13 جولائی 2025 - 18:27
ایران کے ساتھ جنگ میں شکست کی داستان، اسرائیلی-مغربی تجزیہ کاروں کے زبانی + ویڈیوز

نیتن یاہو کے جنگ میں فتح کے دعووں کے باوجود، اسرائیلی اور امریکی تجزیہ کاروں اور شخصیات نے جنگ کے نتائج کے بارے میں ایک مختلف روایت پیش کی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیو-امریکی جارحیت 12 دن تک چلی جس کے بعد ان امریکہ اور صہیونیوں کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی اور ٹرمپ اور اس کے وزیروں نے دنیا بھر کے کئی ممالک سے رابطہ کرکے ایران کو جنگ بندی کا پیغام دیا؛ باقاعدہ جنگ بندی تو نہیں ہوئی لیکن جنگ عارضی طور پر بند ہوئی اور اب "نہ جنگ نہ امن" کی صورت حال ہے۔ بہرحل جنگ کی عارضی بندش کے بعد، اصل کہانی فتح اور شکست کی روایت پر مرکوز رہی۔ نیتن یاہو نے اپنی طرف سے جنگ بندی کی بھیک مانگنے کا واقعہ بھلا کر، دعویٰ کیا کہ وہ اس جنگ کا فاتح ہے، کیونکہ اس نے اپنے اہداف یعنی ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن غیر ملکی تجزیہ کاروں اور میڈیا، بشمول صیہونی حلقوں نے مختلف تجزیے پیش کیے ہیں۔

اس جامع رپورٹ کے کلیدی نکات:

1. نیتن یاہو کے دعوؤں اور جنگ کے حقیقی نتائج میں واضح تضاد

2. اسرائیلی تجزیہ کاروں کا اعتراف کہ ایران کا دفاعی نظام مضبوط ثابت ہؤا

3۔ بین الاقوامی سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کہ ایران نے آخری دن تک صہیونی دشمنوں کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بنایا

4. بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں اسرائیلی فوجی ناکامیوں کا ذکر

5. ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام کی برقراری کے شواہد

6. صیہونی حلقوں میں بھی جنگ کے نتائج پر اختلاف رائے

ایران کے ساتھ جنگ ایک اسٹریٹجک غلطی تھی، اسرائیلی اخبار ہاآرتص

اسرائیلی اخبار "ہاآرتص" کی سرخی یہ ہے: "ایران کے ساتھ جنگ ایک اسٹریٹجک غلطی تھی"۔

اخبار نے لکھا: "اسرائیل نے اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کیا، لیکن اسٹریٹجک طور پر ایران کے ساتھ جنگ ایک غلطی تھی۔"

ہاآرتص کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھ رہا تھا، لیکن زیادہ تر ایرانیوں کو اس پر یقین نہیں۔ جب عوام پر بمباری ہوتی ہے، تو ان کا قومی جذبہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی جو حکومت کے مخالف تھے، سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ "ہم کسی بھی جارح کے خلاف اپنے ملک کی حفاظت کریں گے"۔ اب وہ 'ایران' کے گرد متحد ہو گئے ہیں۔

ایران کے ساتھ جنگ ایک اسٹریٹجک غلطی تھی۔ جب ہم ایرانیوں سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے بیلسٹک میزائل ختم کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم تمہیں اتنا کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ جب چاہیں تم پر بمباری کر سکیں۔ یہ بات ایرانیوں کے لئے کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے؟"

ایران کے ساتھ جنگ میں شکست کی داستان، اسرائیلی-مغربی تجزیہ کاروں کے زبانی

ہم سب ہار گئے، حیفا یونیورسٹی کی پروفیسر

قدس یونیورسٹی میں فارسی زبان کی استانی اور حیفا یونیورسٹی میں ایرانیات کی محقق تامار عیلام ایلام گندین (Tamar Eilam Gindin) نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے جنگ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر یوں بیان کیا: "پہلے میں بہت پرامید تھی۔ میں نے سامان پیک کیا تھا کہ ایران چلی جاؤں، کیونکہ سپاہ کے کمانڈر ایک ہی رات میں قتل گئے تھے۔ مجھے لگا کہ حکومت کمزور ہو گئی ہے۔"

جب گندین سے پوچھا گیا کہ "کیا اسرائیل اس جنگ کا حتمی فاتح ہے"، تو انھوں نے جواب دیا: "نہیں۔ ہم سب ہار گئے ہیں۔ مجھے یقین تک نہیں کہ ایران کے جوہری مراکز کو کوئی خاص نقصان پہنچا ہو۔ اسرائیل نے اب اسلامی جمہوریہ کو  واقعی ایٹم بم بنانے کا بہانہ دے دیا ہے"۔

اسرائیل مکمل شکست سے صرف ایک یا دو ہفتے دور تھا، سی آئی اے کا تجزیہ کار

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار لیری جانسن (Larry C. Johnson) نے اسرائیل کی ناکامی کے بارے میں کہا: "امریکہ کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں تباہ سے بچایا جا سکے۔ بہت سے لوگوں کو اندازہ نہیں کہ اسرائیل مکمل شکست سے صرف ایک یا دو ہفتے کے فاصلے پر تھا۔ کوئی کہے گا کہ آپ صرف ایرانی بیانیہ دہرا رہے ہیں... چلیے، بس میری بات سنیے!

"اسرائیل کے پاس دو بحری بندرگاہیں ہیں جنہیں ایران نے بند کر دیا، جس کی وجہ سے کوئی بھی سمندری آمد و رفت نہیں ہو پا رہی تھی۔ ایران نے حیفا اور اشدود کی تیل کی ریفائنریوں کو بھی تباہ کر دیا یا ان کی ایندھن پیدا کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ کر دیا۔ اسرائیل کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی بند ہو گیا۔ اسرائیلی فضائیہ کے اڈوں پر بھی حملے ہوئے۔ ایران نے اسرائیلی وزارت دفاع کو بھی نقصان پہنچایا۔ وائز مین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جو جوہری تحقیق بھی کرتا ہے، کو بھی تباہ کر دیا۔ یہ دعویٰ کہ ایران اسرائیل کے سامنے برباد ہو گیا ہے، بالکل بے معنی ہے۔"

12 روزہ جنگ اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک ناکامی تھی، چیف ایڈیٹر مڈل ایسٹ آئی

مڈل ایسٹ آئی (Middle East Eye) کے چيف ایڈیٹر ڈیوڈ ہرسٹ (David Hirst) نے اس جنگ کے بارے میں کہا: "اسرائیلی کمانڈ کو یہ حقیقت سمجھنے میں 12 دن لگ گئے کہ ایران پر ابتدائی حملے کے پہلے گھنٹوں میں جو ظاہری طور پر فتح حاصل ہوتی ہوئی نظر آئی تھی، وہ درحقیقت ایک تزویراتی شکست تھی۔ 12 روزہ جنگ اسرائیل کے طے شدہ تینوں اہداف میں سے کسی کو بھی حاصل کئے بغیر ختم ہوئی۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ لیکن پینٹاگون کے انٹیلی جنس ونگ نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بی-2 بمبار طیاروں نے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ 400 کلوگرام افزودہ یورینیم کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران نے سینٹری فیوجز اور افزودہ یورینیم کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔ ایرانیوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو برطانیہ نے جنگ کے دوران اپنایا تھا۔ انہوں نے صنعتی اور پیداواری ڈھانچے کو ملک بھر میں پھیلا دیا۔

اسرائیل کا دوسرا ہدف ایران کے بیلسٹک میزائل کا ذخیرہ تباہ کرنا تھا۔ لیکن وہ بھی محفوظ رہا۔ کیونکہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد ایران نے اسرائیل پر مزید میزائل داغے۔ اسٹریٹجک اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جن میں تیل کی پائپ لائنیں، ایندھن کے ڈپو اور اسرائیلی ریسرچ سنٹرز شامل تھے۔ اسرائیلی رپورٹروں نے سڑکوں میں پھیلی ہوئی تباہی کی تصاویر کھینچیں اور ہمیں وہ مناظر نظر آئے جو پہلے صرف اسرائیلی فضائیہ کی بمباری کی وجہ سے لبنان اور غزہ میں نظر آتے تھے۔ آخر میں، ایرانی حکومت اب بھی برسراقتدار ہے اور ایرانی عوام اپنے پرچم تلے متحد ہو گئے ہیں۔"

ٹرمپ اور نیتن یاہو مصیبت میں پڑ گئے، امریکی پروفیسر

امریکی جامعات میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر، پروفیسر جان میئرشیمر،  اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ 12 روزہ جنگ جو اسرائیل اور امریکہ نے ایران کے خلاف شروع کر دی، اب وہ اسے ایک فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ کسی ملک کی جنگ میں فتح یا شکست کا انحصار اس پر ہے کہ آیا وہ اپنے مقاصد حاصل کر پاتا ہے یا نہیں؟

اس جنگ میں اسرائیل کے یہاں دو مقاصد تھے: ایران کے جوہری افزودگی کو ختم کرنا اور ایرانی حکومت کو بدل دینا۔ اسرائیل نہ صرف ان دو مقاصد میں ناکام رہا، بلکہ مستقبل میں ان مقاصد کے حصول کے امکانات کو بھی کم کر دیا۔ ایران میں افزودگی کی صلاحیت اب بھی موجود ہے، اور کوئی ایجنسی کا معائنہ کار ایران میں موجود نہیں ہے جو دیکھ سکے کہ کیا ایرانی واقعی بم بنا رہے ہیں یا نہیں۔ ایرانی حکومت کی پوزیشن کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئی ہے۔ جنگ میں اسرائیلیوں کی حالت حقیقتا انتہائی خراب تھی۔ ایران کے میزائلوں نے تل ابیب، حیفا اور دیگر شہروں پر بمباری کی۔ "Israel was in trouble" اسرائیل مصیبت میں پڑ گیا اور اس نے ہم [امریکیوں] سے درخواست کی کہ جنگ کو ختم کریں۔"

یہ راستہ کارگر ثابت نہیں ہؤا، امریکہ میں اسرائیلی سفیر

امریکہ میں صہیونی ریاست کے سفیر یخیئل لیئٹر، (Yechiel Leiter) ـ جس نے جنگ کے آغاز پر بلند فتح کے بلند بانگ دعوے کئے تھے ـ نے نام نہاد "ایران- انٹرنیشنل کے ساتھ انٹرویو میں کہا: "کچھ بھی نہیں بدلا۔ جنگ کسی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ یہ طریقہ کارگر نہیں ہوتا۔"

اپنی اس ناکامی پر، انہوں نے اسرائیلی حکام کے تمام اقدامات اور بیانات، بشمول خود نیتن یاہو کے ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے دعوؤں نیز اپنے ذاتی دعوؤں کی طرف اشارہ کئے بغیر، زور دے کر کہا: "ایران میں حکومت کی تبدیلی ایک خواہش تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ کوئی فوجی مقصد نہیں بن سکتا۔ بن ہی نہیں سکتا۔ یہ راستہ کارگر نہیں ہوتا!!"

اسرائیلی آپریشن بالکل ناکام ہو گیا، برطانوی تجزیہ کار

سابق برطانوی سفارتکار اور برطانوی خفیہ ایجنسی MI6 کے سابق اہلکار ایلیسٹئر کروک (Alastair Crooke) نے 12 روزہ جنگ کے نتائج کے بارے میں کہا: "کیا یہ آپریشن تکنیکی طور پر کامیاب تھا؟ ہاں، لیکن بالآخر یہ ناکام ہؤا، یہ ایک مکمل شکست تھی۔ کیونکہ اگرچہ اس نے ایران کو جزوی طور پر حیرت زدہ کر دیا، لیکن اسرائیلی یہ سمجھتے تھے کہ یہ آپریشن ایران کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دے گا۔ لیکن اس کے بجائے، یہ ایرانیوں کے درمیان ایک حقیقی محبت (حب الوطنی) کے جذبے کی ڈھال بن گئی۔ [ملک کو بچانے کی ڈھال]"۔

اس برطانوی تجزیہ کار نے تصدیق کی کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) اسرائیل کی خدمت میں مصروف ہے۔"

ایران بغاوت کے بجائے، متحد ہو گیا، اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا اعتراف

اسرائیلی تجزیہ نگار وارلی شاہار (Varly Shahar)، نے اخبار "زمان اسرائیل" میں اعتراف کیا: "اسرائیل کی فوجی برتری برقرار رکھنے کے لئے تمام فراہم کردہ امداد کے باوجود، یہ ریاست دیگر محاذوں پر مکمل شکست اور اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آج تک، اور اسرائیل کی تاریخ کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ کے خاتمے سے پہلے، ہم پراعتماد انداز میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم ایک مبہم اور خوفناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ بنیادیں جن پر اسرائیل کی تعمیر ہوئی تھی، دانستہ طور پر ایک کے بعد ایک گرتی جا رہی ہیں۔" (1)

وارلی شاہار نے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر بھی لکھا تھا: "We Are on the Brink of Total Collapse؛ ہم مکمل تباہی کے دہانے پر ہیں"۔

ایران متحد ہو گیا اور اسرائیل کی معیشت تیزی سے جمود کا شکار ہو گئی، اسرائیلی تجزیہ کار

"اوری گولڈ برگ" (Ori Goldberg) نامی اسرائیلی تجزیہ کار نے الجزیرہ میں لکھا کہ اسرائیل نے امریکہ کی حمایت سے نطنز، فوردو اور اصفہان جیسی اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ سیٹلائیٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تنصیبات کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔

اسرائیل نے اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں سمیت اعلیٰ فوجی قیادت کے قتل اور اوین جیل جیسی حکومتی علائم پر بمباری کے ذریعے اندرونی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ حکمت عملی اس مفروضے پر مبنی تھی کہ اعلیٰ قیادت کے قتل سے دشمن (یعنی ایران) کو کمزور کیا جا سکتا ہے، لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ طریقہ عام طور پر کامیاب نہیں ہؤا کرتا۔

ان اقدامات نے بغاوت کے اسباب فراہم کرنے کے بجائے، ایران کے عوام کو حکومت کی حمایت پر متحد کر دیا۔ حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ کے سخت مخالفین نے بھی بیرونی حملوں کے خلاف حکومت کا ساتھ دیا۔

اس اسرائیلی تجزیہ کار نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ میں اسرائیل کی ناکامیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایرانی میزائل کئی بار اسرائیل کے مشہور فضائی دفاعی نظام "آئرن ڈوم" کو توڑنے میں کامیاب ہوئے اور اسرائیل کی معیشت کو معطل کر دیا۔ اسرائیل کو انٹرسیپٹر میزائلز کی قلت کا سامنا کرنا پڑا اور فوری رسد کی امید کے بغیر، اس کی معیشت تیزی سے جمود کا شکار ہو گئی۔ (2)

اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے محقق: "حملے نے ایٹمی ہتھیار بنانے کے امکان کو بڑھا دیا"

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سینئر محقق "مارک فٹز پیٹرک" نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ـ اس سوال کے جواب میں کہ "کیا ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ بے فائدہ تھا؟، کہا: "جواب یہ ہے کہ حملے نے ایران کے ایٹمی ہتھیار تک پہنچنے کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ وہ اب تک ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف نہیں گئے تھے۔ ایران اپنا پروگرام شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر کیونکہ ان کے پاس 400 کلوگرام افزودہ یورینیم موجود ہے۔ اگر ایران چاہے تو تقریباً 10 ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ اگر اسرائیل کو معلوم ہوتا کہ یہ 400 کلو یورینیم کہاں ہے، تو وہ اس پر حملہ کرنے میں ذرا بھی تردد نہ کرتا۔ لہٰذا، یہ کسی گہری اور محفوظ جگہ پر رکھا گیا ہے جہاں اس کو فضائی حملوں سے نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔"

مناشے امیر: "حکومت کے خاتمے کی خواہش پوری نہ ہوئی

ریڈیو اسرائیل کے ڈائریکٹر اور نام نہاد "ایران- انٹرنیشنل" کے کارکن مناشے امیر نے اس سوال کے جواب میں "کہ کیا اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟"، کہا: "اسرائیل میں شدید غصہ اور انتشار پایا جاتا ہے۔ کام ادھورا رہ گیا۔ مجموعی طور پر اسرائیلی بہت ناخوش ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہماری کارروائی کے بعد حالات سازگار تھے کہ ایران کے عوام خود آگے آتے، لیکن افسوس کہ کوئی فعال اور مؤثر اپوزیشن سامنے نہیں آئی۔ یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور ایرانیوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا"۔

اسرائیل سے فیلڈ رپورٹر کی رپورٹ: ایران کے میزائل وارہیڈز نے اسرائیل کو حیران کردیا

قطر کے العربی نیٹ ورک کے رپورٹر نے مقبوضہ علاقوں سے جنگ کا خلاصہ اس انداز سے پیش کیا: "ایران کے میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام کو کامیابی سے عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے شدید تباہی پھیلائی اور اسرائیل میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلیوں کے اعتراف کے مطابق، یہ میزائل انتہائی درست نشانے پر لگتے ہیں۔ ان میزائلوں کے عظیم وارہیڈز نے اسرائیلیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کو پہلی بار ایران کے نئے میزائلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ میزائل کلسٹر ہیں جو 20 سے زائد چھوٹے میزائلوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل نے اس قسم کے میزائلوں کا اس سے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ ہر بار جب خطرے کی گھنٹی بجتی، چھوٹے میزائلوں کے آنے کا خوف و ہراس پھیل جاتا۔ یہ اسرائیل میں جنگ کا آخری منظر ہے۔ اسرائیل کے اس دعوے کے باوجود کہ اس نے ایران کی میزائل صلاحیت تباہ کردی ہے، تباہی کا یہ منظر جنگ بندی سے بالکل کچھ ہی دیر پہلے کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔https://tn.ai/3342601

2۔ https://tn.ai/3347160

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha