اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
سورہ حمد کی تفسیر
سورہ فاتحہ
﷽ (1) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (7)؛
"اللہ کے نام سے جو سب بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے (1) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے (2) وہ جو انتہائی بخشنے والا اور مہربان ہے (3) سزا اور جزا کے دن کا مالک (4) ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں (5) بتلاتا رہ ہم کو سیدھا راستہ (6) [اے اللہ! ہمیں بتلاتا رہ] ان کا راستہ جن کو تو نے نعمتوں سے نوازا ہے نہ ان کا راستہ جن پر [تیرا] غضب ہے اور نہ ان کا جو [تیرے سیدھے راستے سے] بھٹکے ہوئے ہیں" (7)"۔
"الحمد للہ" اللہ کی سپاس اور تشکر کی بہترین قسم ہے۔ جو بھی جہاں بھی کسی بھی زبان میں، جب بھی "الحمد للہ" کہہ کر کسی بھی کمال اور خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے، تو گویا کہ تمام خوبصورتیوں کے اصل سرچشمے کی تعریف کرتا ہے البتہ اللہ کی حمد و ثناء، مخلوقات کا شکریہ ادا کرنے کے منافی نہیں ہے، شرط یہ ہے کہ وہ یہ شکریہ بھی اللہ کے حکم کو نظر میں رکھ کر شکریہ ادا کرتا ہو اور اسی کے راستے پر ہو۔
وہ سورہ جس کی ابتدا حمد، درمیان میں اخلاص اور آخر میں دعا ہے
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ابو حنیفہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"السُّورَةُ الَّتِي أَوَّلُهَا تَحْمِیدٌ وَأَوْسَطُهَا إِخْلَاصٌ وَآخِرُهَا دُعَاءٌ سُورَةُ الْحَمْد؛ [1]
وہ سورہ جس کا ابتدائی حصہ حمد و ثناء ہے، درمیانی حصہ اخلاص ہے اور آخری حصہ دعا ہے، سورہ حمد ہے"۔
خدائے متعال نے رحمت کو اپنے اوپر فرض کر دیا ہے، ارشاد فرماتا ہے:
"كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ؛ [2]
پروردگار نے اپنے ذمہ رحمت کو عائد [و واجب] کر لیا ہے"۔
اس کی رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے؛ ارشاد فرماتا ہے:
"وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ؛ [3]
اور میری رحمت ہر شیۓ کو گھیرے ہوئے ہے"۔
قرآن کریم رحمت اور باعث رحمت ہے، بنی نوع انسان، مؤمنین اور مسلمین کے لئے؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ؛ [4]
اے انسانو! یقیناً تمہارے لئے آیا ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے وعظ و نصیحت [کا ایک مجموعہ] اور سینوں کے اندر کی بیماریوں کے لئے شفاء [اور علاج] اور راہنمائی اور رحمت، ایمان لانے والوں کے لئے"۔
پیغمبر خدا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی رحمت ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
"وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةࣰ لِّلۡعَٰلَمِينَ؛ [5]
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کے لئے"۔
اللہ کی خلقت اور پرورش رحمت کی بنیاد پر ہے، اور اس کی رحمت اور سزا و عقوبت بھی اس کے لطف و عنایت کے زمرے میں آتی ہے۔
ثواب و عِقاب (انعام اور عذاب) کا فلسفہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے زبانی:
"إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِهِ، وَالْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِهِ، ذِيَادَةً لِعِبَادِهِ عَنْ نِقْمَتِهِ، وَحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِهِ؛ [6]
یقیناً اللہ سبحانہ نے اپنی اطاعت [و بندگی] پر ثواب اور اپنی معصیت پر سزا اس لئے رکھی ہے کہ اپنے بندوں کو عذاب سے دور کر دے اور گھیر کر جنت کی طرف لے جائے"۔
گناہوں کا بخشنا اور بندوں کی توبہ قبول کرنا اور ان کے عیبوں کو چھپنا اور غلطیوں کے ازالے کا موقع دینا، سب اللہ کی رحمت اور مہربانی کے مظاہر ہیں۔
باوجود اس کے کہ خدائے تعالیٰ تمام تمام زمانوں میں سب ہی چیزوں کا حقیقی مالک ہے، لیکن قیامت اور معاد میں اس کی مالکیت کا جلوہ ہی کچھ اور ہے: "مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ"۔
جملہ "نَعْبُدُ؛ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں)؛ بھی اسی مسئلے کی طرف اشارہ ہے کہ نماز کو با جماعت ادا کرنا چاہئے، اور اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور ایک ہی راستے پر گامزن اور ایک ہی مکتب کے پیروکار ہیں۔ نماز میں، گویا نمازگزار شخص اللہ کے تمام بندوں اور تمام خدا پرستوں اور یکتا پرستوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہوں: اے اللہ! ہم سب نہ صرف تیرے بندے ہیں، اور نہ صرف میں بلکہ ہم سب تیرے محتاج اور تیرے فضل اور کرم کے ضرورتمند ہیں۔
سورہ حمد [یا سورہ فاتحہ] ان لوگوں کے راستے کو سیدھا راستہ (الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمَ) قرار دیتا ہے جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے "صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِ"؛
ارشاد فرماتا ہے:
"وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا؛ [7]
اور جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی کرے گا تو یہ لوگ ان انبیاء، صدیقین، شہیدان راہ خدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے جنہیں اللہ نے اپنی نعمتوں [ایمان، اخلاق اور عمل صالح] سے نوازا ہے، اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں"۔
انبیاء، صدیقین، شہیدان راہ خدا اور صالحین کے راستے پر توجہ دینا، اور اس راستے پر گامزن ہونے کی آرزو کو اپنے اندر ڈالنا اور اپنے آپ سے اس کی تلقین کرنا، ہمیں گمراہی اور انحراف کی مختلف اقسام سے باز رکھتا ہے اور اس التجا کے بعد، نمازی اللہ سے عرض کرتا ہے کہ اس کو غضب کا مستحق ٹہرنے والے اور گمراہوں کے راستے پر گامزن نہ ہونے دے۔
"انعمتَ علیهم" میں نعمت سے مراد نعمتِ ہدایت ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کی آیت میں ہدایت کی التجا کی گئی ہے: "اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ"؛ کیونکہ مادی اور دنیاوی نعمتیں منحرفین، گمراہوں اور کافروں کو بھی حاصل ہیں۔
واضح رہے کہ ہدایت یافتہ لوگ بھی خطرے سے دوچار ہیں، انہیں گمراہی کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے چنانچہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے رہنا چاہئے کہ ہمیں ہدایت کے راستے پر استوار رکھے اور ہم اس راستے سے غضب اور گمراہی کی طرف منحرف نہ ہوں۔
"غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ" تفسیر نمونہ کی روشنی میں
1۔ قرآن کریم میں ان دو الفاظ یعنی "مَغضُوبٌ عَلَیهِم" اور"ضَالِّينَ" کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ "مَغضُوبٌ عَلَیهِم"، "ضَالِّينَ" سے زیادہ شدید مرحلہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں "ضَالِّينَ" معمول کے گمراہ ہیں اور "مَغضُوبٌ عَلَیهِم" وہ ہٹ دھرم، ضدی یا منافق قسم کے گمراہ لوگ ہیں؛ اسی بنا پر ان کے لئے اللہ کا غضب یا لعن قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
"وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ؛ [8]
بے شک جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے تو ان پر اللہ کی طرف کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے"۔
نیز ارشاد ہوتا ہے:
"وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّآنِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً؛ [9]
اور [اللہ] سزا دے گا منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو جو سب اللہ کی نسبت برے خیالات رکھتے ہیں [اور کہتے ہیں کہ اللہ اپنے پیغمبر کی مدد کو نہیں آئے گا]، انہیں برائی نے گھیر لیا ہے اور اللہ کا غضب ہے ان پر اور وہ ان پر لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لئے دوزخ کو مہیا رکھا ہے اور وہ بہت برا انجام ہے"۔
بہرحال "مَغضُوبٌ عَلَیهِم" وہ ہیں جو کفر کے ساتھ ساتھ، ضد، ہٹ دھرمی اور حق و حقیقت سے دشمن کی راہ پر اڑے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ممکن ہو تو وہ الہی رہبروں، انبیاء تک کو ازار و اذیت سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
خدائے بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے:
"ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ؛ [10]
وہ جہاں بھی پائے جائیں، ذلت کی مہر ان پر ثبت ہوئی ہے، سوا اس کہ خدا کے ساتھ رابطے [اور اپنے بھیانک روش پر نظر ثانی کرنے]، یا لوگوں کے کا سہارا [اوردوسروں سے وابستگی) اختیار کریں، اور خدا کے غضب میں گرفتار ہیں اور ان پر محتاجی اور لاچارگی کی مہر ان پر لگی ہوئی ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر برتتے ہیں، اور پیغمبر کو ناحق قتل کرتے ہیں، یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں اور ہمیشہ (دوسرے کی حقوق) پر تعدی اور دست درازی کرتے ہیں"۔
2۔ "کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ "ضَالِّينَ" سے مراد نصاریٰ ہیں اور "مَغْضُوبٌ عَلَیهِم" یہودی گمراہ ہیں۔
اس تاثر کی بنیاد دعوت اسلامی کے حوالے سے ان دو جماعتوں موقف ہے، کیونکہ قرآن کریم نے مختلف آیات کریمہ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہودی منحرفین اسلامی دعوت سے شدید عداوت رکھتے تھے۔ [11] اگرچہ وہ ابتداء میں اسلام کی بشارت دینے والے تھے [12] لیکن کچھ ہی عرصہ گذرنے کے بعد، جب انہوں نے اپنے مفادات کو خطرے سے دوچار ہوتا ہؤا دیکھا، اسلام کے سخت ترین اور ضدی ترین دشمن ہو گئے؛ اور اسلام اور مسلمانوں کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنے سے دریغ نہیں کیا؛ جیسا کہ آج بھی (یہودیوں اور عیسائی اور غیر عیسائی) صہیونیوں کا موقف اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں، وہی ہے۔
