے"۔

تربت امام حسین (علیہ السلام) / خاک شفاء

تُربَت، [التُّربَةُ] مٹی کو کہتے ہیں لیکن دینی اصطلاح میں یہ وہ خاک جسے کربلائے معلی میں امام حسین (علیہ السلام) کی قبر شریف کے اطراف سے اٹھا لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کے حرم کے چاروں طرف تقریبا 30 کلومیٹر تک کی زمین تربت ہے لیکن جس قدر کہ حرم کے قریب تر ہو اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہونگے۔ اس پاک مٹی کو خاک شفاء بھی کہا جاتا ہے۔

ایک حدیث کے مطابق، حضرت عیسیؑ نے حواریون کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی اور آپؑ کی تربت کی عظمت و فضیلت کی طرف اشارہ کیا۔ [61]

شیعہ اور اہل سنت کے منابع میں منقولہ متعدد احادیث کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)  امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت سے باخبر تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کربلا کی سرخ مٹی آپؐ کے پاس لائے [62] جو آپؐ کے حزن و غم کا سبب بنی۔ ان احادیث میں موجودہ اختلاف کے بموجب، کچھ راویوں کی رائے ہے کہ یہ واقعہ متعدد بار رونما ہؤا ہے۔ [63] یہ احادیث صحابی خواتین اور مردوں ـ منجملہ بعض ازواج رسول نے ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کی ہیں۔ [64]

بعض مآخذ میں اس موضوع سے متعلق احادیث کا مضمون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے معجزات کے ضمن میں بیان ہؤا ہے۔ [65] ان احادیث کے مطابق ـ جن میں سے بیشتر حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) سے نقل ہوئی ہیں۔ [66] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جبرائیلؑ کی لائی ہوئی مٹی ام سلمہؓ کے سپرد کردی اور انھوں نے اس کو ایک شیشی (یا اپنے پیراہن یا رومال) میں محفوظ کیا؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ یہ خاک عاشورا کے دن خون میں رنگ جائے گی اور یہ واقعہ امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی علامت ہوگا۔ [67] تربت کے خون میں رنگ جانے کے واقعات بعض دیگر روایات میں بھی نقل ہوئے ہیں۔ [68] شیعہ مآخذ میں یہ احادیث تقریبا 10 راویوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے نقل ہوئی ہیں۔ [69] کچھ راویوں نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کو تھوڑی سی مٹی دی تھی اور بعض دیگر نے لکھا ہے کہ یہ مٹی ام سلمہؓ کی وفات تک ان کے پاس موجود تھی۔ [70] امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ مٹی ہمارے پاس ہے۔ [71]

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَلْغاضِرِيَّةُ مِنْ تُرْبَةِ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ؛ [72]

کربلا بیت المقدس کی مٹی سے ہے"۔

خاک شفاء

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"أَلَا وَإِنَ‏ الْإِجَابَةَ تَحْتَ‏ قُبَّتِهِ‏ وَالشِّفَاءَ فِي‏ تُرْبَتِهِ‏؛ [73]

جان لو کہ دعا کی قبولیت امام حسین (علیہ السلام) کے حرم کے گنبد کے نیچے ہے اور شفاء آپؑ کی تربت میں ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"طِينُ قَبْرِالْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ وَهُوَ الدَّوَاءُ الأَكْبَرُ؛ [74]

[کربلا میں] امام حسین (علیہ السلام) کی خاک ہر دکھ درد کی شفاء ہے؛ اور یہی خود سب سے بڑی دوا ہے"۔

"حَنِّكُوا أَوْلاَدَكُم بِتُرْبَةِ اَلْحُسَيْنِ فَإنَّهَا أمانٌ؛ [75]

اپنے [نوزائیدہ] بچوں کا منہ امام حسین (علیہ السلام) کی تربت سے کھولا کرو؛ کیونکہ اس میں ان کے لئے امان اور تحفظ ہے"۔

صرف تربۃ الحسین (علیہ السلام)

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَلَا تَأخُذوا مِنْ تُرْبَتي شَيْئاً لِتَتَبَرَّكُوا بِهِ فَإِنَّ كُلَّ تُرْبَةٍ لَنَا مُحَرَّمَةٌ إِلاَّ تُرْبَةُ جَدِّيَ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَىٰ جَعَلَهَا شِفَاءً لِشِيْعَتِنَا وَأَوْلِيَائِنَا؛ [76]

