1 اپریل 2025 - 12:36
اللہ کی درگاہ میں دعا اور اس کی اہمیت

"کہئے کہ اگر تم دعا نہ مانگو تو میرا پروردگار تمہاری پرواہ نہیں کرتا [کیونکہ تمہارا سابقہ کردار قابل تعریف نہیں ہے اور] اب جو تم نے جھٹلایا ہے تو اس [جھٹلانے] کے نتائج تمہیں بھگتنا ہوں گے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا 

دعا

دعا کی اہمیت

پروردگار متعال نے ارشاد فرمایا:

"قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا؛ [1]

کہئے کہ اگر تم دعا نہ مانگو تو میرا پروردگار تمہاری پرواہ نہیں کرتا [کیونکہ تمہارا سابقہ کردار قابل تعریف نہیں ہے اور] اب جو تم نے جھٹلایا ہے تو اس [جھٹلانے] کے نتائج تمہیں بھگتنا ہوں گے"۔

لفظ "عَبَأَ" وزن اور بھاری پن کے معنی میں آیا ہے اور "مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي" کا مطلب یہ ہے کہ خدا تمہارے لئے وزن اور اہمیت کا قائل نہیں ہے، سوا اس کے تم دعا اور عبادت کرو۔

البتہ آیت میں "دُعَاؤُكُمْ" سے ایک آہ و زاری اور تضرع کا مطلب لیا گیا ہے، اور یہ دعا انسان کے لئے مختص ہے؛ اور یہ انسان کی وہ دعا ہے جو اللہ کی عنایت و توجہ کا سبب ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ: 

"اَلدُّعَاءُ مُخُّ اَلْعِبَادَةِ وَلاَ يَهْلِكُ مَعَ اَلدُّعَاءِ أَحَدٌ؛ [2]

دعا عبادت اور بندگی کا مغز ہے اور دعا کے ساتھ کوئی بھی ہلاک [اور نابود] نہیں ہوتا".

چنانچہ اللہ اس لوگوں سے شکوہ کرتا ہے جو دعا کرنے والے نہں ہیں، اور فرماتا ہے کہ تم نے حق کو جھٹلایا، اور میری عبادت کے بجائے بتوں کی پوجا اور ہویٰ و ہوس کی پیروی کی طرف چلے گئے، اور طاغوت کے پیرو ہو گئے، چنانچہ اب تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ 

اور ایک یہ "دُعَاؤُكُمْ" کا ایک مطلب "بندوں سے اللہ کی دعوت"، لیا گیا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انسانوں کو حق کی طرف بلاتا ہے اور ان پر حجت تمام کرتا ہے۔ جس چیز نے انسان کو برتر اور قابل قدر مخلوق بنا دیتی ہے، وہ اللہ کی طرف کی دعوت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے، لیکن اگر تم نے دعوت قبول نہ کی اور اگر تم نے اللہ کی دعوت کو جھٹلایا، پس تمہارے اندر خیر کی کوئی امید نہیں ہے اور اپنے اعمال کا کیفر ضرور پاؤگے۔

خدائے متعال ایک جگہ ارشاد فرماتا ہے:

"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ؛ [3]

اور میں نے جنات اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت [و بندگی] کریں"۔

اس آیت کریمہ [سورہ فرقان، آیت 77]  میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر انسان کے پاس دعا نہ ہوتی اور اگر وہ دعا نہ کرتا تو اللہ کے ہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی؛ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مذکورہ بالا حدیث میں فرماتے ہیں کہ دعا عبادت اور بندگی کا مغز ہے۔

جی ہاں! اگرچہ اللہ سب ہر چیز کو جانتا ہے لیکن دعا کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ دعا ہر جگہ اور ہر وقت، مفید ہے۔ کیونکہ خدائے متعال ارشاد فرماتا ہے: میں قریب ہوں "فَإِنِّي قَرِيبٌ" اور اگر کبھی اس کا قہر و غضب ہمارا گریبان پکڑتا ہے تو اس کی وجہ یوں بیان ہوئی ہے:

"وَسُئِلَ اَلصَّادِقُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: هَلْ لِلَّهِ تَعَالَى رِضًى وَسَخَطٌ؟ فَقَالَ: نَعَمْ وَلَيْسَ ذَلِكَ عَلَى مَا يُوجَدُ مِنَ اَلْمَخْلُوقِينَ وَلَكِنْ غَضَبُ اَللَّهِ عِقَابُهُ وَرِضَاهُ ثَوَابُهُ؛ [4]

اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے سے پوچھا گیا: کیا اللہ تعالیٰ خوشنود اور غضبناک ہوجاتا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا: ہاں! لیکن اس کا اس کی خوشنودی اور ناراضگی مخلوقین میں پائی جانے والی خوشنودی اور ناراضگی کی مانند نہیں ہے، بلکہ اللہ کا غضب اس کی طرف کی سزا ہے [ہمارے برے اعمال پر] اور اس کی خوشنودی ثواب ہے [ہمارے نیک اعمال پر]"۔

چنانچہ اللہ کا قہر یا غضب کا سبب یہ ہے کہ ہم اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں"۔

اللہ کی خاص عنایت دعا کرنے والوں پر

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ؛ [5]

اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو [کہہ دیجئے کہ] بلاشبہ میں [تمہارے] قریب ہوں، پکارنے والے کی صدا پر لبیک کہتا ہوں جب وہ مجھے پکارے تو انہیں لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان و یقین رکھیں، شاید وہ [نمو، ترقی اور پختگی کی] نیک راہ پر آجائیں"۔

دعا مانگنے والا اس انداز سے اللہ کے فضل، رضا اور محبت کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہے کہ خدا اس آیت میں اپنا احسان ظاہر کرنے کے لئے سات مرتبہ "میں، میرا، مجھ اور مجھ" (ضمیر متکلم) استعمال کیا ہے، فرماتا ہے: "اگر "میرے بندے"، "میرے بارے میں"، پوچھیں تو کہہ دیجئے کہ "میں خود"، ان کے قریب ہوں، جب وہ "مجھے بلائیں گے"، "میں خود" ان کی دعاؤں کو بر لاؤں گا، تو وہ "مجھ ہی" پر ایمان لائیں، اور "میری ہی دعوت" کو قبول کریں۔

یہ محبت بھرا ارتباط و تعلق، اس صورت میں ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ بات چیت اور مناجات کرتا رہے۔

سوال: ہماری دعائیں کبھی قبول کیوں نہیں ہؤا کرتیں؟

جواب تفسیر المیزان سے:

"جو دعا قبول نہیں ہوتی اور مقام اجابت تک نہیں پہنچتی، وجہ یہ ہے کہ دو شرطوں میں سے ایک، اس میں موجود نہیں ہے۔ اور وہ دو چیزیں وہی ہیں جن کی طرف "أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ؛ (میں خود بندے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ صرف مجھے بلاتا ہے)؛ اول یہ ہے کہ دعا حقیقی دعا نہیں ہے، اور دعا کا مسئلہ اس پر مبہم اور مُشتَبَہ ہو گیا ہے، اس شخص کی طرح جس کو معلوم نہیں ہے کہ اس کی حاجت کا بر آنا ممکن نہیں ہے، اور جہل کی وجہ سے وہی کچھ طلب کر رہا ہے۔ یا اس شخص کی طرح ہے کہ مسئلے کی حقیقت کو نہیں جانتا اور اگر جانتا تو ہرگز اس کی درخواست نہ کرتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی وہ جانتا کہ فلان مریض کی موت حتمی ہے اور اس کی شفا کی دعا درحقیقت مردے کو زندہ کرنے کی دعا ہے، تو وہ شفا کی دوخواست ہرگز نہ کرتا۔ اور اگر انبیاء کی طرح، محسوس کرے کہ اس کی دعا سے مردہ زندہ ہوتا ہے، تو یقینا وہ اس کی شفا کی دعا کرے گا۔ لیکن ایک معمولی انسان جو دعا کرتا ہے، اس طرح کی دعا کی استجابت اور قبولیت سے مایوس ہے۔ اور اگر وہ جانتا کہ اس کے فرزند [بیٹے یا بیٹی] کی صحت یابی سے کتنے بڑے خطرات اس کو اور اس کے فرزند کو لاحق ہونگے، تو وہ اس کی شفا کی دعا نہ کرتا، اور چونکہ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے اور اللہ اس حقیقت کو جانتا ہے، چنانچہ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

