اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا :
بسم الله الرحمن الرحیم
قالَ الإمامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ عليه السلام:
امام جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
1۔ ہماری احادیث، احادیث نبویہ ہیں:
"حَدِيثِي حَدِيثُ أَبِي وَحَدِيثُ أَبِي حَدِيثُ جَدِّي وَحَدِيثُ جَدِّي حَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ وَحَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ حَدِيثُ اَلْحَسَنِ وَحَدِيثُ اَلْحَسَنِ حَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَحَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ حَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَحَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؛ [1]
میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسین (علیہ السلام) کی حدیث امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امام حسن (علیہ السلام) کی حدیث امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث ہے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حدیث اللہ عز و جلّ کا قول ہے"۔
2۔ چالیس حدیثیں حفظ کرنے کی فضیلت
"مَنْ حَفِظَ مِنْ شِيعَتِنَا أَرْبَعِينَ حَدِيثاً بَعَثَهُ اَللَّهُ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ عَالِماً فَقِيهاً وَلَمْ يُعَذِّبْهُ؛ [2]
ہمارے پیروکاروں میں سے جو کوئی چالیس حدیثیں حفظ کرے خدائے متعال قیامت کے روز اس کو عالم اور فقیہ کے طور پر مبعوث فرمائے گا اور اس کو عذاب سے دوچار نہیں کرے گا"۔
3۔ اللہ کے ہاں مؤمن کی حاجت روائی کی پاداش
"قَضَاءُ حَاجَةِ اَلْمُؤْمِنِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ حِجَّةٍ مُتَقَبَّلَةٍ بِمَنَاسِكِهَا وَعِتْقِ أَلْفِ رَقَبَةٍ لِوَجْهِ اَللَّهِ وَحُمْلاَنِ أَلْفِ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ بِسُرُجِهَا وَلُجُمِهَا؛ [3]
مؤمن کے حوائج اور ضروریات برلانا ایک ہزار مقبول حجوں، ایک ہزار غلاموں کی ازادی اور ایک ہزار تیار گھوڑے راہ خدا میں روانہ کرنے سے برتر و بالاتر ہے"۔
4۔ نماز کا محاسبہ سب سے پہلے
"اَوَّلُ مايُحاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلاةُ، فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ سائِرُ عَمَلِهِ، وَاِذا رُدَّتْ رُدَّ عَلَيْهِ سائِرُ عَمَلِهِ؛ [4]
خدا کی بارگاہ میں سب سے پہلے نماز کا احتساب ہوگا؛ چنانچہ اگر انسان کی نماز قبول ہو تو اس کے دوسرے اعمال بھی قبول ہونگے اور اگر اس کی نماز ردّ ہوجائے تو اس کے دوسرے اعمال بھی ردّ ہونگے"۔
5۔ چار رویئے اور چار بلائیں ساتھ ساتھ
"إِذَا فَشَتْ أَرْبَعَةٌ ظَهَرَتْ أَرْبَعَةٌ؛ إِذَا فَشَى الزِّنَا ظَهَرَتِ الزَّلازِلُ؛ وَإِذَا أُمْسِكَتِ الزَّكَاةُ هَلَكَتِ الْمَاشِيَةُ؛ وَإِذَا جَارَ الحُكَّامُ في القَضاءِ أُمسِكَ القَطرُ مِنَ السَّمَاءِ؛ وإِذَا خُفِرَتِ الذِّمَّةُ نُصِرَ المُشرِكونَ عَلى المُسلِمينَ؛ [5]
جس معاشرے میں چار چیزیں عام اور اعلانیہ ہوجائیں چار مصیبتیں اور بلائیں اس معاشرے کو گھیر لیتی ہیں: زنا عام ہوجائے تو بکثرت زلزلے آئیں گے؛ زکوة اور خمس دینے سے امتناع کیا جائے، تو پالتو جانور [جیسے بھیڑ بکریاں، اونٹ، گائے بیل وغیرہ] تلف ہونگے؛ حکام اور قاضی ستم اور ناانصافی کی راہ اپنائیں، تو خدا کی رحمت کی بارشیں برسنا بند ہونگی؛ اور اگر ذمی کفار کو تقویت ملے تو مشرکین مسلمانوں پر غلبہ پائیں گے"۔
6۔ بھائی پر بہتان کی سزا
"مَنْ عَابَ أَخَاهُ بِعَيْبٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ اَلنَّارِ؛ [6]
جو شخص اپنے برادر مؤمن پر تہمت و بہتان لگائے اور اس کی عیب جوئی کرے، وہ دوزخی ہے"۔
7۔ خاموشی کے فوائد
"الصَّمْتُ كَنْزٌ وافِرٌ وَزَيْنُ الْحِلْمِ وَسَتْرُالْجَاهِلِ؛ [7]
خاموشی ایک بیش بہاء خزانہ، حلم اور بردباری کی زینت اور نادان شخص کے جہل و نادانی چھپانے کا ذریعہ ہے"۔
8۔ دوستی اور مصاحبت کی شرط
"إِصْحَبْ مَنْ تَتَزَيَّنُ بِهِ وَلا تَصْحَبْ مَنْ يَتَزَّيَنُ لَكَ؛ [8]
ایسے شخص کے ساتھ دوستی اور مصاحبت کرو جو تمہاری زینت کا باعث ہو اور ایسے شخص سے دوستی اور مصاحبت نہ کرو جو اپنے اپ کو تمہارے لئے نیک ظاہر کرتا ہے"۔
9۔ تین خصلتیں مؤمن کے کمال کا ذریعہ
"كَمالُ الْمُؤْمِنِ فى ثَلاثِ خِصالٍ: الْفِقْهُ فى دينِهِ وَالصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالتَّقْديرُ فِى الْمَعيشَةِ؛ [9]
مؤمن کا کمال تین خصلتوں میں ہے: دین کے مسائل و احکام میں سمجھ بوجھ، سختیوں میں صبر و بردباری، اور زندگی کے معاملات میں منصوبہ بندی اور حساب و کتاب کی پابندی"۔.
10۔ مساجد میں حاضری کی ضرورت اور فوائد
"عَلَيْكُمْ بِأَتْيَانِ الْمَسَاجِدِ فَإِنَّهَا بُيُوتُ اللَّهِ فِي الاَرْضِ ومَنْ أَتاها مُتَطَهِّراً طَهَّرَهُ اللَّهُ مِن ذُنُوبِهِ وكُتِبَ مِن زُوَّارِهِ فَأَكْثِرُوا فِيهَا مِنَ الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ؛ [10]
تم پر لازم ہے کہ مساجد میں حاضری دیا کرو، کیونکہ مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں اور جو شخص پاک و طاہر ہوکر مسجد میں حاضر ہوگا، خدائے تعالی اس کو گناہوں سے پاک کر دیتا اور اسے اپنا دیدار و زیارت کرنے والوں کے زمرے میں قرار دیتا ہے، چنانچہ مساجد میں زیادہ سے زیادہ نماز اور دعا بجا لایا کرو"۔
11۔ نماز فجر کے بعد کا ذکر خاص
"مَن قالَ بَعْدَ صَلوةِ الصُّبْحِ قَبْلَ انْ يَتَكَلَّمَ: "بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاللَّهِ الْعَليِّ الْعَظيمِ" يُعيدُها سَبْعَ مَرّاتٍ، دَفَعَ اللّهُ عَنْهُ سَبْعينَ نَوْعاً مِنْ أَنْوَاعِ الْبَلَاءِ، أَهْوَنُهَا الْجُذَامُ وَالْبَرَصُ؛ [11]
جو شخص نماز فجر کے بعد کوئی بھی بات کئے بغیر سات مرتبہ "بسم اللّہ الرّحمن الرّحيم، لا حول و لا قُوَّةَ إلَّا باللّه الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ" کی تلاوت کرے گا خدائے متعال 70 قسم کے امراض و آفات اور بلاؤں کو اس سے دور فرماتا ہے جن میں سب سے ساده اور معمولی سا مرض جذام اور برص ہے"۔
12۔ وضو کے بعد منہ ہاتھ کو خشک نہ کرے کا ثواب
"مَنْ تَوَضَّأ وَتَمَنْدَلَ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةٌ وَمَنْ تَوَضَّأ وَلَمْ يَتَمَنْدَلْ حَتّى يَجُفَّ وُضُوئُهُ، كُتِبَ لَهُ ثَلاثُونَ حَسَنَةً؛ [12]
جو شخص وضو کرے اور اسے تولیے کے ذریعے خشک کردے اس کے لئے صرف ایک حسنہ ہے اور اگر خشک نہ کرے یہاں تک کہ خود بخود خشک ہوجائے تو اس کے لئے 30 حسنات ہیں"۔
13۔ مؤمن بھائی کے گھر میں افطار کی عظمت
"لَاِفْطارُكَ فى مَنْزِلِ أَخيكَ أَفْضَلُ مِنْ صِيَامِكَ سَبْعينَ ضِعْفاً؛ [13]
اپنے مؤمن بھائی کے گھر میں تمہارا روزے کا افطار کرنا تمہارے روزے سے 70 گنا زیادہ افضل ہے"۔
14۔ ابلے ہوئے پانی سے افطار
"إِذَا أَفْطَرَ اَلرَّجُلُ عَلَى اَلْمَاءِ اَلْفَاتِرِ نَقَّى كَبِدَهُ وَغَسَلَ اَلذُّنُوبَ مِنَ اَلْقَلْبِ وَقَوَّى اَلْبَصَرَ وَاَلْحَدَقَ؛ [14]
اگر انسان ابلے ہوئے پانی سے افطار کرے اس کا جگر پاک او سالم رہے گا اور اس کاقلب کدورتوں سے پاک هوگا اور اس کی آنکھوں کا نور بڑھے گا اور انکھیں روشن ہونگی"۔
15۔ قرآن کو سامنے رکھ کر تلاوت کرنے کے فوائد
"مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي المُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ وَخُفِّفَ عَنْ وَالِدَيهِ وَإِنْ كَانَا كَافِرَينِ؛ [15]
جو شخص قران مجید کو سامنے رکھ کر اس کی تلاوت کرے گا اس کی انکھوں کی روشنی سے بہرہ ور ہوگا؛ نیز اس کے والدین کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوگا خواه وه کافر ہی کیوں نہ ہوں"۔
16۔ سورہ توحید کی فضیلت
"مَنْ قَرَءَ قُلْ هُوَ اللّهُ احَدٌ مَرَّةً واحِدَةً فَكَانَّمَا قَرَءَ ثُلْثَ الْقُرآنِ وَثُلْثَ التُّوْرَاةِ وَثُلْثَ الإِنْجِيلِ وَثُلْثَ الزَّبُورِ؛ [16]
جو شخص ایک مرتبہ "قل هو الله أحد..." کی تلاوت کرے گویا اس نے ایک تہائی قران، ایک تہائی توریت اور ایک تہائی انجیل کی تلاوت کی ہو"۔
17۔ پھل دھوکر کھا لیا کرنا
"إِنَّ لِكُلِّ ثَمَرَةٍ سَمّاً فَإِذَا أَتَيْتُمْ بِهَا فَمَسُّوهَا بِالْمَاءِ أَوِ اغْمِسُوهَا فِي الْمَاءِ يَعْنِي اغْسِلُوهَا؛ [17]
ہر پهل کا اپنا زہر ہوتا ہے [اور یہ جراثیموں سے آلودہ ہوتے ہیں] جب بھی پهل کهانا چاہو تو پہلے اس پر پانی چھڑکو، یا اسے پانی میں بهگو لو، یعنی اسے دھو لو"۔
18۔ شلجم کے فوائد
"عَلَيْكُمْ بِالشَّلْجَمِ، فَكُلُوهُ وَأَدِيمُوأَكْلَهُ وَاكْتُمُوهُ إلَّا عَنْ أَهْلِهِ، فَمَا مِنْ أَحَدٍ إلَّا وَبِهِ عِرْقٌ مِنَ الْجُذَامِ، فَأَذِيبُوهُ بِأَكْلِهِ؛ [18]
شلجم کو اہميّت دو اور مسلسل کهاتے رہو اور اسے [اور اس کے فوائد کونا اہلوں سے] چھپائے رکھو اور صرف اہل انسانوں کے لئے آشکار کرو؛ اور ہر شخص میں جذام کی رگ موجود ہے پس شلجم کها کر اس کاخاتمہ کردو"۔
19۔ دعا کی قبولیت کے چار اوقات
"يُسْتَجَابُ اَلدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ فِي اَلْوَتْرِ وَبَعْدَ اَلْفَجْرِ وَبَعْدَ اَلظُّهْرِ وَبَعْدَ اَلْمَغْرِبِ؛ [19]
چار اوقات میں دعا مستجاب ہوتی ہے: نماز وتر کے وقت (تہجد میں)، نماز فجر کے بعد، نماز ظہر کے بعد، نماز مغرب کے بعد"۔
20۔ شب جمعہ 10 مرحوم مؤمنون کے لئے دعا
"مَنْ دَعالِعَشْرَةٍ مِنْ اخْوانِهِ الْمَوْتى لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ اوْجَبَ اللّهُ لَهُ الْجَنَّةَ؛ [20]
جو شخص شب جمعہ دنیا سے رخصت ہونے والے 10 مؤمن بهائیوں کے لئے مغفرت کی دعا کرے خدائے متعال اس پر جنت واجب فرمائے گا"۔
جاری ہے
21۔ کنگھی لگانے کے فوائد
"مِشْطُ الرَّاسِ يَذْهَبُ بِالْوَبَاءِ وَمِشْطُ اللِّحْيَةِ يُشَدِّدُ الْأَضْرَاسَ؛ [21]
سر کے بالوں میں کنگهی کرنا وبا کے زائل ہونے کا سبب اور داڑھی میں کنگھی کرنا دانتوں کی جڑوں کی مضبوطی با باعث ہوتا ہے"۔
نیز امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"المِشْطُ يَجلِبُ الرِّزقَ ويُحَسِّنُ الشَّعرَ ويُنْجِزُ الْحَاجَةَ ويَزِيدُ فِي مَاءِ الصُّلْبِ ويَقْطَعُ الْبَلْغَمَ وكَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صلى الله عليه وآله يُسَرِّحُ تَحْتَ لِحْيَتِهِ أرْبَعِينَ مَرَّةً وَمِن فَوْقِهَا سَبعَ مَرَّاتٍ وَيَقولُ إنَّهُ يَزيدُ في الذِّهنِ وَيَقطَعُ البَلغَم؛ [22]
کنگھی رزق لاتی ہے، بالوں کو بہتر کرتی ہے، حاجت پوری کرتی ہے، صُلب کا پانی بڑھا دیتی ہے اور بلغم کو کاٹ دیتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور اپنی داڑھی کے نیچے چالیس مرتبہ اور اس کے اوپر سات مرتبہ کنگھی کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: اس سے ذہن کو تقویت ملتی ہے اور بلغم کو منقطع ہوجاتا ہے"۔
22۔ مؤمن بھائی کی مدد نہ کرنے والا سزا کا مستحق ہے
"أَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَئَلَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ حَاجَةً وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى قَضَائِهَا فَرَدَّهُ عَنْهَا، سَلَّطَ اللّهُ عَلَيْهِ شُجَاعاً في قَبْرِهِ، يَنْهَشُ مِنْ أَصَابِعِهِ؛ [23]
اگر کوئی مؤمن اپنے مؤمن بهائی سے حاجت طلب کرے اور وه حاجب روائی کی قوت رکھنے کے باوجود منع کرے، خداوند متعال قبر میں اس پر ایک افعی (بالشتیا سانپ) مسلط فرمائے گا جو اس کی انگلیوں کو کاٹتا رہے گا"۔
23۔ اولاد کی موت کا ثواب
"وَلَدٌ وَاحِدٌ يُقَدِّمُهُ اَلرَّجُلُ أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ وَلَداً يَبْقَوْنَ بَعْدَهُ يُدْرِكُونَ اَلْقَائِمَ عَلَيهِ السَّلَامُ؛ [24]
اگر اانسان اپنی زندگی میں ہی اپنے ایک فرزند کو عالم اخرت میں بھیج دے، یہ اس سے کہیں بہتر ہے که اس کے 70 بیٹے ہوں جو امام زمانہ (علیہ السلام) کا دیدار کریں"۔
چنانچہ اگر انسان اپنی اولاد کو راہ خدا میں جہاد و دفاع کے لئے روانہ کرے اور وہ اس راہ میں شہید ہوجائے، تو اس کا اجر والدین کے لئے طبعی موت مرنے والے بچوں سے زیادہ اجر و ثواب کا سبب ہوگا۔
24۔ بھائی کا عذر قبول کرو / بھائی کی بات 40 گواہوں کی گواہی پر بھاری
"إِذْ أَبَلَغَكَ عَنْ أَخِيكَ شَيْىءٌ فَقالَ لَمْ أقُلْهُ فَاقْبَلْ مِنْهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ تَوْبَةٌ لَهُ؛ وَقالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: إِذْ أَبَلَغَكَ عَنْ أخِيكَ شَيْىءٌ وَشَهِدَ ارْبَعُونَ أَنَّهُمْ سَمِعُوهُ مِنْهُ فَقالَ: لَمْ أَقُلْهُ، فَاقْبَلْ مِنْهُ؛ [25]
اگر کبھی کسی سے تمہیں بتایا کہ تمہارے بهائی (اور ہر مؤمن) نے تمہارے خلاف کچھ بولا ہے مگر وہ (دوست یا بهائی) اس کی تردید کرے تو قبول کر لو۔ اور امام (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر تم نے سنا کہ تمہارے بھائی نے تمہارے خلاف کچھ بولا ہے اور 40 ادمیوں نے گواہی بھی دی کہ اس نے وہ بات کی ہے؛ مگر وہ کہہ دے کہ "میں نے یہ بات نہیں کی ہے"، تو بھائی کی بات قبول کرو"۔
25۔ تکمیل ایمان کیونکر ممکن ہے؟
"لَا يَكْمُلُ إِيمَانُ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ حَتَّى يَكُونَ فِيهِ أَرْبَعُ خِصَالٍ يُحَسِّنُ خُلُقَهُ وَيُصْلِحُ نَفْسَهُ وَيُمْسِكُ اَلْفُضُولَ مِنْ قَوْلِهِ وَيُخْرِجُ اَلْفَضْلَ عَنْ مَالِهِ؛ [26]
مومن بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں چار خصلتیں نہ ہوں: اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کرے، اپنی اصلاح کرنا اور خودسازی کرنا، فضول باتوں سے پرہیز کرنا، اور اپنے فاضل اور [اضافی] مال کو [اللہ کی راہ میں اور حقوق الناس کی ادائیگی] میں خرچ کرنا"۔
26۔ صدقہ اور استغفار کی افادیت
"دَاوُوا مَرْضاكُمْ بِالصَّدَقَةِ وَادْفَعُوا أَبْوَابَ الْبَلايَا بِالْإسْتِغْفارِ؛ [27]
مریضوں کاعلاج صدقہ دے کر کرو اور استغفار اور توبہ کے ذریغے مشکلات اور بلاؤن (ازمایشوں) کو دفع کرو"۔
27۔ نمازوں کے بعد دعا کے اوقات
"اِنَّ اللّهَ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلَواتِ الْخَمْسِ فِى أَفْضَلِ السّاعاتِ، فَعَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فى أَدْبَارِ الصَّلَواتِ؛ [28]
یقینا اللہ نے پانچ نمازوں کو بہترین اوقات میں تم پر فرض کر رکھا ہے، چنانچہ اپنی نمازوں کے بعد [حاجت روائی کے لئے بارگاہ رب متعال میں] دعا کیا کرو"۔
28۔ کھا لیا کرو جو کچھ دسترخوان پر گرتا ہے
"كُلُوا ما يَقَعُ مِنَ الْمائِدَةِ فِي الْحَضَرِ فَإنَّ فيهِ شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ وَلا تَاكُلُوا مَا يَقَعُ مِنْهَا وَمِنَ السُّفرَةِ فِى الصَّحاري؛ [29]
گھر میں کھانا کھاتے ہوئے جو کچھ دسترخوان پر گرے، انہیں اٹھا کر کھا لیا کرو، کیونکہ ان میں تمام بیماریوں کی شفا ہے لیکن اگر تم دشت و صحرامیں کهانا کهاؤ تو جو کچھ کھانے میں سے اور دستر خوان سے، زمین پر گرے اسے نہ کھاؤ، (تاکہ جانور اور حشرات اس سے استفادہ کریں)"۔
29۔ انبیاء (علیہم السلام) کی چار خصلتیں
"أَرْبَعَةٌ مِنْ أَخْلاقِ الْأَنْبِياءِ عليهم السلام اَلْبِرُّ وَالسَّخَاءُ وَالصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالْقِيامُ بِحَقِّ الْمُؤْمِنِ؛ [30]
چار خصلتیں انبیاء (علیہم السلام) کی اخلاقیات میں سے ہیں: نيكى، سخاوت، مصائب و مشكلات پر صبر و بردباری، مؤمنین کا حق ادا کرنا"۔
30۔ ہمارے شیعوں کو تین مواقع پر آزما لو
"امْتَحِنُوا شيعتَناعِنْدَ ثَلاثٍ: عِنْدَ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ كَيْفَ مُحَافَظَتُهُمْ عَلَيْهَا وَعِنْدَ أَسْرارِهِمْ كَيْفَ حِفْظُهُمْ لَهَا عِنْدَ عَدُوِّنا، وَإِلَى أَمْوَالِهِمْ كَيْفَ مُوَاسَاتُھمْ لِإِخْوَانِهِمْ فِيهَا؛ [31]
ہمارے شیعوں کو تین چیزوں میں ازماؤ:
1۔ نماز کے وقت، کہ وہ نماز کی کس طرح پابندی، حفاظت اور رعایت کرتے ہیں؟
2۔ ہمارے اور مؤمنین کے رازوں کو ہمارے دشمنوں کے ہاں ہمارے اور مؤمنوں کے رازوں کو کس طرح رازوں کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں؟
3۔ اپنے اموال اور سرمایوں کے حوالے سے کہ وہ اپنے مال و دولت میں سے کس طرح اپنے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں؟"۔
31۔ نفس پر قابو رکھنے کا ثمرہ
"مَن مَلَكَ نَفْسَهُ إذَا غَضِبَ وَإِذَا رَغِبَ وَإِذَا رَهِبَ وَإِذَا اشْتَهَى حَرَّمَ اللّهُ جَسَدَهُ عَلَى النَّارِ؛ [32]
جو شخص غصے کی حالت میں، اور کسی چیز کی طرف راغب ہونے کے وقت، کسی شخص یا واقعے سے خائف ہونے کے وقت اور کسی چیز کی خواہش اور طلب رکھنے کے موقع پر، اپنے نفس کو قابو میں رکھے، خدائے متعال اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام فرمائے گا"۔
32۔ دن اور رات کو اپنی نیکیوں کا گواہ بنا دو
"إِنَّ النَّهَارَ إِذَا جَاءَ قَالَ: يَابْنَ آدَمَ اعْجِلْ فِي يَوْمِكَ هَذَا خَيْراً، أَشْهَدُ لَكَ بِهِ عِنْدَ رَبِّكَ يَوْمَ الْقيامَةِ، فَإنِّى لَمْ آتِكَ فِيمَا مَضَى وَلَا آتِيكَ فِيمَا بَقِىَ، فَإِذَا جَاءَ اللَّيْلُ قَالَ مِثْلُ ذَلِكَ؛ [33]
جب دن چڑھ جائے کہتاہے: اے فرزند ادم! نیکی کے کاموں میں جلدی کرو کیونکہ میں قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں تیرے لئے ان [نیکیوں] کی گواہی دوں گا؛ اور جان لو کہ میں اس سے پہلے بھی تیرے پاس نہیں آیا اور اس کے بعد بھی تیری طرف آنے والا نہیں ہوں؛ اسی طرح جب رات چھا جاتی ہے تو وہ بھی یہی تقاضا کرتی ہے"۔
33۔ مؤمن کی آٹھ خصلتیں
" يَنبَغي للمُؤمنِ أن يَكُونَ فِيهِ ثَمَانِيَ خِصَالٍ: وَقُورٌ عِنْدَ الْهَزاهِزِ، صَبُورٌ عِنْدَ الْبَلاءِ، شَكُورٌ عِنْدَ الرَّخَاءِ، قانِعٌ بِمَا رَزَقَهُ اللّهُ، لَا يَظْلِمُ الْأَعْدَاءَ وَلَا يَتَحَامَلُ لِلْأَصْدِقَاءِ، بَدَنُهُ مِنْهُ فِي تَعَبٍ وَالنَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ؛ [34]
مؤمن کے لئے ضروری ہے اٹھ خصلتوں کا حامل ہو:
1۔ فتنوں اور اشوب میں باوقار و پرسکون ہو،
2۔ ازمائشوں اور بلاؤں میں بردبار اور تحمل مزاج ہو؛
3۔ وسعت اور فراخی کے دنوں میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہو؛
4۔ خدا کی طرف سے مقرر کردہ رزق و روزی پر قناعت کرنے والا اور کفایت شعار ہو؛
5۔ اپنے دشمنوں پر ظلم و ستم روا نہ رکھتا ہو؛
6۔ دوستوں کی خاطر خود کو مشقت اور تکلف میں نہ ڈالتا [ اور ان کے لئے ناقابل برداشت ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہو؛ نیز ان کی خاطر گناہ کا ارتکاب نہ کرتا] ہو؛،
7۔ اس کا بدن اس کے اپنے ہاتھوں رنجور اور تھکا ماندہ ہو؛ اور
8۔ لوگ اس کی جانب سے آرام و اسائش میں [اور اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ] ہوں"۔
34۔ روز جمعہ مرنے والا مؤمن
"مَنْ ماتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَارِفاً بِحَقِّ هَذَا البَيْتِ كَتَبَ اللهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَبَرَاءَةً مِنَ الْعَذَابِ وَمَنْ مَاتَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ اعْتِقَ مِنَ النَّارِ؛ [35]
جو شخص جمعہ کے دن وفات پائے ایسے حال میں کہ اس خاندان [اہل بیت علیہم السلام] کے حق کو پہچانتا اور تسلیم کرتا ہو، خدائے متعال اس کو جہنم کی آگ سے برات؛ نیز عذاب سے بھی برات لکھ کر دے گا؛ اور جو شب جمعہ انتقام کر جائے اس کو جہنم کی آگ سے آزادی ملے گی"۔
35۔ گناہ کے فوری اثرات
"إِنَّ الرَّجُلَ يُذنِبُ الذَّنْبَ فَيُحرَمُ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَإنَّ الْعَمَلَ السَّيِّءَ أَسْرَعُ فِي صَاحِبِهِ مِنَ السِّكِينِ فِي اللَّحْمِ؛ [36]
آدمی گناہ کا ارتکاب کرتا تو نماز شب سے محروم ہوجاتا ہے اور برے اعمال اپنے مرتکب شخص میں ـ گوشت میں چاقو کے اثر سے بھی ـ زیادہ تیزی سے اثر کرتے ہیں"۔
36۔ ریحان اور انار کی لکڑوں سے خلال نہ کرو
"لَا تَتَخَلَّلُوا بِعُودِ الرَّيْحانِ وَلَا بِقَضيْبِ الرُّمانِ، فَانَّهُما يُهَيِّجانِ عِرْقَ الْجُذامِ؛ [37]
ریحان (تُلْسی) کی ٹہنی یا انار کے درخت کے تنکوں سے دانتوں کی خلال مت کیا کرو (اور ان سے دانتوں کی ریخیں مت کریدا کرو)، کیونکہ یہ جذام کی رگوں کو متحرک کر دیتے ہیں"۔
37۔ روز جمعہ ناخن اور مونچھیں تراشنا اگلے جمعے تک امان
"تَقْليمُ الاظْفارِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُؤمِنُ مِنَ الْجُذامِ وَالْبَرَصِ وَالْعَمَى وَإِنْ لَمْ تَحْتَجْ فَحَكِّها حَكّا؛ وَقالَ عَلَيهِ السَّلَامُ: أخْذُ الشّارِبِ مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ أَمَانٌ مِنَ الْجُذَامِ؛ [38]
جمعہ کے روز ناخن کاٹنا جذام، برص اور اندھے پن یا بصارت کی کمزوری سے سلامتی کا سبب ہے؛ اگر ناخن کاٹنا ممکن نہ ہو تو ان کے سروں کو تراش لیا کرو؛ اور ہر جمعے کو مونچھ چھوٹی کرنا جذام سے نجات کا باعث ہے"۔
38۔ سونے سے پہلے اپنا احتساب کرو
"إِذَا آوَيْتَ إلَى فِرَاشِكَ فَانْظُرْ مَا سَلَكْتَ فِى بَطْنِكَ وَمَا كَسَبْتَ فِى يَوْمِكَ وَاذْكُرْ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّ لَكَ مَعَاداً؛ [39]
جب تم بستر میں داخل ہوتے ہو تو دیکھ لو کہ اس روز کیا کھایا اور کیا پیا ہے اور جو کچھ کھایا اور پیا ہے وہ کہاں سے ایاہے، اور اس روز تم نے کونسی چیزیں کن راستوں سے حاصل کی ہیں؟ اور ہر حال میں یاد رکھو کہ موت تم کو اٹھا لے جائے گی اور اس کے بعد تمہیں روز قیام پلٹنا بھی ہے، [جب تم اپنے کئے، کہے اور سنے کا حساب دو گے]"۔
39۔ اللہ کے بارہ ہزار عالَم
"إِنَّ لِلّهِ عَزَّ وَجَلَّ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ عَالَمٍ كُلُّ عَالَمٍ مِنْهُمْ أَكْبَرُ مِنْ سَبْعِ سَمَوَاتٍ وَسَبْعِ أَرَضِينَ، مَا تَرَى عَالَمٌ مِنْهُمْ أَنَّ لِلّهِ عَزَّ وَجَلَّ عالَماًغَيْرُهُمْ وَأَنَا الحُجَّةٌ عَلَيْهِمْ؛ [40]
بے شک خداوند متعال نے 12 ہزار عالَم پیدا کئے ہیں جن میں سے ہر عالَم سات اسمانوں اور سات زمینوں سے کہیں زیادہ بڑا ہے؛ ان میں سے کوئی بھی عالَم یہ نہیں جانتا کہ اللہ کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا عالَم بھی ہے، اور میں ان سب جہانوں پر اللہ کی حجت و راہنما ہوں؛ (یعنی بارہ امام (علیہم السلام) تمام جہانوں کے امام ہیں)"۔
40۔ سچے آدمی کی بات حلال و حرام کے بارے میں
"حَدِيثٌ فِي حَلَالٍ وَحَرَامٍ تَأْخُذُهُ مِنْ صَادِقٍ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ؛ [41]
حلال و حرام کی وہ بات جو تم ایک سچ بولنے والے مؤمن سے سنتے ہو، پوری دنیا اور اس میں موجود سونے اور چاندی سے برتر و بالاتر ہے"۔
آخری تحفہ:
41۔ بلاؤں میں اضافہ، بلاؤں سے نجات کی علامت
"إِذَا أُضِيفَ الْبَلَاءُ إِلَى الْبَلَاءِ كَانَ مِنَ الْبَلَاءِ عَافِيَةٌ؛ [42]
جب بلاؤں پر بلاؤں (اور ہموم و غموم) کا اضافہ ہو [آزمائشیں مسلسل بڑھتی رہیں تو] یہ بلاؤں سے عافیت (و نجات کی علامت) ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج1، ص53۔
[2]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الامالی، ص253.
[3]۔ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل طبرسی (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص148۔
[4]۔ الحرالعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج3، ص22۔
[5]۔ الشیخ الصدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص524۔۔
[6]۔ الشیخ المفید، مجمد بن محمد العکبری، الاختصاص، ص240۔
[7]۔ البحرانی الاصفہانی، عبداللہ بن نور اللہ، عوالم العلوم، ج20، ص779؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج9، ص16۔
[8]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، (امین الاسلام کے فرزند)، مکارم الاخلاق، ج1، ص251۔
[9]۔ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص666؛ الطبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص278۔
[10]۔ الشیخ الصدوق، الامالی، ص440۔
[11]۔ الشیخ الطوسی، الامالی، ص415۔
[12]۔ الکلینی، الکافی، ج3، ص70۔
[13]۔ الشیخ الصدوق، من لايَحضرہ الفقيہ، ج2، ص51۔
[14]۔ الکلینی، الکافی، ج4، ص152۔
[15]۔ الکلینی، الکافی، ج2، ص613۔
[16]۔ الشیخ الصدوق، التوحید، ص95۔
[17]۔ الکلینی، الکافی، ج6، ص350۔
[18]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ج1، ص207۔
[19]۔ ابن فہد حلی، أحمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ج1، ص67۔
[20]۔ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج2، ص124۔
[21]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص69۔
[22]۔ الشیخ الصدوق، الخصال، ص268.
[23]۔ ابن فہد حلی، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ص177۔
[24]۔ الشہید الثانی، زین الدین بن نورالدین علی بن احمد العاملی الجُبَعی، مسکن الفؤاد، ص30؛ الشیخ الصدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 232۔
[25]۔ الشیخ الصدوق، مصادقة الاخوان، ص82۔
[26]۔ الدیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب، ص195۔
[27]۔ النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج7، ص163۔
[28]۔ الشیخ الصدوق، الخصال، ص278۔
[29]۔ النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج16، ص288۔
[30]۔ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن علی، تُحَفُ العُقُول من آل الرسول صلی اللہ علیہم؛ ص375؛ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج4، ص112۔
[31]۔ الحمیری القمی، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، ص48؛ الشیخ الصدوق، الخصال، ص103؛ الفتال النیسابوری، محمد بن الفتال (الشہید)، روضۃ الواعظین، ج2، ص293؛ الطبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار و دُرُرُ الاخبار، ص78.
[32]۔ الشیخ الصدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص160؛ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص361؛ نیز دیکھئے مختصر سے فرق کے ساتھ: الطبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص247۔
[33]۔ الکلینی، الکافی، ج1، ص455۔
[34]۔ الکلینی، الکافی، ج2، ص47۔
[35]۔ الکلینی، الکافی، ص415؛ الشیخ المفید، الاختصاص، ص130؛ النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج6، ص66۔
[36]۔ الکلینی الکافی، ج2، ص272۔
[37]۔ البرقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج2، ص564؛ الشیخ الصدوق، الامالی، ص446۔
[38]۔ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص363 و 356۔
[39]. الطبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص89؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج68، ص267 نیز دیکھئے: ج73، ص190؛ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم، ج20، ص705۔
[40]. الشیخ الصدوق، الخصال، ص639۔
[41]۔ البرقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج1، ص229۔
[42]۔ ابن شعبہ الحرانی، تُحَفُ العقول، ص357۔
آپ کا تبصرہ