میری [قبر کے اطراف] کی مٹی میں سے کچھ بھی تبرک کے لئے مت اٹھانا، کیونکہ ـ میرے جد امجد امام حسین بن علی (علیہما السلام) کی مٹی کے سوا ـ کوئی ھی مٹی کھانا ہم پر حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہمارے شیعوں اور پیروکاروں کے لئے شفاء قرار دیا ہے"۔

مقدس لباس

حج کے موقع پر احرام باندھا جاتا ہے جو کہ مقدس لباس سمجھا جاتا ہے۔

مقامات مقدسہ  

مقدس وادی

حضرت موسیٰ جب مقدس وادی میں داخل ہونے لگے تو اللہ کی طرف سے وحی آئی اور انہیں جوتے اتارنے کا حکم دیا گیا؛ ارشاد ہؤا:

"إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى؛ [77]

میں تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی دونوں جوتیاں اتار دو۔ بلاشبہ تم مقدس و محترم وادی طویٰ میں ہو"۔

مسجد الحرام

مسجد الحرام ایک مقدس مقام ہے اور خدائے متعال نے مشرکوں کو اس کے قریب جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ؛ [78]

اے ایمان لانے والو! مشرکیں سراسر نجس ہیں تو وہ اس سال کے بعد آئندہ مسجد حرام کے پاس بھی نہ جائیں"۔

ہر مسجد اور مقام عبادت مقدس ہے

مسجد اور ہر مقام عبادت بنی آدم [یعنی روئے زمین پر کے لئے مقدس ہے اور جب آپ مسجد جاتے ہیں، تو پاک و پاکیزہ ہو جایئے؛ خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ؛ [79]

اے آدم کے فرزندو! ہر نماز کے وقت اپنی زینتوں [اور پاکیزہ لباس] کے ساتھ رہو"۔

جنب شخص مسجد میں رکنے کا حق نہیں رکھتا

نماز مقدس ہے مستی کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ اور مسجد مقدس ہے وہاں جنابت کی حالت میں رکو نہیں:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا؛ [80]

اے ایمان لانے والو!نماز کے پاس نہ جاؤ اس حالت میں کہ تم نشے میں ہو جب تک [تمہارا نشہ ختم ہو اور تم ہوش کی حالت میں] جان لو کہ کیا کہہ رہے ہو؛ اور نہ جنابت کی حالت میں، سوا اس صورت کے کہ تم سفر میں [یا راہگیر] ہو، یہاں تک کہ تم غسل  کرلو"۔

مسجد کا تقدس اتنا ہے کہ ابراہیم، اسماعیل، زکریا اور مریم (علیہم السلام) مسجد کی تطہیر اور پاکیزگی پر مامور تھے۔ رب متعال نے فرمایا:

"وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ؛ [81]

ور جس وقت جب ہم نے خانہ کعبہ کو تمام لوگوں کا مرکز اور مقام امن قرار دیا اور [فرمان دیا کہ] تم لوگ مقام ابراہیم کو اپنی نماز کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والو ں اور رکوع کرنے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھنا"۔

یہاں تک کہ سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) کی والدہ ـ جو سمجھتی تھیں کہ گویا ان کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہوگا تو انھوں ـ نے نذر مانی کہ اس کو مسجد الاقصیٰ کا خادم بنائیں گی: ارشاد ربانی ہے:

"إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ؛ [82]

جب عمران کی زوجہ نے کہا اے میرے پروردگار! جو میرے پیٹ میں ہے میں نے اسے تیرے لئے نذر کر دیا کہ [دنیا کی مصروفیات سے] آزاد  ہو [اور تیری عبادت کرے] تو مجھ سے قبول کر، یقینا تو بڑا سننے والا ہے، بہت جاننے والا"۔

با ایمان انسان بھی مقدس اور لائق عزت ہیں

با ایمان انسان مقدس اور صاحب عزت ہے یہاں تک کہ مؤمن کی شان اور آبرو کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے، اور اس کی غیبت کرنا، اور اسے آزار و اذیت دینا حرام ہے اور اس کے حقوق کا تحفظ کرنا واجب ہے یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد اس کی قبر کھولنا حرام ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَثَلُ المُؤْمِنِ عِنْدَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ كَمَثَلِ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، وَإِنَّ الْمُؤمِنَ عِنْدَ اللّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَلَيْسَ شَيْءٌ أحَبَّ إلَى اللّهِ مِنْ مُؤْمِنٍ تَائِبٍ أَوْ مُؤْمِنَةٍ تائِبَةٍ؛ [83]

مؤمن کی مثال اللہ عزّ و جلّ کے نزدیک مقرب فرشتے کی مثال ہے، اور یقینا مؤمن اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ہے، اور کوئی بھی چیز خدا کے نزدیک توبہ کرنے والے مؤمن اور توبہ کرنے والی مؤمنہ سے زیادہ محبوب نہیں ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"المُؤمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنَ الكَعْبَةِ؛ [84]

مؤمن احترام کے لحاظ سے کعبہ سے بڑا ہے"۔

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُعْرَفُ فِي السَّمَاءِ كَمَا يَعْرِفُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ وَوَلَدَهُ، وَإنَّهُ لَأَكْرَمُ عَلَى اللّهِ مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ؛ [85]

یقینا مؤمن آسمان میں اسی طرح مشہور و مشہور ہے جس طرح کہ آدمی اپنے اہل خانہ اور اولاد کو پہچانتا ہے؛ اور یقینا وہ اللہ کے نزدیک مقرب فرشتے سے زیادہ عزت والا ہے"۔ 

مشرکین کی گستاخی اور اللہ کا جواب

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ * إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ؛ [86]

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے * یقینا ہم نے آپ کو خیر کثیر [کثرت نسل] عطا کی *  تو آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے * یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد [اور مقطوع النسل] ہے"۔

جس قدر کہ دین اور مقدسات کی توہین شدیدتر ہوگی دفاع کو بھی زیادہ طاقتور ہونا چاہئے۔ خدا کے دشمنوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بہت توہین کی، گستاخیاں کیں، آپؐ کو ساحر و کاہن اور شاعر و مجنون کہا، اور ان سب کی قرآن کریم میں تلافی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا:

"إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ؛ [87]

یقینا آپ مجنون [جن زدہ یا دیوانہ] ہو"۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے جواب دیا:

"وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ * وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ؛ [88]

اور (اے کفار مکہ) تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے * اور یقینا آپؐ نے اس [امینِ وحی] کو کھلے ہوئے روشن اُفُقْ پر دیکھا ہے"۔

"مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ؛ [89]

آپ اپنے پروردگار کے فضل وکرم سے دیوانے نہیں ہیں"۔

اور فرمایا: آپ مرسلین میں سے ہیں:

"تِلْكَ آيَاتُ اللّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ؛ [90]

یہ [حقیقی قصے اور واقعات اللہ کی [توحید، ربوبیت اور قدرت کی] نشانیاں ہیں جو ہم آپ سے سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور یقینا آپ پیغمبروں میں سے ہیں"۔

"إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ * عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ؛ [91]

بلاشبہ آپ پیغمبروں میں سے ہیں * سیدھے راستے پر"۔

مشرکین نے آپؐ پر شاعری کا الزام لگایا تو اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ؛ [92]

اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے خداؤں کو ایک دیوانے شاعر کی خاطر چھوڑ دیں؟"۔

اور اللہ تعالی جواب دیتا ہے:

"بَلْ جَاء بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ * إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ؛ [93]

بلکہ وہ حق کے ساتھ آئے ہیں اور [سابقہ] پیغمبروں کی تصدیق کی ہے *  یقینا تم لوگ درد ناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو"۔

اور اللہ تعالی قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ایک ساتھ دفاع کرتے ہوئے فرماتا ہے:

"وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ؛ [94]

اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ وہ [شاعری] ان کی شان کے لائق ہے؛ وہ [کتاب] تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن"۔

مشرکین نے آپؐ کو ابتر کہا تو اللہ تعالی نے سورہ کوثر اتار کر ان کا جواب دیا اور فرمایا:

"إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ؛ [95]

یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد [اور مقطوع النسل] ہے"۔

جی ہاں! اگر کوئی شخص اشرف مخلوقات کو "ابتر" کہہ دے اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس [اشرف مخلوقات] کو کوثر عطا فرمائے گا جو ہر ایک کی آنکھوں کو خیرہ کر دے گا اور ہر ایک کی عقل دنگ رہ جائے گی۔

سورہ کوثر میں اللہ کے ارشاد "إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ" سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو عطا کیا ہے وہ "ابتر" [مقطوع النسل] کا متضاد ہے۔ اور چونکہ عرب ان افراد کو ابتر کہتے ہیں جن کی کوئی نسل اور کوئی نرینہ اولاد نہ ہو اور ان کے مرنے پر ان کے آّثار بھی مٹ جاتے ہیں، چنانچہ "کوثر" کا بہترین مصداق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذریت اور نسل ہے جو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے چلی ہے، یعنی ائمۂ معصومین (علیہم السلام)۔

البتہ کوثر کے معنی عام ہیں اور "خیر کثیر" بھی اس میں شامل ہے لیکن ہر کثیر کوثر نہیں ہے۔

خدائے متعال فرماتا ہے کہ آپ کے مخالفین کی اولاد اور اموال، ان کے لئے سرمایۂ عذاب ہیں:

"وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلاَدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ؛ [96]

اور ان کا مال اور ان کی اولاد آپ کو تعجب سے دوچار نہ کردے اللہ تو بس چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام زائل کردے اور ان کی جانیں نکلیں ایسی حالت میں کہ وہ کافر ہیں"۔

فتح مکہ کے دوران مشرکین گروہ در گروہ اور فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے صرف تسبیح کا حکم دیا:

"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ * وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا * فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً؛ [97]

خدا کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے * جب اللہ کی مدد اور فتح و ظفر آجائے * اور آپ دیکھئے کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں * تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجئے اور اس سے بخشش کی دعا مانگئے بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے"۔

لیکن "کوٹر" عطا کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نماز [شکر] پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ "کوثر" اللہ کے نزدیک "فتح مکہ" اور مشرکین کے ایمان لانے سے کہیں زیادہ اہم ہے؛ ارشاد فرماتا ہے:

" إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ؛ [98]

یقینا ہم نے آپ کو خیر کثیر [کثرت نسل] عطا کی *  تو آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھتے رہئے اور قربانی کیجئے"۔

**************

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

 

[1]۔ سورہ حجرات، آیت 2۔

[2]۔ سورہ شعراء، آیات 97 تا 100۔

[3]۔ سورہ اعلیٰ، آیت 1۔

[4]۔ سورہ حجر، 86-87۔

[5]۔ سورہ آل عمران، آیت 204۔

[6]۔ سورہ واقعہ، آیت 77۔

[7]۔ سورہ ق، آیت 1۔

[8]۔ سورہ بروج، آیات 21-22۔

[9]۔ سورہ احزاب، آیت 56۔

[10]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، ج1، ص367؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج7، ص196؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج91، ص55؛ الحویزی، عبد علی بن جمعہ العروسی، تفسیر نور الثقلین، ج4، ص302۔

[11]۔ سورہ یس، آیات 1-2۔

[12]۔ سورہ صافات، آیت 79۔

[13]۔ سورہ صافات، آیت 109۔

[14]۔ سورہ صافات، آیت 120۔

[15]۔ سورہ صافات، آیت 130۔

[16]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام) (ط بیروت 1984)، ج1، ص214؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج25، ص228-229۔

[17]۔ ابن المغازلی، علي بن محمد الواسطی المالکی، مناقب أمیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص38؛ دیکھئے: بحار الانوار، ج38، ص251؛ شیخ مفید (رحمہ اللہ) نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے کہا: سات سال تک آپ اور علی (علیہ السلام) پر فرشتوں کے درود و صلوات کا سبب کیا ہے تو آپ نے فرمایا: اس لئے کہ اس عرصے میں مَردوں میں سے علی (علیہ السلام) کے سوا کوئی بھی میرے ساتھ نہیں تھا۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد العکبری، الفصول المختارہ، ص257۔

[18]۔ ابن المغازلی، وہی ماخذ، ص40؛ دیکھئے: بحار الانوار وہی صفحہ۔

[19]۔ علامہ کلینی،  اصول کافی،  ج1،  ص67؛  شیخ حر عاملی،  وسائل الشیعہ،  ج18،  ص98۔

[20]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج1، ص34۔

[21]۔ الخطیب البغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد (ط بیروت 1422ھ)، ج6، ص127۔

[22]۔ الآمدی التمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم ودرر الکلم، ج1، ص632۔

[23]۔ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن حسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلی اللہ علیہم)، ص394؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج1، ص148۔

[24]۔ سورہ بقرہ، آیت 248۔

[25]۔ سورہ لقمان، آیت 14۔

[26]۔ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامۃ الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ج2، ص368؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص162۔

[27]۔ نہج البلاغہ، حکمت 399۔

[28]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص158۔

[29]۔ العیاشی السمرقندی، محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج2، ص285؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص325؛ البحرانی، السيد ہاشم بن سلیمان الحسینی التوبلانی،البرہان فی تفسیر القرآن، ج2، ص413۔

[30]۔ سورہ قدر مکی ہے، قرآن کریم کی ستانوے واں سورہ ہے؛ ترتیب نزول: 25؛ آیات کی تعداد: 5۔

[31]۔ سورہ دخان، آیات 1 تا 6۔

[32]۔ سید بن طاؤس، علی بن موسی بن جعفر الحلی، اقبال الاعمال، ج1، ص345۔

[33]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، فضائل الاشہر الثلاثہ، ص105؛ النوری، الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج7، ص458۔

[34]. الشیخ الصدوق، محمد بن علی، فضائل الاشہر الثلاثہ، ص108. 