بہرصورت یہودیوں کو "الْمَغْضُوبُ عَلَيْهِمْ" کا مصداق ٹہرانے والا صحیح ہے۔ لیکن اس کو "کل" کا اطلاق سمجھنا چاہئے "جزء" پر؛ کیونکہ اس مفہوم میں یہود کے سوا دوسرے گروہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
لیکن اسلام کے مقابلے میں نصرانی منحرفین کا موقف اتنا اس قدر سخت نہیں تھا۔ وہ صرف حق کی پہچان میں گمراہی سے دوچار تھے، اسی لئے ان کو "الضَّالِّينَ" کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے، گوکہ یہ یہ بھی "جزء" پر "کل" کے اطلاق کے قاعدے کا تابع ہے، اور ضالین کا دائرہ وسیع تر ہے۔
اسلامی احادیث میں بھی "مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ" سے یہودی اور "الضَّالِّينَ" نصاریٰ مراد لئے گئے ہیں اور نکتہ وہی ہے جو سطور بالا میں بیان ہؤا۔
3۔ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ لفظ "الضَّالِّينَ" کا اشارہ ان گمراہوں کی طرف ہو جو دوسروں کو گمراہ کرنے پر اصرار نہیں کرتے ہیں حالانکہ "مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ" وہ لوگ ہیں جو خود تو گمراہ ہیں ہی اور اپنی پوری طاقت سے دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے پر اصرار کرتے ہیں۔
اس احتمال کا ایک ثبوت وہ آیات کریمہ ہیں جن میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے جو دوسروں کی ہدایت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور انہیں "يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ؛ (وہ جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں)"، [13] کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔
ارشاد ہؤا ہے:
"وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ؛ [14]
اور وہ جو اللہ کے بارے میں بلاوجہ بحث و جدل کرتے ہیں بعد اس کے کہ اسے [عقل و فطرت کی بنیاد پر منصف لوگوں کی طرف سے] تسلیم کیا جا چکا ہے، تو ان کا جدل اللہ کے ہاں باطل اور غلط ہے، اور ان پر [اللہ کی طرف سے] غضب ہے اور ان پر سخت عذاب ہے"۔
لیکن بہرحال جامع ترین قول اول الذکر قول ہی ہے، جس میں بقیہ تفاسیر بھی جمع ہوئی ہیں، لیکن یہ اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہم ان عبارتوں کے مصادیق کے وسیع دائرے کو محدود کر دیں"۔ [15]
سورہ حمد کے تربیتی نکتے:
1- قاری اور نمازی "بِسْمِ اللَّهِ" کہہ کر غیر اللہ سے اپنی امید منقطع کر دیتا ہے۔
2- رَبِّ الْعَالَمِينَ" اور "مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ" کہہ کر محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے مکتب کا پروردہ ہے اور اللہ کا مملوک اور غلام ہے چنانچہ اسے تکبر اور خودغرضی کو ترک کرنا چاہئے۔
3- لفظ "الْعَالَمِينَ" زبان پر لاکر خود کو نظام کائنات کا حصہ دیکھتا ہے اور یوں یکطرفہ رویوں اور گوشہ نشینی سے دوری کرے گا"۔
4- عبارت "الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ" کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے فضل و کرم کے سائے میں پاتا ہے۔
5- "مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ" مستقبل کے سلسلے میں غفلت سے بچ کر رہتا ہے۔
6- "إِيَّاكَ نَعْبُدُ" کہہ کر ریاکاری، دکھاوے اور شہرت پسندی کو اپنی سے زائل کر دیتا ہے۔
7- "إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کہہ کر، گویا عہد کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی دوسری طاقت کی پناہ میں نہيں جائے گا۔
8- "أَنْعَمْتَ" کہہ کر اقرار کرتا ہے کہ تمام نعمتین اللہ کی طرف سے ہیں۔
9- "اهْدِنَا" راہ حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت و راہنمائی کی التجا کرتا ہے۔
10- "صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ" کہہ کر حق کے پیروکاروں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کرتا ہے۔
11- "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ" اور "وَلَا الضَّالِّينَ" کہہ کر باطل اور اہل باطل سے بیزاری اور برائت کا اظہار کرتا ہے۔
"بِسْمِ اللَّهِ" کی اہمیت
" ﷽" قرآن کریم میں 114 مرتبہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر نازل ہؤا؛ 113 مرتبہ سورتوں کی شہ سرخی کے طور پر ـ سورہ برائت " ﷽" کے بغیر آیا ہے ـ اور سورہ نمل میں یہ آسمانی الہی جملہ دو بار آیا ہے، ایک شہ سرخی میں اور ایک ملکۂ سبا کے نام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خط کے آغاز میں۔
"البَسمَلَةُ تيجانُ السُّوَرِ؛ [16]
بسم اللّہ الرحمن الرحیم قرآنی سورتون کا تاج ہے"۔
نہ صرف قرآن بلکہ تمام کتابوں کا آغاز " ﷽" سے ہؤا ہے۔
تمام انبیاء (علیہم السلام) کے کاموں کی شہ سرخی پر " ﷽" مکتوب تھا۔ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) نے ملکۂ سبا کو ایمان کی دعوت دی تو اپنے دعوت نامے کو " ﷽" سے شروع کیا"
"إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ ﷽؛ [17]
یقینا یہ [دعوت نامہ] سلیمان کی طرف سے ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ سہارے سے اللہ کے نام کے جو سب کو فیض پہنچانے والا بڑا مہربان ہے"۔
"بِسْمِ اللّهِ" ہر کام میں برکتوں کا سرچشمہ
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہيں:
"إنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَرَادَ أنْ يَقْرَأَ أوْ يَعْمَلَ عَمَلاً وَيَقُولُ ﷽ فَإنَّهُ يُبَارَكُ لَهُ فيهِ؛ [18]
یقینا اگر ایک بندہ کچھ پڑھنا چاہے یا کوئی کام سرانجام دینا چاہئے اور"﷽" کہہ دے تو اس کا کام بابرکت ہو جاتا ہے"۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إِنَّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ حَدَّثَنِي عَنِ للهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَهُ قَالَ: كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَمْ يُذكَرْ بِسْمِ اللهِ فِيهِ فَهُوَ أَبْتَرُ؛ [19]
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے میرے لئے خدائے عزّ و جلّ سے نقل کرکے بیان فرمایا: کوئی بھی اہم کام جو بسم اللہ کہے بغیر شروع کیا جائے، ادھورا ہے"۔
"بِسْمِ اللّهِ" کو ترک کرنا، ناکامی کا باعث
بہرحال رسول اللہ اور آل رسول (صلی اللہ علیہم اجمعین) نے کھانے پینے، سونے، لکھنے، پڑھنے، سوار ہونے، سفر پر جانے غرضیکہ ہر کام کے شروع میں "بِسْمِ اللّهِ" کہنے کے کی ہدایت فرمائی ہے۔
جس جانور کو "بِسْمِ اللّهِ" کہے بغیر ذبح کیا جائے، اس کا گوش حرام ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ؛ [20]
تو اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو کھاؤ تم اس سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے"۔
"وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ؛ [21]
اور اس چیز [گوشت وغیرہ] کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اور یقینا وہ بہت بڑا گناہ ہے"۔
ہر چھوٹے بڑے کام کے آغاز میں "﷽" کہنے کا مطلب؟
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"قَولُوا عِنْدَ افْتِتَاحِ كُلِّ أَمْرٍ صَغيرٍ أوْ عَظيمٍ: ﷽؛ أَیْ أَسْتَعِينُ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ بِاللّهِ الَّذِي لَا يَحِقُّ العِبَادَةُ لِغَيرِهِ، الْمُغيثِ إذَا اسْتُغِيثَ، المُجِيبُ إِذَا دُعِيَ الرَّحمَنِ الَّذِي یَرْحَمُ بِبَسْطِ الرِّزقِ عَلَيْنَا، الرَّحِيمِ بِنَا فِي أَدْيَانِنَا وَدُنيَانَا وَآخِرَتِنَا، خَفَّفَ عَلَينَا الدِّينَ وَجَعَلَهُ سَهْلاً خَفِيفاً، وَهُوَ یَرْحَمُنا بِتَميِيزِنَا مِنْ أعْدَائِهِ؛ [22]
ہر چھوٹا بڑا کام آغاز کرتے وقت بسم اللہ الرحمن کہو، یعنی [مطلب یہ ہے کہ] اس کام کے لئے میں اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ وہ اللہ جس کے سوا کوئی بھی لائق پرستش نہیں ہے۔ پناہ مانگنے والوں کی پناہ اور ہر فریادی کا فریادرس ہے، جواب دیتا ہے جب اسے پکارا جاتا ہے۔ رحمٰن (اور مہربان) ہے جو مہربانی فرما کر ہمار رزق کو وسیع کر دیتا ہے؛ اور وہ رحیم ہے ہم پر ہمارے دین اور عقائد میں، اور ہماری دنیا اور ہماری آخرت میں۔ اس نے ہمارے دین کو ہمارے لئے آسان اور ہلکا بنا دیا ہے اور وہ ہمیں اپنے دشمنوں سے الگ و ممتاز کرکے ہم پر رحم کرتا ہے"۔
"﷽" مسلمانی کا نشان یا علامت [23] ہے اور چونکہ مسلمانوں کے تمام اعمال و افعال کا رنگ خدائی رنگ ہونا چاہئے، لہذا اس ذکر کو ہمارے تمام کاموں میں نمایاں ہونا چاہئے۔ جس طرح کہ ایک کارخانے کی مصنوعات پر اس کارخانے کی علامت درج ہوتی ہے؛ خواہ وہ مصنوعات تھوک کی صورت میں بک رہی ہیں، خواہ پرچون کی صورت میں۔
"﷽" مسلمانی کا پرچم ہے، جس طرح کہ اداروں، دفاتر، اسکولوں، جامعات، چھاؤنیوں و کسی بھی ملک کی سرحدی چوکیوں پر اس ملک کا پرچم لہرایا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر ملک کا پرچم اس کے مسافر اور جنگی طیاروں پر کندہ ہوتا ہے اور جنگ میں ملکی فوج کے ٹینکوں اور گاڑیوں نیز [خواہ تجارتی خواہ جنگی] جہازوں پر لہرایا جاتا ہے، اور سرکاری دفاتر کی میزوں پر رکھا ہوتا ہے؛ "﷽" مسلمانوں کے ہاں یہی حیثیت رکھتا ہے۔
"﷽" رحمت اور امان و سلامتی ہے
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے سورہ برائت کے شروع میں بسم اللہ کے نہ آنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"لَمْ يَنْزِلْ ﷽ عَلَى رَأْسِ سُورَةِ بَرَائَةٍ لِأَنَّ "﷽" لِلْأَمَانِ وَالرَّحْمَةِ وَنَزَلَتْ بَرَائَةٌ لِرَفْعِ الْأَمَانِ بِالسَّيْفِ؛ [24]
سورہ برائت (توبہ) کے شروع میں "﷽" نازل نہیں ہؤا کیونکہ "﷽" امان، سلامتی اور رحمت کے لئے ہے اور سورہ برائت تلوار کے ذریعے امان اور سلامتی اٹھانے کے لئے نازل ہؤا ہے"۔
ذکر اللہ سے شیاطین اور مشرکین بھاگ جاتے ہیں
ارشاد ربانی ہے،
"وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا؛ [25]
اور ہم ان کے دلوں پر پوششیں [اور پردے] چڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ اسے وہ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں غلاف [بہراپن] ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ سنیں اور جب آپ قرآن میں اپنے پروردگار کا اس کی یکتائی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تو وہ بھڑک کر اپنے پیچھے پلٹ جاتے ہیں"۔
آیت کریمہ کا شان نزول
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:
"كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عليْه وَآلِه يَجْهَرُ ﷽ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِهَا فَإِذَا سَمِعَهَا المُشْرِكُونَ وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَأنْزَلَ اللَّهُ "وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا؛ [26]
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ بلند آواز سے "﷽" پڑھتے تھے اور اپنی صدا بلند کر دیتے تھے، تو جب مشرکین سن لیتے تھے، تو پیٹھ پھیرا دیتے تھے [اور بھاگ جاتے تھے] چنانچہ اللہ تعالیٰ آیت کریمہ اتاری: ' اور جب آپ قرآن میں اپنے پروردگار کا اس کی یکتائی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تو وہ بھڑک کر اپنے پیچھے پلٹ جاتے ہیں۔"۔
پس "بِسْمِ اَللَّهِ" شیطان اور اس کے چیلوں کے بھاگ جانے کا ذریعہ بھی ہے، تو "بِسْمِ اَللَّهِ" وہ اللہ کے ساتھ ہے اور جو اللہ کے ساتھ ہے اللہ بھی اس کے ساتھ ہے جو "بِسْمِ اَللَّهِ" پڑھتا ہے وہ خدا کا ساتھ طلب کرتا ہے، چنانچہ شیطان کا اس پر اثر نہیں ہوتا۔ بعض بزرگوں نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے کہ "جس شخص کے کام اللہ کے لئے ہوں، اللہ بھی ان کے لئے ہی ہے"۔
چنانچہ شاید اس کی ایک حکمت یہ بھی ہو انسان کبھی بھی برے کام کی طرف راغب نہ ہو کیونکہ یقینی امر ہے کہ غلط کام "بِسْمِ اَللَّهِ" سے شروع کرنا ممکن نہیں ہے اور جب کوئی ایسا کوئی کام کرنا چاہے اور اسے یاد آئے کہ ہر کام کا آغاز "بِسْمِ اللّهِ" سے کرنا چاہئے تو وہ اپنا غلط ارادہ ترک کردے۔ اور اس لحاظ سے "بِسْمِ اللّهِ" منہیات اور محرمات سے پرہیز کا وسیلہ بھی ہو سکتا ہے۔
سیدھا راستہ
"اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ" [27]
بتلاتا رہ ہم کو سیدھا راستہ".
امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"وَالصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ صِرَاطَانِ صِرَاطٌ فِي الدُّنْيا وَصِرَاطٌ فِي الآخِرَةِ وَأَمَّا الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ مَا قَصُرَ عَنِ الغُلُوِّ وَارْتَفَعَ عَنِ التَّقْصِيرِ وَاسْتَقَامَ فَلَمْ يَعْدِلْ إلَى شِيْءٍ مِنَ الباطِلِ وَأمَّا الطَّريقُ الآخَرُ فَهُوَ طَرِيقُ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى اَلْجَنَّةِ الَّذِي هُوَ مُسْتَقِيمٌ لَا يَعْدِلُونَ عَنِ الْجَنَّةِ إِلَى النَّارِ وَلَا إِلَى غَيْرِ النَّارِ سِوَى الجَنَّةِ؛ [28]
اور "الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ" در حقیقت دو صراطیں ہیں: ایک صراط دنیا میں ہے اور ایک صراط آخرت میں ہے؛ اور وہ "الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ" جو دنیا میں ہے، تو وہ غُلُوّ [29](زیادہ روی اور حد سے تجاوز) سے دور (اور مبرّا) ہے، اور تقصیر (کوتاہی اور تفریط) سے اوپر اور درمیانی راستہ ہے، اور جب یہ راستہ برقرار ہو تو اس میں باطل کی طرف ذرہ برابر انحراف بھی نہیں ہے؛ آخرت کی صراط درحقیقت جنت کی طرف مؤمنین کا راستہ ہے، یہ ایک سیدھا اور کجی اور انحراف سے پاک راستہ ہے، اور وہ [مؤمنین] اس راستے پر جنت سے دوزخ کی طرف عدول نہیں کرتے، اور نہ ہی جہنم کے سوا کسی اور راستے پر گامزن ہوتے ہیں، سوا اس راستے کے جو جنت کی طرف جاتا ہے"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"هُوَ طَرِيقٌ إلى مَعْرِفَةِ الله عَزَّ وَجَلَّ وَهُمَا صِرَاطَانِ: صِرَاطٌ فِي الدُّنْيَا وَصِرَاطٌ فِي الآخِرَةِ فَأَمَّا الصِّرَاطُ الَّذِي فِي الدُّنْيَا فَهُوَ الْإِمَامُ المَفرُوضُ الطَّاعَةِ؛ مَنْ عَرَفَهُ فِي الدُّنْيَا وَاقْتَدَى بِهُداهُ مَرَّ عَلَى الصِّرَاطِ الَّذِي هُوَ جِسْرُ جَهَنَّمَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ لَّم يَعرِفْهُ فِي الدُّنْيَا زَلَّتْ قَدَمُهُ عَنِ الصِّراطِ فِي الآخِرَةِ فَتَرْدَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ؛ [30]
وہ راستہ ہے خدائے عزّ و جلّ کی معرفت و پہچان کا؛ اور یہ صراط دو ہیں، ایک صراط دنیا میں، اور ایک صراط آخرت میں، تو جہاں تک دنیاوی صراط کا تعلق ہے تو وہ درحقیقت وہ امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی طرف فرض اور واجب ہوئی ہے، اور جس نے اس کو دنیا میں پہچان لیا اور اس کی ہدایات کی پیروی کی، اس کے قدم [اس] صراط پر لڑکھڑائیں گے جو ایک پل ہے ہے آخرت میں اور جہنم کی آگ میں گر جائے گا"۔
نیز فرماتے ہیں:
"الصِّراطُ المُسْتَقيمُ أمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ؛ [31]
"صِّراطُ المُسْتَقيمُ" امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ہیں"۔
صِّراطُ جہنم کے اوپر کے پل کا نام ہے جس سے لوگوں کو گذرنا ہوگا
شیخ مفید (رحمہ اللہ) شیخ صدوق (رحمہ اللہ) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"ہمارا عقیدہ ہے کہ صراط حق ہے، اور جہنم کا پل ہے جس سے تمام خلائق کو گذرنا ہے، اور صراط دوسرے لحاظ سے اللہ کی حجتوں کا نام ہے تو جس انہیں پہچانا اور ان کی پیروی کی اللہ تعالی ان کو صراط سے گذرنے کا اجازت نامہ عطا فرمائے گا، وہ قیامت کے دن جہنم کا پل ہے"۔ [32]
سیدھے راستے پر گامزن ہونا ہر مسلمان کی واحد آرزو ہے، جو وہ دن میں کئی مرتبہ اللہ سے مانگتا ہے، چونکہ کامل ترین نماز پیغمبر اور آل البیت (صلی اللہ علیہم اجمعین) کی نماز ہے چنانچہ وہ بھی دن میں کئی مرتبہ یہ دعا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہنے کی التجا کرتے ہیں۔
صراط مستقیم کے اپنے مراتب اور مراحل ہیں:
"وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ؛ [33]
اور جنہوں نے ہدایت قبول کی، اس [خدا] نے ان کو زیادہ سے زیادہ ہدایت بخشی، اور انہیں ان کے شایان شان پرہیزگاری عطا کی"۔
حتّیٰ اولیاء اللہ (علیہم السلام) کی طرح کی ہستیاں جو لوگ راہ حق پر گامزن اور استوار ہیں، ان پر لازم ہے کہ راہ حق میں ثابت قدم رہنے اور نور ہدایت میں بڑھنے کی دعا کریں۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"وَاللّهِ نَحْنُ الصِّرَاطُ المُسْتَقِیمُ؛ [34]
اللہ کی قسم! ہم ہی صراط مستقیم ہیں"۔
یعنی یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) صراط مستقیم اور اس پر گامزن ہونے کا عینی اور عملی نمونہ ہیں، وہ کام کاج، تفریح، تعلیم و تعلم تغذیے، انفاق و خیرات، تنقید، قہر و ناراضگی، امن و سلامتی، بچوں اور اہل خانہ سے محبت، غرض زندگی کے تمام مسائل میں اپنے احکام و ہدایات پر سب سے پہلے خود عمل کرتے تھے، اور ہمیں بھی اعتدال اور میانہ روی کی ہدایت کرتے تھے۔ [35]
قرآن کریم میں ارشاد ہؤا ہے کہ:
"وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ؛ [36]
اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دیتا ہے"۔
دعائے غریق، آخر الزمان کی ضرورت
امام صادق (علیہ السلام) نے ہدایت کی آخرالزمان میں مؤمنین دعائے غریق پڑھا کریں، اور وہ دعا یہ ہے:
"يَا اللهُ ِيَا رَحمَنُ يَا رَحِيمُ 'يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قُلُوبَنَا عَلی دِينِكَ'؛ [37]
اے اللہ، اے بہت مہربان، اے بہت رحم والے 'اے دلوں کو پلٹانے والے، ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت و استوار رکھ"۔
دلچسپ نکتہ: ابلیس نے بھی اسی راستے پر بیٹھنے کی قسم اٹھا رکھی ہے
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ؛ [38]
اس نے کہا اب جو تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، میں ضرور بضرور بیٹھوں گا ان (کو گمراہ کرنے) کے لئے تیرے سیدھے راستے پر"۔
قرآن کریم کی آیات نیز احادیث شریفہ میں اعتدال پر بہت زور دیا گیا ہے اور افراط و تفریط سے باز رکھا گیا ہے اور یہی "صراط المستقیم" ہے [اور دونوں انتہاؤں کا درمیانی راستی ہے]۔
حی ہاں! اسلام یک پہلو مذہب نہیں ہے چنانچہ یہ صرف ایک پہلو پر تاکید نہیں کرتا اور بقیہ جہتوں کو نظر انداز نہیں کرتا، بلکہ ہر کام میں اعتدال، میانہ روی اور "صراط مستقیم" کی ہدایت کرتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کے مغضوبین (غضب کے مستحقین)
قرآن کریم میں فرعون، قارون، ابو لہب، کفار، مشرکین، منافقین، ابو لہب، اور عاد و ڈمود اور بنی اسرائیل (اور یہود) جیسی عبرت آموز اشخاص اور اقوام کو مغضوبین کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جن سے کچھ خود گمراہ تھے اور کچھ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے تھے، جیسے شیطان، فرعون، سامری، ناہنجار دوست، گمراہ باپ دادا اور برے حکمران، سب "مغضوب علیہم" کا مصداق ہیں۔
ہم ہر واحب اور مستحب نماز میں اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ ہم بھی ان میں سے نہ ہوں جن پر اللہ کا غضب ہے، یعنی ہم ان میں سے نہ ہوں جو آیات کو توڑ مروڑ کر اور تحریف کرکے پیش کرتے ہیں، جہاد سے فرار ہوتے ہیں، حق کو چھوڑ دیتے ہیں اور باطل کی پیروی کی طرف مائل ہوتے ہیں، اپنے عقید میں غلوّ اور افراط کا راستہ اختیار کرتے ہیں، آیات کی من مانی تفسیر کرکے نئے عقائد اختراع کرتے ہیں اور آیات کے معانی میں معنوی تحریف کے لئے حدیثیں گھڑتے یا ان کی شکل بگاڑتے ہیں، یا پھر اپنی ہویٰ و ہوس کی پیروی کرتے ہیں یا حتیٰ کہ دوسروں کی ہویٰ و ہوس کی۔
گمراہی کے اسباب قرآن کریم کی روشنی میں
1۔ ہویٰ و ہوس
"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً؛ [39]
تو کیا دیکھا آپ نے اسے کہ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کی بنا پر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی نگاہ پر پردہ ڈال دیا ہے؟"۔
2۔ بت
"وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ؛ [40]
اور انھوں نے اللہ کے لئے برابردار [شریک] بنائے تاکہ اس کے راستے سے بہکائیں، کہئے کہ ابھی فائدہ اٹھا لو، یقینا آخرت میں تو تمہیں آتش دوزخ کی طرف جانا ہے"۔
3۔ گناہ
"وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ؛ [41]
اور جو لوگ کفر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آخر اللہ کا اس طرح کی مثال سے کیا مطلب ہے؟ وہ اس سے بہت سوں کو گمراہی میں ڈالتا ہے اور بہت سوں کی ہدایت کرتا ہے اور گمراہی میں نہیں ڈالتا مگر بد اعمالوں کو"۔
4۔ باطل کی ولایت و حکمرانی کو تسلیم کرنا
"كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ؛ [42]
اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم نے تباہ و برباد کیا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک جانا پہچانا نوشتہ [مقدر] موجود تھا"۔
5۔ جہل اور نادانی
"وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ؛ [43]
حالانکہ تم اس کے پہلے بہکے ہوئے گمراہوں میں سے تھے"۔
قرآن، منجملہ سورہ فاتحہ یا سورہ حمد، تولّیٰ و تبرّیٰ کا مصداق
انسان سورہ حمد میں انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور ان کے راستے سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتا ہے اور تاریخ کے مغضوبین اور گمراہوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے اور یہ تولّیٰ اور تبرّیٰ کا بہترین نمونہ ہے،: سورہ فاتحہ تولّیٰ اور تبرّیٰ کا بہترین نمونہ۔
آخری نکتہ:
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ أَصْلَحَ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ؛ وَمَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ أَصْلَحَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ؛ وَمَنْ كَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ؛ [44]
جو شخص اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو سنوارے گا، تو اللہ لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات کو سلجھائے رکھے گا، اور جس شخص نے اپنے اخروی معاملات کو سنوارا، تو خدا اس کے دنیاوی معاملات کو سنوار دے گا، اور جس شخص کا ناصح و خیرخواہ اس کے اپنے اندر سے ہو، اللہ کی طرف سے اس کے لئے ایک محافظ و نگہبان قرار دے گا"۔
**************
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج1، ص19۔
[2]۔ سورہ انعام، آیت 54۔
[3]۔ سورہ اعراف، آیت 156۔
[4]۔ سورہ یونس، آیت 57۔ قرآن میں متعدد مرتبہ قرآن کو ہدیت و رحمت اور بشارت کا عنوان دیا گیا ہے۔
[5]۔ سورہ انبیاء، آیت 107۔
[6]۔ نہج البلاغہ، حکمت 368۔
[7]۔ سورہ نساء، آیت 69۔
[8]۔ سورہ نحل، آیت 106۔
[9]۔ سورہ فتح، آیت 6۔
[10]۔ سورہ آل عمران، آیت 112۔
[11]۔ "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آَمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ؛ تم ضرور بضرور پاؤگے یہودیوں کو سخت ترین [بدترین] دشمن ایمان لانے والوں کے لئے اور ان کو جنہوں نے شرک اختیار کیا؛ اور محبت میں سب سے قریب پاؤ گے ان کو جو کہتے ہیں کہ "نصاری" (عیسائی) ہیں؛ یہ اس لئے ہے کہ ان میں سے پادری ہوتے ہیں اور راہب [جو دنیا سے الگ تھلگ ہوکر عبادت کرتے ہیں] اور یہ لوگ [حق کے مقابلے میں] غرور و تکبر سے کام نہیں لیتے"۔ (سورہ مائدہ، آیت 82)۔
[12]۔ "وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ؛ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف کی وہ کتاب آئی جو ان کے پاس والی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، تو باوجودیکہ اس کے پہلے یہ لوگ خود کافروں کے سامنے اس کتاب کے ذریعے [جس کے اترنے کے وہ منتظر تھے اور مشرکین پر] فتح و ظفر کا اعلان کرتے تھے، اب جسے وہ پہلے سے جانتے تھے جب ان کے پاس آئی تو وہ خود اس کے منکر ہو گئے۔ اللہ کی لعنت ہو کافروں پر"۔ (سورہ بقرہ، آیت 89)۔
[13]۔ سورہ ہود، آیت 19۔
[14]۔ سورہ شوریٰ، آیت16۔
[15]۔ تفسیر نمونہ، ج1، ص53-55۔ یہ تفسیر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے زیر نگرانی مؤلفین کے گروہ نے تالیف کی ہے۔
[16]۔ ابن عطیہ الاندلسی، عبدالحق بن غالب المحاربی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ج1، ص60؛ القُرطُبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، الجامع لأحکام القرآن المعروف بہ"تفسير القرطبى"، ج1، ص92؛ الشوشتری، سید نور اللہ بن سید شہاب الدین الحسینی المرعشی، احقاق الحق و ازہاق الباطل، ج12، ص272۔
[17]۔ سورہ نمل، آیت 30۔
[18]۔ تفسير الإمام العسكرى عليه السلام، ص25۔
[19]۔ تفسیر امام حسن عسکری (علیہ السلام)، ص26؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج73، ص305 و جلد 89، ص242.
[20]۔ سورہ انعام، آیت 118۔
[21]۔ سورہ انعام، آیت 121۔
[22]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، التوحید، ص232.
[23]۔ [Sign, Mark, Logo OR Symbol.
[24]۔ العروسی الحویزی، تفسیر نور الثقلین، عبد علی بن جمعہ، ج2، ص176؛ فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى (المعروف بہ ملا محسن)، التفسیر الصافی، ج1، ص145؛ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج5، ص6۔
[25]۔ سورہ اسراء، آیت 46۔
[26]۔ محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج1، ص20؛ العروسی الحویزی، تفسیر نور الثقلین، عبد علی بن جمعہ، ج3، ص173؛ علامہ مجلسی، ج82، ص82۔
[27]۔ سورہ فاتحہ، آیت 6۔
[28]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ج1، ص33؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، ج24، ص9۔
[29]۔ غلوّ لغت میں "حد سے زیادہ آگے جانا"، "افراط کرنا" اور کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے بڑھ کر صفات و خصوصیات کا قائل ہونا اور علماء کی اصطلاح میں اس کے لئے "حد سے بڑھنا" کی قید رکھی گئی ہے۔ شیخ مفید (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں: "دینداری کی اداکاری کرنے والوں میں سے بیشتر افراد "غالی" ہیں؛ [تشیّع] کی نگاہ میں وہ لوگ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) اور آپؑ کی ذریت میں آنے والے ائمہ (علیہم السلام) کو خدا اور پیغمبر کے عہدے تک پہنچانتے ہیں اور چونکہ [ائمہ (علیہم السلام) دین و دنیا میں فضیلتوں کے مالک ہیں، اور غلوّ میں مبتلا افراد انہیں اس طرح سے متعارف کراتے ہیں کہ حد سے بڑھ جاتے ہیں اور اعتدال اور میانہ روی سے تجاوز کر دیتے ہیں"۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد العکبری، تصحیح اعتقادات الامامیہ للشیخ الصدوق، ص131۔
[30]۔ فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى (المعروف بہ ملا محسن)، التفسیر الصافی، ج1، ص85؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، ج8، ص66۔
[31]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ج2، ص32۔
[32]۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد العکبری، تصحیح اعتقادات الامامیہ للشیخ الصدوق، باب (٢٦) (باب الاعتقاد في الصراط)، ص131؛ الشیخ الصدوق، الاعتقادات في الإماميہ، ص70۔
[33]۔ سورہ محمد، آیت 17۔
[34]۔ الحاکم الحَسْکانی، عبید اللہ بن عبداللہ بن احمد نیشابوری، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل فی الآیات النازلۃ فی اہل البیت صلوات اللہ وسلامہ عليہم، ج1، ص58، ح89۔
[35]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج3، باب الاقتصاد فی العبادات۔
[36]۔ سورہ نور، آیت 46۔
[37]۔ سید مرتضی عَلَمُ الہُدی، علی بن حسین بن موسی، الامالی، ج1، ص318۔
[38]۔ سورہ اعراف، آیت 16۔
[39]۔ سورہ جاثیہ، آیت 23۔
[40]۔ سورہ ابراہیم، آیت 30۔
[41]۔ سورہ بقرہ، آیت 26۔
[42]۔ سورہ حج، آیت 4۔
[43]۔ سورہ بقرہ، آیت 198۔
[44]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 86۔
آپ کا تبصرہ