دعا کی عدم استجابت کی ایک وجہ یہ ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا حقیقی دعا نہیں ہے، وہ دعا میں خدا کو نہیں بلا رہا ہوتا ہے، یعنی یہ کہ زبان سے خدا سے التجا کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے دل میں اس کی امید معمول کے اسباب اور وہی امور سے جڑی ہوئی ہے، وہ امور جو اس کے وہم میں، اس کی زندگی میں مؤثر ہیں۔

چنانچہ، اس طرح کی دعا میں دوسری شرط یعنی "إِذَا دَعَانِ؛ (جب، اور ایسی صورت میں کہ مجھے بلا دے)"، ناپید ہے۔ کیونکہ دعا خدائے سبحان کی بارگاہ میں حقیقی التجا نہیں ہے، اور درحقیقت اس نے سے اللہ سے دعا کی نہیں کی ہے، کیونکہ وہ خدا جو دعا کو قبول کرتا ہے، وہ وہ ہے جس کا اپنے امور میں کوئی شریک نہیں ہے، اور وہ وہ نہیں ہے اسباب اور اوہام کے ساتھ مل کر، کام کرتا ہے، کیونکہ جس کا کوئی شریک ہوتا ہے وہ دعا قبول کرنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ دعا کرنے والوں میں سے ان دو گروہوں اور اس طرح کے سوال کرنے والوں، کی دعا مستجاب نہیں ہے، کیونکہ ان کی دعا، دعا نہیں ہے، کیونکہ وہ یا تو پس پردہ حقائق سے بے خبر ہیں اور ناممکنات کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں یا وہ خداوند متعال سے التجا نہیں کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی دعا خالصانہ نہیں ہوتی"۔ [6]

خلاصہ یہ کہ "أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ" میں "إِذَا دَعَانِ" شرط دعا ہے، یعنی ضروری ہے کہ دعا کنندہ صرف اللہ سے التجا کرے، اخلاص کے ساتھ دعا کرے، طلب خیر کرے، اور اگر ہماری دعا قبول نہیں ہوئی تو یا تو اس لئے ہے کہ ہم نے اللہ سے خیر نہیں مانگی ہے، یا اگر دعا قبول ہوتی تو اس سے کوئی خیر ہمارے نصیب نہ ہوتی بلکہ شر سے دوچار ہوتے؛ یا ہماری دعا خالصانہ اور صادقانہ نہیں تھی یا ہم نے اللہ کے ساتھ اپنے ذہن اور دل میں غیر اللہ کو بھی اللہ کے ساتھ شریک قرار دیا تھا یا دعا کی قبولیت ہماری مصلحت یا اور مفاد میں نہیں تھی۔ اس صورت میں احادیث سے ثابت ہے کہ کوئی بلا ہمارے سر سے ٹل جاتی ہے، یا ہمارے مستقبل اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے، یا اس کا فائدہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔

دعا قبول نہ ہونے کے فوائد بھی ہیں

ہم میں سے ہر کسی کو پیش آتا ہے، کہ خلوص قلب کے ساتھ دست بدعا ہوجاتے ہیں اور دعا کے آداب کی رعایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دعا مستجاب [اور قبول] نہیں ہوتی؛ پھر بھی دعا کرتے ہیں اور پھر بھی اور پھر بھی، مگر استجابت سے محروم، اپنے اخلاص میں شک کرتے ہیں اور کبھی شاید (معاذ اللہ) اللہ کی رحمت سے مایوسی۔۔۔

اس صورت حال میں ذیل کی حدیث بہترین سہارا اور امید کا سرچشمہ ہے ہمارے لئے، جو دعا کی عدم قبولیت سے شکوہ کرتے ہیں:

امام علی بن الحسین زین العابدین سید الساجدین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"المُؤْمِنُ مِنْ دُعَائِهِ عَلَى ثَلَاثٍ: إَمّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ وَإِمَّا أَنْ يُعَجَّل لَهُ وَإِمّا أَنْ يُدْفَعَ عَنْهُ بَلَاءٌ يُرِيدُ أَنْ يُصِيبَهُ؛ [7]

دعائے مؤمن تین فیوضات پر مبنی ہے: یا تو اس کی دعا اس کی آخرت کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے، یا اس کی حجت برآوردہ ہوجاتی ہے یا ایک ایسی آفت اور بلا کے ٹل جانے پر منتج ہوتی ہے"۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مستجاب نہ ہونے والی دعا ضائع نہیں ہوتی ہے، بلکہ ہمارے اعمال کے صندوق میں محفوظ کی جاتی ہے، اس دن کے لئے جب ہمارے ہاتھ خالی ہونگے، یا ڈال بن جاتی ہے اس آزمائشوں اور مصائب کے سامنے، جو ہماری زندگی کو سیاہ بنا سکتے تھے۔