[35]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج4، ص66؛ الشیخ الصدق، محمد بن علی، الامالی، ص119۔

[36]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج4، ص159۔

[37]۔ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج43، ص65؛ البحرانی الاصفہانی، عبداللہ بن نور اللہ، عوالم العلوم والمعارف و الاحوال من الآیات والأخبار والأقوال، ج11، ص99۔

[38]۔ سورہ بقرہ، آیات 145؛ 150-151؛ 191؛ 196؛ 217۔ سورہ مائدہ، آیت 2۔ سورہ اعراف، آیت 29۔ سورہ انفال، آیت 34۔ سورہ توبہ، آیت 7۔ سورہ اسراء، آیت 1۔ سورہ کہف، آیت 21۔ سورہ عنکبوت، آیت 21۔ سورہ فتح، آیت 25؛ 27۔ سورہ حج، آیت 25۔

[39]۔ سورہ اعراف، آیت 29؛ 31- سورہ انفال، آیت 34۔ سورہ توبہ، آیت 7۔ سورہ اسراء، آیت 1۔ سورہ کہف، آیت 21۔ سورہ عنکبوت، آیت 25۔ سورہ فتح، آیت 25؛ 27۔ سورہ حج، آیت 25۔

[40]۔ سورہ توبہ، آیت 18۔

[41]۔ سورہ توبہ، آیات 107-

[42]۔ سورہ توبہ، آیات 108۔

[43]۔ المتقی الہندی، علی بن حسام الدین، کنز العمال، ج7، ص659، ح20785۔

[44]۔ العیاشی السمرقندی، محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج1، ص59، ح39؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج5، ص263۔

[45]۔ سورہ بقرہ، آیت 153۔

[46]۔ سورہ آل عمران، آیت 96۔

[47]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص30۔

[48]۔ ابن المشہدی، محمد بن جعفر المشہدی الحائری، المزار الکبیر، ص126-127، ح7؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار: ج100، ص394، ح27۔

[49]۔ سورہ نوح، آیت 27۔

[50]۔ الحسنی الحلی، سید عبدالکریم بن طاؤس، فرحۃ الغریٰ (ط قم 1998ع‍)، ص130۔

[51]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص272-273؛ ابن اثیر، علی بن محمد انشیبانی، الکامل فی التاریخ (المعروف بہ کامل ابن اثیر)، ج1، ص36۔

[52]۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص36؛ ابن حنبل، احمد بن محمد، المسند (ط 1900ع‍ بیروت)، ج1، ص397۔

[53]۔ الشیخ الصدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص272۔

[54]۔ ابن ظہیرہ، محمد بن محمد القرشی المکی، الجامع اللطیف، ص39؛ ابن ابی جمہور الاحسائی، محمد بن ابراہیم، عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، ج1، ص51-52۔

[55]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الہدایۃ فی الاصول و الفروع، ج2، ص224؛ الشریف المرتضیٰ، علی بن حسین بن موسی (المعروف بہ سید مرتضیٰ علم الہدیٰ، رسائل الشریف المرتضیٰ، ج3، ص65؛ وہی مصنف، الہدايۃ في الأصول والفروع، ص224۔

[56]۔ العیاشی السمرقندی، محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج1، ص59؛ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج22، ص380؛ فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى‌ (المعروف بہ ملا محسن)، التفسیر الصافی، ج1، ص136 وص188؛ نیز دیکھئے: محدث قمی، عباس بن محمد رضا (شیخ عباس قمی)، سفینه البحار ومذیته الحکم والاثار، ج1، ص507 مختصر سے لفظی اختلاف کے ساتھ۔

[57]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج2، صص670؛ النیلی، علی بن عبدالکریم، منتخب الانوار المضیئہ، ص350؛ کامل بن سلیمان، یوم الخلاص فی ظل القائم المہدی علیہ السلام، ج1، ص255؛ النعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ج1، ص242۔

[58]۔ الحاکم النیسابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص646؛ ازرقی، محمد بن عبداللہ، اخبار مکۃ وما جاء فیہ من الآّثار، ج2، ص50۔

[59]۔ الذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، ج2، ص206؛ ابن ماجہ نے اس حدیث کو کتاب المناسک کے باب 78 میں نقل کیا ہے۔

[60]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2 ص135؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحارالأنوار، ج99، ص245۔

[61]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج2، ص531-532۔

[62]۔ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، کامل الزيارات، ص280 تا 285؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج98، ص118، 129۔

[63]۔ البحرانی الاصفہانی، عبداللہ بن نور اللہ، عوالم العلوم والمعارف، ج17، ص124-131۔

[64]۔ ابن حنبل، احمد بن محمد، المسند، ج11، ص207-208؛ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الارشاد،ج 2، ص129؛ العلوی الشجری، محمد بن علی الکوفی، فضل زیارۃ الحسین علیہ السلام، ص90-92۔

[65]۔ ابو نعیم الاصفہانی، احمد بن عبداللہ، دلائل النبوہ، ص553؛ البیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ و احوال صاحب الشریعہ، ج6، ص468-470۔

[66]۔ موحد ابطحی، سید علی بن سید مرتضی اصفہانی،الامام الحسین علیہ ‌السلام فی احادیث الفریقین، ج4، ص218-242۔

[67]۔ ابو یعلی موصلی، احمد بن علی بن مثنیٰ تمیمی، مسند ابی یعلی، ج6، ص129-130؛ الخصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبریٰ، ص202-203؛ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، کامل الزيارات، ص59-61؛ الطبرانی، سلیمان بن احمد الشامی، المعجم الکبیر، ج3، ص108؛ ابن الشجری، یحییٰ بن حسین، الأمالی الخمیسیہ، ج2، ص82، مجلس 29، ص139-140؛ الحاكم النیسابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص398۔

[68]۔ میثمی عراقی، ملا محمود بن جعفر اراکی، دار السلام، (معجزہ 05) ص542؛ دستغیب شیرازی، سید عبدالحسین بن سید محمد تقی، داستانہائے شگفت، ص123-124۔

[69]. دیکھئے: الطوسي، محمد بن حسن، الامالی، ص314، 318، 330؛ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، ، إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الہُدیٰ، ج1، ص428۔

[70]۔ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، کامل الزيارات، ص60۔

[71]۔ الشیخ الطوسي، محمد بن حسن، الامالی، ص316۔

[72]۔ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، کامل الزيارات، ص269؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج10، ص324؛

[73]۔ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشيعا، ج‏14، ص 452؛ النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج10، ص335۔

[74]۔ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، کامل الزيارات، ص275؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج14، ص526۔

[75]۔ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج14، ص524۔

[76]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج1، ص104۔

[77]۔ سورہ طہ، آیت 12۔

[78]۔ سورہ توبہ، آیت 28۔

[79]۔ سورہ اعراف، آیت 31۔

[80]۔ سورہ نساء، آیت 43۔

[81]۔ سورہ بقرہ، آیت 125۔

[82]۔ سورہ آل عمران، آیت 35۔

[83]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص29؛ القمی الرازی، علی بن محمد بن علی، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الإثنیٰ عشر، ص119؛ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامة الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ص321؛ القُرطُبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، الجامع لأحکام القرآن المعروف بہ"تفسير القرطبى"، ج3، ص29۔

[84]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص27؛ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامۃ الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ج2، ص386۔

[85]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص33؛ علامہ مجلسی، محمد بن باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ص68، ص18۔

[86]۔ سورہ کوثر: قرآن کریم کی ایک سو آٹھواں سورہ؛ آیات کی تعداد: 3؛ ترتبب النزول 15۔

[87]۔ سورہ حجر، آیت 6۔

[88]۔ سورہ تکویر، آیات 22-23۔

[89]۔ سورہ قلم، آیت 2۔

[90]۔ سورہ بقرہ، آیت 252۔

[91]۔ سورہ یس، آیات 3-4۔

[92]۔ سورہ صافات، آیت 36۔

[93]۔ سورہ صافات، آیات 37-38۔

[94]۔ سورہ یس، آیت 69۔

[95]۔ سورہ کوثر، آیت 3۔

[96]۔ سورہ توبہ، آیت 65۔

[97]۔ سورہ نصر قرآن کریم کا 110واں سورہ ہے، آیات کی تعداد 3، اور ترتیب نزول 102۔

[98]۔ سورہ کوثر، آیات 1-2۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha