بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، آیت اللہ سید ابوالفضل طباطبائی اشکذری فرماتے ہیں:
انسانی معاشرے نے تاریخ کے دوران ہمیشہ ظالمانہ اور مظلومانہ دونوں طرح کی حرکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ظالم کبھی ایک فرد ہوتا ہے، کبھی ایک گروہ اور کبھی ایک تحریک اور ایک دھارا۔ مظلوم بھی ایسا ہی ہوتا ہے—کبھی ایک فرد، کبھی ایک گروہ، کبھی ایک تحریک اور کبھی ایک نظام جو ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ معاشرے نے پوری تاریخ میں، ہمیشہ دو "ظالمانہ اور مظلومانہ" کیفیات کو دیکھ لیا ہے۔
ظالم کبھی ایک فرد ہوتا ہے، کبھی ایک گروہ اور کبھی ایک تحریک اور ایک دھارا۔ مظلوم بھی ایسا ہی ہوتا ہے— کبھی ایک فرد، کبھی ایک گروہ، کبھی ایک تحریک اور کبھی ایک نظام جو ظلم کا شکار ہؤا ہے۔ اکثر لوگ ان ہی دو گروہوں کے اندر یا ان کے بیچ زندگی گذارتے ہیں، یعنی ایک طرف ظالم سے سامنا ہوتا ہے تو دوسری طرف مظلوم سے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں ظالم بھی ہو اور مظلوم بھی ہو، بلکہ ہم خود بھی کبھی ظالم بن بن کر اور کبھی مظلوم بن کر، ظلم کا تجربہ کرتے ہیں، —تو پھر عام معاشرے کا کیا فرض بنتا ہے؟
اسلامی تعلیمات، خاص طور پر نہج البلاغہ—جو معاشرے کی رہنمائی میں حضرت امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے تجربات کا مرقع ہے— کی روشنی میں اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
نہج البلاغہ اور اسلام سے پہلے کے معاشرے (یعنی دورِ جاہلیت) میں لوگوں کا عام نعرہ تھا:
"اَنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُومًا؛ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو چاہے مظلوم ہو"۔
یعنی اس زمانے میں خونی، قبائلی یا خاندانی تعلقِ، یا سیاسی وابستگی یا گروہی تعصب اہم تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے سیاسی، جماعتی، قبائلی، اور ثقافتی حلیف کی حمایت کرو۔ لیکن اسلام کی اعلی تعلیمات اس اصول کو پسند نہیں کرتیں اور قانون بدل گیا ہے۔ ایک جملہ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 47 میں منقول ہے جو بظاہر امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کے نام وصیت کے ضمن میں آیا ہے؛ لیکن اس کا خطاب در حقیقت پوری انسانیت سے ہے حتیٰ کہ آج کے دور کے لئے بھی۔ اور وہ جملہ یہ ہے:
"كُونَا لِلظّالِمِ خَصْما وَ لِلْمَظْلومِ عَوْنا؛
آپ دونوں ظالم کے دشمن بنے رہیں اور مظلوم کے حامی اور مددگار بنے رہیں"۔
ہمارے مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا یہ بیان ہی ہے کہ ہم ہمیشہ ظالموں کے خلاف بر سر پیکار ہیں، اور ہمیشہ دنیا کے مظلوموں کے حامی اور گرے ہوئے انسانوں کے مددگار ہونگے اور ان لوگوں کے یار و یاور ہونگے جنہیں مدد کی ضرورت ہو؛ خواہ وہ ہمارے بھائی ہوں، ہمارے قبیلے کے ہوں یا نہ ہوں؛ ان کی دستگیری اور مدد کرتے رہیں گے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ "یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے خلاف" جیسا نعرہ درحقیقت جاہلی ثقافت کی پیداوار ہے۔
علوی معاشرے میں اور نہج البلاغہ کی تعلیمات کی رو سے، "یا حق کے ساتھ ہو یا حق کے خلاف"، یا "مظلوم کا ساتھ دو یا ظالم کے خلاف کھڑے رہنا"۔
یہ اصول نہ صرف نہج البلاغہ میں موجود ہے، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سیرت طیبہ میں بھی اس کی واضح جھلک ملتی ہے؛ بلکہ اس کے بانی خود آقائے دو عالم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں ہیں۔ اسلام سے پہلے عرب قبائل میں "احلاف" (معاہدات) بہت معروف ہیں۔ جن کا مقصد فساد، برائی، بدنظمی اور بدعنوانی کا سدباب اور قریش کے دشمنوں کے خلاف مزاحمت اور کعبہ کی حفاظت سے عبارت تھے۔ ان میں "حلف المطیبین" اور "حلف اللعقہ" جیسے معاہدے مشہور تھے۔
واقعہ مشہور ہے کہ یمن کے قبیلۂ زبید کا ایک شخص اپنا مال لے کر مکہ آیا۔ 'عمرو بن عاص' کے باپ 'عاص بن وائل سہمی' نے اس کا سامان خرید لیا، لیکن قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ یمنی شخص نے قریش سے فریاد کی، اور کہا کہ اس حق لینے میں اس کی مدد کریں، مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی، کیونکہ وہ [یمنی شخص] ان کا ہم قبیلہ نہیں تھا۔ چنانچہ اپنا حق مانگنے اور احتجاج کرنے کے لئے مسجد الحرام کے قریب کوہ ابو قبیس پر چڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کوہِ ابوقبیس پر چڑھ کر بآواز بلند اپنا حق مانگا۔ اس واقعے کے بعد کچھ لوگوں نے اکٹھے ہو کر "حلف الفضول" نامی معاہدہ منعقد کیا؛ جس میں طے پایا کہ اگر کسی مقامی یا غیر مقامی شخص پر مکہ میں ظلم ہؤا، تو وہ اس کی مدد کریں گے، تاکہ وہ اپنا حق ظالم سے واپس لے، ظالم کو ظلم سے باز رکھیں گے، برائیوں سے منع کریں گے اور مال و معاش کے ذریعے محتاجوں کی مدد کریں گے۔
یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نبوت سے 20 سال پہلے کا ہے، جب نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عمر مبارک صرف 20 سال تھی اور آپ(ص) نے مظلوموں کے دفاع کے لئے اس معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی۔ یعنی آپ(ص) نے زمانۂ جاہلیت میں بھی مظلوموں کی حمایت کی۔ اسلام میں "بے حسی" (Apathy) کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لوگوں کو ظالم اور مظلوم کے معاملے میں "رائے دَہی سے گریز" (Abstention اور "غیر جانبدار" رہنے) کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ غیر جانبداری درحقیقت بے حسی ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں پوری انسانیت سے مخاطِب ہوکر فرمایا:
"كُونَا لِلظّالِمِ خَصْما وَ لِلْمَظْلومِ عَوْنا"؛ یعنی مظلوم کی مدد کی فکر کرو۔
آج پوری انسانیت کا مشترکہ نعرہ "غزہ" ہے
انسانی معاشروں کا بے حسی سے نکلنے اور "رائے دہی سے گریز" (Abstention) کی پالیسی ترک کرنے کا مصداق اور انسانیت کا تقاضا بےگناہ انسانوں کی حمایت اور ان کی فکر کرنا ہے۔
جیسا کہ اسلامی مصادر اور غُرَرُالحِکَم میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"اَحْسَنُ الْعَدْلِ نُصْرَةُ الْمَظْلُومِ"، یعنی بہتر عدل و انصاف مظلوم کی مدد کرنا ہے۔۔ آج پورے انسانی معاشروں کا مشترکہ نعرہ "غزہ" ہے۔ [غررالحكم، ج2، ص 394، ح 2977]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