حدیث کی شرح:

کبھی مؤمن بندہ دعا کرتا ہے، لیکن مستجاب نہیں ہے؛ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دعا اور حاجت خواہی بے فائدہ تھی۔ یعنی یہ کہ اگر دعا اعتقاد اور یقین پر مبنی ہو اور خلوص دل کے ساتھ ہو، دعا کا وقت اور مقام بھی بالکل مناسب ہو، دعا کے حالات بھی بالکل سازگار ہوں اور ظاہری طور پر دعا کی قبولیت میں کوئی مانع اور رکاوٹ نہ ہو اور دعا کرنے والا حقیقتا اور عملا مؤمن ہو، تو اس کی دعا ضرور بضرور ثمربخش ہے۔ 

دعا کا ثمرہ اس صورت میں ہے کہ اگر خدائے حکیم دعا کی استجابت کو ـ اس دنیا میں بندے کے قرین مصلحت قرار نہ دے، تو یہ اس کے لئے محفوظ کی جاتی ہے، اور زیادہ مناسب حالات میں قبول ہوجاتی ہے، یا اس دعا کی برکت سے کوئی مصیبت اس سے ٹل جاتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی غلطی یا اللہ کی تقدیر کے مطابق، کوئی مصیبت بندے کے اوپر آنا طے ہوتی ہے، لیکن وہ آستان پروردگار پر التجا کرتا ہے اور دست نیاز اس کے سامنے پھیلا دیتا ہے اور رازو نیاز کرتا ہے اور آہ و نالہ کرتا ہے، اور یہ سبب بنتا ہے کہ وہ مصیبت ٹل جائے اور اس کا مقدر بدل جائے۔

اور پھر اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ؛ [8]

اور بہت ممکن ہے کسی چیز کو تم نا پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے اچھی ہے، اور بہت ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"۔

انسان ایک عمل کی مختلف جہتوں پر علمی احاطہ نہیں رکھتا چنانچہ کچھ دعائیں، کبھی دعا کی قبولیت اس کے لئے قرین مصلحت نہیں ہوتی، اور وہ دعا، دعا کنندہ کی اپنی مصلحت کی بنا پر قبول نہیں ہوتی، کیونکہ وہ علمی احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایسی چیزیں مانگتا ہے جو اس کے نقصان میں ہوتی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:

"وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا؛ [9]

اور انسان [عجلت زدگی اور جلدبازی کی وجہ سے] برائی کی بھی دعا کرتا ہے۔ اسی طرح جیسے وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے اور انسان بڑا جلد باز واقع ہؤا ہے"۔ 

اور کبھی دعا کی استجابت اور ہے اور انسان ایسے وقت میں دعا کرتا ہے جو اس کی مصلحت میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ عزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي أَفْضَلِ السَّاعَاتِ فَعَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فِي أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ؛ [10]

یقینا اللہ عزّ و جلّ نے تم پر پانچ نمازیں فرض کر دی ہیں بہترین اوقات میں، تو تم پر لازم ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کیا کرو"۔

امر و نہی کے فقدان اور اشرار اور ظالمین کی حکمرانی

"لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَیسْتَعْمَلَنَّ عَلَیكُمْ شِرَارُكُمْ، فَیدْعُو خِیارُكُمْ فَلـا یسْتَجَابُ لَهُمْ؛ [11]

ضرور بضرور امر بالمعروف کیا کرو [اور نیکیوں کا حکم دیا کرو] اور ضرور بضرور نہی عن المنکر کیا کرو [اور برائیوں سے لوگوں باز رکھا کرو]، ورنہ تمہارے بدترین لوگ تم پر مسلط کئے جائیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ بھی دعا کریں تو قبول نہیں ہوگی"۔

البتہ دعا کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کام کاج کو ترک کیا جائے، بلکہ اللہ پر توکل اور اللہ سے التجا کام کاج اور کوشش کے ساتھ ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بے روزگار شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

"علی بن عبدالعزیز کہتے ہیں: امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ پوچھا: عمر بن مسلم کیا کر رہا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے کارو بار تجارت کو چھوڑ رکھا ہے۔ فرمایا: "وَیحَهُ! أما عَلِمَ أنَّ تارِك الطَّلَبِ لَا یُستَجَابُ لَهَ؛ وائے ہو اس پر، کیا وہ نہیں جانتا کہ جو طلب رزق ترک کرے گا اس کی دعا قبول نہیں ہوتی؟"۔ اور پھر فرمایا: جب سورہ طلاق کی آیت "وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًاً * وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ...؛ جو اللہ سے ڈرے تو وہ اس کے لئے نکاسی کا راستا پیدا کرتا ہے * اور اسے روزی دیتا ہے اس طرح جو اس کے سان گمان میں بھی نہیں ہے"۔ [12] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعض صحابہ نے اپنی دکانیں بند کر دیں اور مسجد میں مصروف عبادت ہوئے۔ وہ دل ہی دل میں کہتے تھے کہ اللہ نے ہماری روٹی روزی کی ضمانت دے دی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خبر ہوئی کہ آپؐ نے انہیں بلوا بھیجا اور دریافت کیا کہ کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟ کہنے لگے: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! خداوند متعال نے ہماری روزی کی ضمانت دی ہے، چنانچہ دعا اور بندگی میں مصروف ہوئے ہیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا: "إِنَّهُ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ يَسْتَجِبِ اللَّهُ لَهُ، عَلَيْكُمْ بِالطَّلَبِ؛ یقینا جو کام کاج ترک کرے گا، اللہ اس کی دعا بھی قبول نہیں کرتا"، اور پھر [امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے] فرمایا: "إِنِّي لَأُبْغِضُ اَلرَّجُلَ فَاغِراً فَاهُ إِلَى رَبِّهِ فَيَقُولُ اُرْزُقْنِي وَيَتْرُكُ اَلطَّلَبَ؛ یقینا مجھے نفرت ہے اس شخص سے جس نے اپنا منہ اپنے پروردگار کی طرف کھول رکھا ہو اور کہتا ہو کہ "مجھے رزق عطا کر"، حالانکہ اس نے روزی کی طلب اور کام کاج کو ترک کر دیا ہے"۔ [13]

 سوال: اگر اللہ تعالیٰ کے افعال قانون کے مطابق اور رائج عوامل اور سنتوں پر استوار ہیں، تو دعا کا کیا کردار ہے؟

جواب: جس طرح کہ مسافر انسان کے روزے اور نماز کے احکام وطن میں مقیم شخص کے نماز اور روزے سے مختلف ہیں، دعا کرنے والے اور اللہ کے ذکر سے غافل شخص میں بھی فرق ہے اور اللہ کی سنت یہ ہے اول الذکر شخص پر فضل و کرم کرے، نہ کہ مؤخر الذکر شخص پر۔ جی ہاں! دعا اور اللہ کے ساتھ بات چیت اور راز و نیاز، اللہ کے لطف و کرم تک رسائی کے لئے انسان کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔ جیسا توسّل اور اولیائے الٰہی (علیہم السلام) کی زیارت، انسان کے حالات و کیفیات کو بدل دیتی ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی بچہ اپنے والد کے ساتھ کسی دعوت و ضیافت میں شرکت کرے، اسے حاصل ہونے والی توجہ اور محبت اس بچے سے کہیں زیادہ ہوگی جو تنہا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ دعا زیارت اور توسل، حالات میں تبدیلی کا باعث ہے نہ کہ اللہ کی حتمی سنتوں کو نہيں بدلتی اگرچہ کبھی یہ اٹل اور مبرم قسمت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔

دعا تَقْدِیرِ مُبْرَم (نہ ٹلنے والا مقدر، اٹل قسمت۔) کو بھی بدل سکتی ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اَلدُّعَاءُ يَرُدُّ اَلْقَضَاءَ بَعْدَ مَا أُبْرِمَ إِبْرَاماً فَأَكْثِرْ مِنَ اَلدُّعَاءِ فَإِنَّهُ مِفْتَاحُ كُلِّ رَحْمَةٍ وَنَجَاحُ كُلِّ حَاجَةٍ وَلاَ يُنَالُ مَا عِنْدَ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ بِالدُّعَاءِ وَإِنَّهُ لَيْسَ بَابٌ يُكْثَرُ قَرْعُهُ إِلاَّ يُوشِكُ أَنْ يُفْتَحَ لِصَاحِبِهِ؛ [14]

دعا اس تقدیر کو جو بہت مبرَم، فوری اور اٹل ہوچکی ہے، پلٹ دیتی (سکتی) ہے۔ بہت زیادہ دعا کرو، کیونکہ یہ رحمت اور کامیابی کی کنجی ہے ہر حاجت کے لئے، اور اس چیز تک رسائی ممکن نہیں ہے جو اللہ کے ہاں ہے مگر دعا کے ذریعے، اور حقیقت یہ ہے کہ کسی دروازے پر بھی بہت زیادہ دستک نہیں دی جاتی مگر یہ کہ وہ دروازہ دستک دینے والے پر کھل جاتا ہے"۔

دعا مانگو، اللہ استجابت کرنے والا ہے

"وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ؛ [15]

اور تمہارے پروردگار نے کہا کہ مجھے بلا دو [اور مجھ سے دعا کرو]، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بلاشبہ جو میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ ذلت وحقارت کے ساتھ دوزخ میں داخل ہوں گے"۔

دعا کے بعض آداب و شرائط

1۔ دعا کو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ہونا چاہئے:

"وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ؛ [16]

اور قبول کرتا ہے دعا کو ان کی جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں"۔

2۔ اخلاص کے ساتھ ہونا چاہئے:

"فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ؛ [17]

تو اللہ کو اس کی خالص عبادت کرتے ہوئے پکارو؛ چاہے کافر لوگ ناپسند کریں"۔

3۔ انکسار اور بیچارگی سے اور خفیہ طور پر ہو:

"ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً؛ [18]

اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور خفیہ طور پر، پکارو"۔

4۔ خوف و امید کے ساتھ ہو:

"وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا؛ [19]

اور اس سے دعا کرو خوف اور امید کے ساتھ"۔

5۔ خاص خاص گھڑیوں میں ہو:

"يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ؛ [20]

جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں"۔

6۔ دعا کرنے والا اسماء اللہ سے فیض اٹھائے:

"وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا؛ [21]

اور اللہ کے لئے مخصوص ہیں اسما‏ء الحسنیٰ (وہ نام جو بہترین ہیں) تو اسے ان کے ذریعے سے پکارو"۔

دعا کے آداب کے بعض نکات مذکورہ بالا متن کے ضمن میں بھی بیان ہوئے ہیں۔

دعا کی عدم قبولیت کے بعض اسباب

گوکہ مذکورہ بالا متن میں دعا کی قبولیت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کی طرف اشارہ ہؤا لیکن یہاں بھی بعض رکاوٹوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

گناہ، ظلم و جبر، اور عفو و درگذر کرنے اور ہم سے معذرت کرنے والوں کی معذرت قبول نہ کرنے جیسے عوامل بھی دعا کی استجابت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

یا بعض اوقات اگر ہماری بعض دعائیں قبول ہوجائیں تو اس سے وجود میں آنے والی صورت حال نظام خلقت کے درہم برہم ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ بطور مثال کہتے ہیں کہ ایک طالبعلم نے جغرافیے کے پرچے میں اس سوال کے جواب میں ـ کہ سمندروں کی سطح زیادہ بلند ہے یا کہ پہاڑوں کی سطح؟ ـ غلطی سے لکھا تھا کہ "سمندروں کی سطح پہاڑوں سے اونچی ہے"، اور بعد میں دعا کر رہا تھا کہ "اے اللہ! تو سمندروں کی سطح پہاڑوں سے بلند تر کر دے، تاکہ میرا جواب ٹھیک قرار دیا جائے اور مجھے پورے نمبر ملیں!"، واضح ہونا چاہئے کہ اگرچہ اللہ قادر ہے، لیکن وہ حکیم بھی تو ہے۔

استجابتِ دعا دو طرفہ ہے، یعنی اگر لوگ دعا کی استجابت کی توقع رکھتے ہیں تو وہ اللہ کی دعوت بھی قبول کریں؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

"يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيكُمۡ؛ [22]

اے ایمان لانے والو! لبیک کہو اللہ اور رسول کی دعوت پر پر جب وہ تمہیں دعوت دیتے ہیں اس چیز کی طرف جو تمہیں زندہ کر دے گی"۔

نیز اس تحریر کے ابتدائی صفحات میں جس آیت کو موضوع سخن بنایا گیا اس میں قبول کی شرط یہی ہے کہ استجابت دو طرفہ ہونا چاہئے:

"أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي؛ [23]

میں پکارنے والے کی صدا پر لبیک کہتا ہوں جب وہ مجھے پکارے تو انہیں لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان و یقین رکھیں"۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ

"وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا؛ [24]

اور اللہ کے لئے مخصوص ہیں اسما‏ء الحسنیٰ (وہ نام جو بہترین ہیں) تو اسے ان کے ذریعے سے پکارو"۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء اور صفات عمدہ اور خوبصورت اور دلکش ہیں اور اللہ تمام کمالات کا مالک ہے اور اس کے کمالات گنتی میں نہیں آتے، لیکن احادیث میں اس ذات اقدس کے لئے 99 ناموں کا ذکر آیا ہے اور جو بھی وقت، مقام، اور دیگر شرائط کو ملحوظ رکھ کر ان اسمائے الٰہیہ سے اللہ کو پکارے گا، ان شاء اللہ ـ اگر اللہ مصلحت جانے تو ـ اس کی دعا قبول ہوگی؛ اور وہ 99 نام حسب ذیل ہیں:

"اللّه * الْإِلَٰهُ * الواحد * الأحد * الصّمد * الاوّل * الآخر * السّميع * البصير * القدير * القاهر * العليّ * الأعلىٰ * الباقي * البديع * البارّ * الأكرم * الظاهر * الباطن * الحيّ * الحكيم * العليم * الحليم * الحفيظ * الحقّ * الحسيب * الحميد * الحفيّ * الربّ * الرّحمٰن * الرّحيم * الذّارء * الرّازق * الرّقيب * الرؤوف * الرّائي * السّلام * المؤمن * المهيمن * العزيز * الجبّار * المتكبّر * السيد * السُبّوح * الشهيد * الصادق * الصانع * الطاهر * العدل * العفو * الغفور * الغنيّ * الغياث * الفاطر * الفرد * الفتّاح * الفالق * القديم * المَلِك * القدّوس * القويّ * القريب * القيّوم * القابض * الباسط * قاضي الحاجات * المجيد * المولىٰ * المنّان * المحيط * المبين * المقيت * المصوّر * الكريم * الكبير * الكافي * كاشف الضرّ * الوتر * النور * الوهّاب * الناصر * الواسع * الودود * الهادي * الوفيّ * الوكيل * الوارث * البرّ * الباعث * التوّاب * الجليل * الجواد * الخبير * الخالق * خير النّاصرين * الديّان * الشكور * العظيم * اللطيف * الشافي"۔ [25]

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لئے 145 نام بیان ہوئے ہیں، اور احادیث میں 99 نام منقول ہیں؛ جس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ بعض نام دوسرے ناموں میں مُدغَم ہو سکتے ہیں اور ایک نام ایک سے زیادہ ناموں پر منطبق ہو سکتا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ نام قرآن کریم میں بھی ہیں، نہ یہ کہ ناموں کی تعداد سی حد تک محدود ہو۔ بعض احادیث اور اور "جوشن کبیر" جیسی دعاؤں میں اللہ کے لئے دوسرے کئی نام بھی مذکور ہیں؛ گوکہ اللہ کے بعض اسماء الحسنیٰ کے اپنے خاص آثار، برکات اور خصوصیات ہیں۔

اور ہاں، دعا کی قبولیت کی بنیادی شرط "ولایت"

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے "وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"نَحْنُ وَاللهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ الَّتِي لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنَ العِبَادِ عَمَلاً إِلَّا بِمَعْرِفَتِنَا؛ [26]

ہم ہیں ـ خدا کی قسم اللہ کے اسماء الحسنیٰ (اور اچھے اور بہترین نام)، اور اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو بھی ـ ہماری معرفت (اور ہماری حقانیت تسلیم کرنے) کے بغیر ـ قبول نہیں فرماتا"۔

نیز امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا نَزَلَت بِكُمْ شِدَّةٌ فَاسْتَعِينُوا بَنَا عَلَى اللهِ وَهُوَ قَوْلُ اللهِ: "وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا"؛ [27]

جب بھی تم مشکلات و مسائل ٹوٹ پڑیں تو ہم سے مدد مانگو، اور یہ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ "اور اللہ کے لئے مخصوص ہیں اسما‏ء الحسنیٰ (وہ نام جو بہترین ہیں) تو اسے ان کے ذریعے سے پکارو"۔

امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"إِنّ الخَالِقَ لَا يُوصَفُ إلَّا بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ وَأَنَّى يُوصَفُ الْخَالِقُ الَّذِي تَعْجُزُ الْحَوَاسُّ أنْ تُدْرِكَهُ وَالْأَوْهَامُ أَنْ تَنَالَهُ وَالْخَطَرَاتُ أَنْ تَحُدَّهُ وَالْأَبْصَارُ عَنِ الْإِحَاطَةِ بِهِ؟! جَلَّ عَمَّا يَصِفُهُ الْوَاصِفُونَ وَتَعَالَى عَمَّا يَنْعَتُهُ النَّاعِتُونَ؛ [28]

یقینا خالق متعال کی توصیف ممکن نہیں ہے سوا اس طرح سے کہ جو اس نے اپنی توصیف کی ہے، [خدا کا تعارف صرف انہیں صفات سے ممکن ہے جن سے اللہ نے خود اپنا تعارف کرایا ہے؛ اور کیسے ممکن ہے کہ اس خالق کی توصیف کی جائے جس کے ادراک سے تمام حواسّ عاجز ہیں، اور اوہام و افکار اس کی تعریف و تحدید سے بے بس ہیں، اور بصارتیں اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں؛ توصیف کرنے والوں کی توصیف سے بالا تر ہے اور نعت کہنے والوں کی نعتوں سے والا تر"۔

چنانچہ خیال رہنا چاہئے کہ اللہ کو پکارتے ہوئے، یا اس ذات باری کی تعریف و تعارف کے وقت، من گھڑت اوصاف اور تعریفات کو بکار نہ لایا جائے، جیسے عفیف، شجاع وغیرہ۔

**************

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ سورہ فرقان، آیت 77۔

[2]۔ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج90، ص300؛ علامہ حسن بن محمد دیلمی نے حدیث "الدعاء مخ العبادہ" کے بعد ایک حدیث کے ضمن ميں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت کی ہے کہ "۔۔۔ وإنه لن یهلك مع الدعاء هالك"۔ ارشاد القلوب، ج1، ص148۔

[3]. سورہ ذاریات، آیت 56۔

[4]۔ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامة الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ج1، ص35۔ الکافی کی مفصل حدیث میں بھی یہ مضمون بیان ہؤا ہے، (الکلینی، الکافی، ج1، ص110۔)

[5]۔ سورہ بقرہ، آیت 186۔

[6]۔ علامہ طباطبائی، سید محمد حسین بن سید محمد، المیزان فی تفسیر القرآن، ج2، ص33۔

[7]۔ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن حسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلی اللہ علیہم)، ص280۔

[8]۔ سورہ بقرہ، آیت 216۔

[9]۔ ؛ سورہ اسراء، آیت 11۔

[10]۔ الشیخ الصدوق،  محمد بن علی، الخصال، ج2، ص278۔

[11]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج5، ص56؛ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، تہذیب الاحکام، ج6، ص179؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص50؛ ابن ابی جمہور الاحسائی، محمد بن علی بن ابراہیم الشیبانی البکری، عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، ج3، ص191-192۔

[12]۔ سورہ طلاق، آیات 2 و 3۔

[13]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج3، ص192۔

[14]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج2، ص470۔

[15]۔ سورہ غافر، آیت 60۔

[16]۔ سورہ شوریٰ، آیت 26۔

[17]۔ سورہ غافر، آیت 14۔

[18]۔ سورہ اعراف، آیت 55۔

[19]۔ سورہ اعراف، آیت 56۔

[20]۔ سورہ کہف، آیت 28۔

[21]۔ سورہ اعراف، آیت 180۔

[22]۔ سورہ انفال، آیت 24۔

[23]۔ سورہ بقرہ، آیت 186۔

[24]۔ سورہ اعراف، آیت 180۔

[25]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، التوحید، ص194-195۔

[26]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج1، ص144۔یہ حدیث امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے بھی منقول ہے۔

[27]۔ محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج2، ص42؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج5، ص229۔

[28]۔ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن حسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلی اللہ علیہم)، ص482؛ بہاء الدین الاربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ (علیہم السلام)، ج3، ص176؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج4، ص303۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha