اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک ، توحید کے ساتھ ساتھ
"وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا * وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا؛ [1]
اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم نافذ کیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی بندگی اور عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اگر تمہارے پاس بڑی عمر کو پہنچا ان میں سے ایک یا وہ دونوں تو ان سے اُف بھی نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکی دو اور ان سے نرمی سے [محترمانہ] بات کرو * اور ان دونوں کے لئے اپنے بازوؤں کو عاجزی کے ساتھ بچھائے رکھو، اور کہا کرو 'اے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی"۔
والدین پر رحمت کی ایک ایک نظر ڈالنے کا خدائی صلہ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حِجَّةٌ مَبْرُورَةٌ؛ قَالُوا يَا رَسُولَ اَللَّهِ! وَإِنْ نَظَرَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَأَطْيَبُ؛ [2]
کوئی بھی نیک بیٹا ـ جو اپنے والدین پر شفقت و رحمت بھری نگاہ ڈالتا ہے ـ ایسا نہیں ہے جس کے لئے ہر بار نظر ڈالنے پر ایک حج قبول نہ لکھا جاتا ہو؛ پوچھا گیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اگر وہ ہر روز 1000 مرتبہ والدین پر رحمت بھری نگاہ ڈالے تو بھی ہر نگاہ کے بدلے ایک حج قبول لکھا جائے، گا؟ فرمایا: ہاں! سب سے بڑا اور بہترین ہے"۔
آیت کریمہ کی تفسیرامام جعفر صادق (علیہ السلام) کے الفاظ میں
"عَنْ أَبِي وَلَّادِ الْحَنَّاطِ قال سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ 'وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا' [3] فَقَالَ: الْإِحْسَانُ أَنْ تُحْسِنَ صُحْبَتَهُمَا، وَلَا تُكَلِّفَهُمَا أَنْ يَسْأَلَاكَ شَيْئاً مِمَّا يَحْتَاجَانِ إِلَيْهِ وَإِنْ كَانَا مُسْتَغْنِيَيْنِ، أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ 'لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ'۔ [4] ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: وَأَمَّا قَوْلُهُ: 'إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ' [5] قَالَ: إِنْ أَضْجَرَاكَ فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ، 'وَلَا تَنْهَرْهُمَا' إِنْ ضَرَبَاكَ، قَالَ: ''وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا' قَالَ: يَقُولُ لَهُمَا: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمَا. فَذَلِكَ مِنْكَ قَوْلُ كَرِيمُ، وَقَالَ 'وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ'؛ قَالَ لَا تَمْلَأَ عَيْنَيْكَ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِمَا إِلَّا بِرَحْمَةٍ وَرِقَّةٍ وَلَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ فَوْقَ أَصْوَاتِهِمَا وَلَا يَدَيْكَ فَوْقَ أَيْدِيهِمَا وَلَا تَتَقَدَّمْ قُدَّامَهُمَا؛ [6]
ابو ولّاد الحنّاط [حفص بن سالم الکوفی] کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ارشاد رب متعال 'وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا' کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیکی سے معاشرت کرو اور اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ان کو اس مشقت میں نہ پڑنے دو کہ اپنی ضرورت کی چیز تم سے مانگیں، [اور ان کے کہنے سے پہلے ہی انہیں فراہم کر دو] خواہ وہ بے نیاز [اور امیر] ہی کیوں نہ ہوں؛ کیا اللہ نے نہیں فرمایا کہ 'ہرگز تم بھلائی کا درجہ حاصل نہیں کرو گے جب تک کہ خیرات نہ کرو اس میں سے جو تمہیں پسند ہے'؛ پھر امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ جو ارشاد ہؤا ہے کہ 'اگر تمہارے پاس بڑی عمر کو پہنچا ان میں سے ایک یا وہ دونوں تو ان سے اُف بھی نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکی دو' یعنی اگر انہوں نے تمہیں تنگ اور پریشان کیا تو ان سے اف تک نہ کہو، اور اگر انہوں نے تمہیں مارا پیٹا تو ان سے تندی سے پیش نہ آؤ اور جھڑکی نہ دو؛ اور فرمایا: یہ جو ارشاد ہؤا ہے کہ 'اور ان سے نرمی سے [محترمانہ] بات کرو' تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تمہیں ماریں پیٹیں تو ان سے کہہ دو: "اللہ تعالی تمہیں بخش دے"، یہ ہے تمہاری محترمانہ بات۔ فرمایا: یہ جو ارشاد ہؤا ہے: 'اور ان دونوں کے لئے اپنے بازوؤں کو عاجزی کے ساتھ بچھائے رکھو'، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف گھور کر نظرِ تند سے مت دیکھو، بلکہ مہربانی اور محبت سے ان کی طرف دیکھا کرو اور اپنی صدا ان کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر نہ رکھو، اور [راہ چلتے ہوئے] ان سے قدم آگے نہ بڑھاؤ"۔
والدین کی خوشنودی اللہ کی خوشنودی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
"رِضَا اللّهِ مَعَ رِضَا اَلْوَالِدَيْنِ وَسَخَطُ اللّهِ مَعَ سَخَطِ اَلْوَالِدَيْنِ؛ [7]
اللہ کی رضا والد کی رضا میں پوشیدہ ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں پوشیدہ ہے"۔
والدین کو خوش کرو لمبی عمر پاؤ
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ يَزِيْدَ اللهُ فِي عُمُرِكَ فَسُرَّ أَبَوَيك، وَقَالَ: الْبِرُّ يَزِيْدُ فِي الرِّزْقِ؛ [8]
اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمہاری عمر میں اضافہ کرے تو ماں باپ کو خوش کرو (رکھو)؛ نیز آپؑ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق میں اضافے کا سبب بنتا ہے"۔
والدین کے ساتھ نیکی کرو، بچے تمہارے ساتھ نیکی کریں گے
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"بَرُّوا آبَاءَكُمْ يَبَرَّكُمْ أَبْنَاؤُكُمْ وَعِفُّوا عَنْ نِسَاءِ اَلنَّاسِ تَعِفَّ نِسَاؤُكُمْ؛ [9]
اپنے باپوں کے ساتھ نیکی کرو، تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ نیکی کریں گے؛ اور لوگوں کی عورتوں کے ساتھ پاکدامن رہو، تمہاری عورتیں بھی پاکدامنی اختیار کریں گی"۔
اللہ کی خوشنودی کا قریب ترین راستہ / والدین کے احترام کی ایک شرط
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"بِرُّ الْوَالِدَيْنِ مِنْ حُسْنِ مَعْرِفَةِ الْعَبْدِ بِاللَّهِ إِذْ لَا عِبَادَةَ أَسْرَعُ بُلُوغاً بِصَاحِبِهَا إِلَى رِضَى اللَّهِ مِنْ حُرْمَةِ الْوَالِدَيْنِ الْمُسْلِمَيْنِ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى لِأَنَّ حَقَّ الْوَالِدَيْنِ مُشْتَقُّ مِنْ حَقِّ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا كَانَا عَلَى مِنْهَاجِ الدِّينِ وَالسُّنَّةِ وَلا يَكُونَانِ يَمْنَعانِ الْوَلَدَ مِنْ طاعَةِ اللّه ِ تَعَالَى اِلَى مَعْصيَتِهِ؛ [10]
والدین کے ساتھ نیکی کرنا، بندے کی طرف سے اللہ کی اچھی معرفت کا نتیجہ ہے؛ کیونکہ کوئی بھی عبادت ایسی نہیں ہے جو مسلمان ماں باپ کے احترام سے زیادہ تیزی سے، احترام کرنے والے کو اللہ کی خوشنودی سے فیضیاب کرے؛ کیونکہ والدین کا حق اللہ کے حق سے مشتق ہے [اور والدین کے حق کا سرچشمہ حق اللہ ہے] اور البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ والدین خدا کے دین اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سنت پر ہوں، اور اولاد کو اللہ کی اطاعت سے منع نہ کریں اور اللہ کی نافرمانی پر مجبور نہ کریں"۔
والدین کی نافرمانی اور انہیں اذیت دینا کبائر [بدترین گناہوں] میں سے ہے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ آلہ) نے فرمایا:
"خَمْسٌ مِنَ اَلْكَبَائِرِ اَلْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ اَلْوَالِدَيْنِ وَاَلْفِرَارُ مِنَ اَلزَّحْفِ وَقَتْلُ اَلنَّفْسِ بِغَيْرِ اَلْحَقِّ وَاَلْيَمِينُ اَلْفَاجِرَةُ تَدَعُ اَلدِّيَارَ بَلاَقِعَ؛ [11]
گناہان کبیرہ میں سے پانچ گناہ "اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا"، "جنگ سے فرار ہونا"، "کسی کو ناحق قتل کرنا" اور جھوٹی قسم کھانا"، وہ ہیں جو گھروں اور سرزمینوں کو اجاڑ دیتے ہیں"۔
کبائر میں سب سے بڑے گناہ
أبو بکرہ نفیع الحارث (یا نفیع بن المسروح] روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"أَلا أُنَبِّئُكُمْ بأَكْبَرِ الكَبائِرِ قُلْنا: بَلَى يا رَسولَ اللَّهِ، قالَ: الإشْراكُ باللَّهِ، وعُقُوقُ الوالِدَيْنِ، وكانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فقالَ: ألا وقَوْلُ الزُّورِ، وشَهادَةُ الزُّورِ۔۔۔؛ [12]
کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہان کبیرہ سے آگاہ نہ کر دوں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹہرانا اور والدین کی نافرمانی؛ راوی کہتے ہیں: آنحضرتؐ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو بیٹھ گئے اور فرمایا: اور جان لو کہ کبائر میں سے ایک بہت بڑا گناہ جھوٹ ہے اور جھوٹی گواہی ہے۔۔۔"۔
والدین کی ناراضگی کا نتیجہ
ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خبر دی گئی کہ مدینہ میں ایک مسلم نوجوان کچھ عرصے سے بستر مرگ پر پڑا ہے اور اس کی جان کنی سخت ہوگئی ہے۔ آنحضرتؐ اس شخص کے سرہانے پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: "کہہ دو: لا الہ الا اللہ"، مگر وہ نوجوان بولنے سے قاصر تھا۔ آنحضرتؐ نے چند مرتبہ اس کو کلمۂ "لا الہ الا اللہ" کی تلقین کی مگر وہ بے بس تھا۔
نوجوان کے بستر کے قریب ایک خاتون حاضر تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: کیا اس نوجوان کی ماں ہے؟ خاتون نے جواب دیا: "میں اس کی ماں ہوں"؛ فرمایا: "کیا اس سے راضی ہو؟" عرض کیا: "نہیں بلکہ میں اس سے سخت ناراض اور غضبناک ہوں"۔ آنحضرتؐ نے خاتون سے فرمایا: "میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے راضی ہوجاؤ"۔ ماں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شفاعت قبول کر دی اور عرض کیا: "میں آپ کی حرمت کی خاطر، میں آپ سے راضی ہوئی، خدا بھی اس سے راضی ہو"۔
بعدازاں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نوجوان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "کہہ دو: لا الہ الا اللہ"؛ تو نوجوان نے فوری طور پر کلمۂ "لا الہ الا اللہ" زبان پر جاری کیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: "بتاؤ اس وقت کیا دیکھ رہے ہو؟"، نوجوان نے عرض کیا: "ایک سیاہ چہرے والا شخص، جس نے گندے اور بدبو کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اس وقت میرے ساتھ ہے اور میرا گلا سختی سے دبا رہا ہے"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ) نے نوجوان کو تلقین فرمائی کہ یہ دعا پڑھ لے:
"يَا مَنْ يَقْبَلُ الْيَسِيرَ وَ يَعْفُو عَنِ الْكَثِيرِ اقْبَلْ مِنِّي الْيَسِيرَ وَ اعْفُ عَنِّي الْكَثِيرَ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ؛ [13]
اے وہ جو تھوڑے سے عمل کو اپنے بندوں سے قبول فرماتا ہے اور بہت سارے گناہوں سے درگذر فرماتا ہے، مجھ سے میرا مختصر سا عمل قبول فرما اور میرے کثیر گناہوں کو بخش دے، یقینا تو بہت زیادہ بخشنے والا، بہت بڑا مہربان ہے"۔
جب نوجوان نے یہ دعا پڑھ لی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "دیکھ رہے ہو؟"، بولا: "ایک سفید چہرے والے معطر مرد میرے پاس آیا اور اس کے آتے ہی وہ سیاہ چہرے والا شخص چلا گیا۔
آنحضرتؐ نے فرمایا: "وہ دعا دوبارہ پڑھو"۔ جب نوجوان نے دعا دہرائی تو روح اس کے بدن سے رخصت ہوئی؛ اور یوں ایک گنہگار مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی برکت سے سعادتمند ہو گیا"۔ [14]
اگر تمہیں ماریں پیٹیں تو کہہ دو اللہ تمہیں بخش دے!
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
'''وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا' قَالَ: يَقُولُ لَهُمَا: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمَا؛ [15]
'اور ان سے نرمی سے [محترمانہ] بات کرو' تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تمہیں ماریں پیٹیں تو ان سے کہہ دو: "اللہ تعالی تمہیں بخش دے"
والدین کی وفات کے بعد ان کی رضامندی حاصل کرنے کے طریقے
امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:
"إِنَّ اَلْعَبْدَ لَيَكُونُ بَارّاً بِوَالِدَيْهِ فِي حَيَاتِهِمَا ثُمَّ يَمُوتَانِ فَلاَ يَقْضِي عَنْهُمَا اَلدَّيْنَ وَلاَ يَسْتَغْفِرُ لَهُمَا فَيَكْتُبُهُ اَللَّهُ عَاقّاً وَإِنَّهُ لَيَكُونُ فِي حَيَاتِهِمَا غَيْرَ بَارٍّ بِهِمَا فَإِذَا مَاتَا قَضَى عَنْهُمَا اَلدَّيْنَ وَاِسْتَغْفَرَ لَهُمَا فَيَكْتُبُهُ اَللَّهُ بَارّاً؛ [16]
یقینا اگر ایک بندہ اپنے والدین کی حیات میں ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرے، لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو یہ ان کا قرض ادا نہ کرے اور ان کے لئے طلب مغفرت نہ کرے، تو اللہ تعالی اس کو عاق اور نافرمان لکھ دیتا ہے اور اگر ایک بندہ والدین کی زندگی میں عاق اور نافرمان ہو لیکن ان کی موت کے بعد ان کا قرض ادا کرے اور ان کے لئے استغفار کیا کرے تو اللہ تعالی اس کو نیک [فرزند] لکھ دیتا ہے"۔
وفات کے بعد والدین کے دعا کرنا اور ان کی طرف سے صدقہ دینا
معمر بن خلاد کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن الرضا (علیہ السلام) سے عرض کیا:
"أَدْعُو لِوَالِدَيَّ إِذَا كَانَا لَا يَعْرِفَانِ الْحَقَّ ؟ قَالَ : ادْعُ لَهُمْ وَتَصَدَّقْ عَنْهُمَا، وَإِنْ كَانَا حَيَّيْنِ لَا يَعْرِفَانِ الْحَقَّ فَدَارِهِمَا؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَالِهِ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي بِالرَّحْمَةِ لَا بِالْعُقُوقِ؛ [17]
کیا میں اپنے والدین کے لئے دعا کروں خواہ وہ حق کی معرفت نہ بھی رکھتے ہوں؟ فرمایا: ان کے لئے دعا کرو اور ان کی طرف سے صدقہ دے دو؛ اور اگر وہ زندہ ہیں اور حق کو نہیں پہچانتے تو بھی ان کے ساتھ رواداری اختیار کرو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے: یقینا خدا نے مجھے رحمت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے نہ کہ نافرمانی کے ساتھ"۔
"عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِى جَعْفَرٍ عَلَيهِ السَّلَامُ: هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا فِى خَصْلَتَيْنِ يَكُونُ الْوَالِدُ مَمْلُوكاً فَيَشْتَرِيهِ ابْنُهُ فَيُعْتِقُهُ أَوْ يَكُونُ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيهِ عَنْهُ؛ [18]
حنان بن سَدِير[بن حُکَیم بن صُہَیب اَلصَّیرفی] اپنے والد [سدیر] سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا: کیا بیٹا اپنے والد کو انعام اور پاداش دے سکتا ہے؟ فرمایا: دو امور کے سوا بیٹے کے لئے ایسی کوئی صورت نہیں ہے کہ باپ کو جزا دے: ایک وہ صورت کہ باپ کسی کا مملوک [زر خرید غلام] ہو اور وہ [بیٹا] اسے خرید کر آزاد کر دے، یا باپ مقروض ہو اور وہ [بیٹا] اس کا قرض ادا کر دے"۔
ان کے لئے دعا کرتے رہنا، اس کی مغفرت کی دعا کرتے رہنا؛ کوشش کیجئے کہ ہر نماز کے بعد والدین کے حق میں دعا کریں اور کہہ دیں:
قرآن کا حکم والدین کی حیات و ممات کے لئے / والدین کے لئے قرآنی دعائیں
"رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ؛ [19]
ہمارے پروردگار مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو اس دن کہ جب حساب قائم ہو گا"۔
"رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا؛ [20]
اے پروردگار! ان دو [والدین] پر رحم فرما جس طرح کہ اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا"۔
"رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا؛ [21]
اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مؤمن بن کر، داخل ہوا ہے، اور سب مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں کو بخش دے [اور معاف فرما دے]، اور ظالموں کے حق میں ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر"۔
والدین کے ساتھ نیکی اللہ کے کے نزدیک بہترین اعمال میں سے ایک
"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجِلَ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا؛ قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ شيْءٍ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ؛ قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ شيْءٍ؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔۔۔؛ [22]
عبداللہ بن مسعود سے کہتے ہیں، میں نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھا: اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین عمل کونسا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: بروقت نماز پڑھنا؛ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کونسا عمل؟ فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا؛ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کونسا عمل؟ فرمایا: اللہ عزّ و جلّ کی راہ میں جہاد۔۔۔"۔
مستحب اعمال انجام دینا اور ان کا ثواب والدین کو ہدیہ دینا
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَا يَمْنَعُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ أَنْ يَبَرَّ وَالِدَيْهِ حَيَّيْنِ وَمَيِّتَيْنِ يُصَلِّيَ عَنْهُمَا وَيَتَصَدَّقَ عَنْهُمَا وَيَحُجَّ عَنْهُمَا وَيَصُومَ عَنْهُمَا فَيَكُونَ الَّذِى صَنَعَ لَهُمَا وَلَهُ مِثْلُ ذَلِكَ فَيَزِيدَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبِرِّهِ وَصِلَتِهِ خَيْراً كَثِيراً؛ [23]
کونسی چیز رکاوٹ حائل ہے تم میں سے ایک آدمی کی راہ میں، کہ وہ والدین کے ساتھ نیکی کرے خواہ وہ زندہ ہوں خواہ دنیا سے رخصت ہوئے ہوں، اور ان کی طرف سے نماز پڑھے، ان کی طرف سے صدقہ دے، ان کی طرف سے حج بجا لائے، اور ان کی طرف سے روزہ رکھے، تو اس جو کچھ وہ کرتا ہے اس کا ثواب اس کے والدین کے لئے ہو، اور اس کے لئے بھی اتنا ہی ثواب ہو؛ چنانچہ خداوند متعال اس احسان اور صلہ رحمی کا ثواب اس کے لئے بہت زیادہ بڑھا دے اور اس کو خیر کثیر عطا کرے"۔
معاشرے میں اس طرح سے رہنا کہ لوگ آپ کو نیک نامی سے یاد کریں، نیک کاموں میں پھیل کریں، نیک اعمال بجا لائیں اور لوگوں کے ساتھ اچھے کردار اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں؛ تاکہ آپ کی اچھائیاں دیکھ کر لوگ کہہ دیں کہ "خدا اس کے والدین پر رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایسے فرزند کی پرورش کی ہے؛ اور خدا نخواستہ ایسا ایسا عمل نہ کرنا کہ لوگ آپ کے والدین کو برا بھلا کہیں:
"عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ ؟ قَالَ: لَا يُسَمِّيهِ بإسمه ، وَلَا يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا يَجْلِسُ قَبْلَهُ وَلَا يَسْتَسِبُّ لَهُ؛ [24]
امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھا: والد کا بیٹے کا کیا حق ہے؟ فرمایا: باپ کو نام سے نہ پکارے، اس سے آگے آگے نہ چلے، اس سے پہلے نہ بیٹھے، اور ایسا کوئی عمل انجام نہ دے کہ دوسرے اس [باپ] کو گالی دے"۔
آپ احادیث کے مضمون کے مطابق عمل کریں گے تو مطمئن رہیں کہ آپ کے والدین کی روح آپ سے خوشنود ہوگی اور آپ نے والدین سے جو بے رخیاں اور غفلتیں برتی ہیں ان کی تلافی ہو جائے گی۔ کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اور ہمیشہ اپنے نقائص کے ازالے کی کوشش کیجئے۔ ارشاد ربانی ہے:
"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ؛ [25]
کہہ دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت ہے ناامید نہ ہو"۔
والدین کے ساتھ احسان انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) کی صفت
خدائے متعال حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تعارف کراتا ہے:
"وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا * وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا؛ [26]
اور [ہم نے یحییٰ (علیہ السلام) کو] مہر و محبت اور نیک نامی اپنی طرف سے [عطا کی] اور وہ پرہیز گار تھے * اور اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے [تھے] اور وہ نافرمان اور سرکش نہیں تھے"۔
روایت ہے کہ "حضرت حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاس آئیں اور قحط اور مویشیوں کے تلف ہونے کا شکوہ کیا تو آنحضرتؐ نے سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو بتایا اور انھوں نے بڑی تعداد میں بھیڑ بکریاں اور اونٹ بطور تحفہ انہیں عطا کئے؛ اور جب مدینہ میں وہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپؐ نے ان کے لئے ردا بچھائی اور "میری ماں میرں ماں" کہہ کر ان کی تکریم فرمائی"۔ [27]
والدین ائمہ (علیہم السلام) کے ہاں
مروی ہے کہ امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) کے ساتھ ایک برتن میں کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ کہا گیا: اے فرزند رسولؐ! آپ لوگوں میں سے بہترین ہیں اور سب سے زیادہ اقرباء کا حق ادا کرنے والے ہیں، تو آپ ماں کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ فرمایا:
"إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ تَسْبِقَ يَدِي إِلَى مَا سَبَقَتْ عَيْنُهَا إِلَيْهِ؛ [28]
یقینا میں ناپسند کرتا ہوں کہ میرا ہاتھ ایسی چیز کی طرف بڑھ جائے جس پر مجھ سے پہلے میری ماں کی آنکھ لگی ہوئی ہے"۔
والدین توجہ فرمائیں
والدین کو اس امر کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ خدائے متعال نے قرآن و سنت اور سیرت کے مذکورہ بالا حقائق کی رو سے، توحید کے بعد دوسرا رتبہ والدین کی تکریم و احسان کو عطا کیا ہے چنانچہ انہیں زیادہ تن دہی کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دینا چاہئے اور انہیں توحید کی طرف بلانا چاہئے اور انہیں بے دینی کی راغب نہیں کرنا چاہئے یا راغب نہیں ہونے دینا چاہئے۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہؤا کہ:
1۔ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ احسان، حقیقی یکتاپرستوں کا وصف ہے: "أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
2۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا پیغام توحید کی مانند حتمی، قطعی اور ناقابل منسوخی ہے: "وَقَضَى"۔
3۔ والدین کے ساتھ احسان کا فرمان توحید اور اطاعت الٰہی کے آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واجب عقلی بھی ہے، انسانی فریضہ بھی ہے اور واجب شرعی بھی ہے: "وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
4۔ نئی نسل کو ایمان کے سائے میں سابقہ نسل کے ساتھ مستحکم رشتہ برقرار رکھنا چاہئے: "لَا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
5. والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں ان کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے: "بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
6۔ والدین کے ساتھ نیکی کرتے وقت والد اور والدہ میں کوئی فرق نہيں ہے: "بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
7۔ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کا فریضہ ہمیں بلاواسطہ طور پر خود ہی انجام دینا چاہئے: "بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
8۔ احسان، انفاق (اور خیرات) سے برتر و بالاتر ہے جس میں محبت، ادب، تعلیم و تربیت، مشاورت، اطاعت، شکر، خیال رکھنا اور دیکھ بھال کرنا وغیرہ شامل ہیں: "بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"۔
9۔ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے: "بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"، نہ فقیر کی طرح کہ اس کا پیٹ بھرنے تک، نہ جہاد کی طرح جس کو فتنے کے ازالے تک اور نہ ہی روزے کی طرح جس کو افطار تک، جاری رکھنا چاہئے۔
10۔ احسان کا یہ حکم اولاد پر مرکوز ہے، والدین پر نہیں: "وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"، کیونکہ والدین کو بچوں پر احسان کرنے کے بارے میں کسی حکم و ہدایت کی ضرورت نہیں ہے اور وہ فطری طور پر اپنے بچوں پر احسان کرتے ہیں۔
11۔ والدین کی جسمانی اور روحانی ضرورت جتنی زیادہ ہوگی ان پر احسان کرنا اتنا ہی زیادہ ضروری ہے: "يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ"۔
12۔ بوڑھے والدین کو تیمار خانے تیمار خانہ (Nursing-home) کے سپرد نہ کریں، بلکہ اپنے پاس رکھیں: "عِنْدَكَ؛ اپنے پاس"۔
13۔ احسان بھی لازمی ہے اور اچھی اور کریمانہ بات بھی "إِحْسَانًا ۔۔۔ وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا"۔
14۔ والدین کے ساتھ احسان اور قولِ کریم مشروط نہیں ہے یعنی یہ کہ حتیٰ وہ آپ سے کریمانہ سلوک نہ کریں بھی تو تم کریمانہ انداز سے ان سے بات کرو۔
15۔ بے شک احسان کرنا فرض ہے اور احسان جتانا حرام ہے، فرزند جس پوزیشن میں بھی ہو، والدین کے ساتھ اس کو خاکسار اور متواضع ہونا چاہئے، اور اسے اپنے کمالات، اپنی سماجی یا سرکاری منصب اور عہد اور عزت و شہرت اپنی [مزعوم] بڑائی کا خیال نہیں کرنا چاہئے، اور اور فخر و تکبر یا طَمطراق دِکھانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے والدین والدین ہیں چاہئے آپ جو بھی ہوں: "وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ؛ اور ان دونوں کے لئے اپنے بازوؤں کو عاجزی کے ساتھ بچھائے رکھو"۔
16۔ والدین کے سامنے خاکساری اور تواضع مہر و محبت کی رو سے، ہونا چاہئے یعنی ظاہری اور بناوٹی نہیں ہونا چاہئے "وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ"۔
17۔ اولاد کو والدین کے سامنے خاکسار اور متواضع بھی ہونا چاہئے اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے: "وَاخْفِضْ ۔۔۔ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا"۔
18۔ والدین کی دعا والدین کے لئے مستجاب اور قبول ہے، ورنہ خدائے متعال فرمان جاری نہ کرتا کہ: "وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا"۔
19۔ اللہ کا فرمان ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر گزار رہنا "وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ ۔۔۔ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ"، اور ماں باپ کو دعا دینا اللہ کا فرمان اور والدین کی شکرگزاری ہے: "وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا"۔
20۔ اللہ کی رحمت یہ ہے کہ والدین کی تربیتی زحمتوں کی تلافی ہو: "وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي؛ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے میری پرورش کی تھی"؛، گویا کہ اللہ تعالیٰ فرزند سے ارشاد کر رہا ہے کہ "تم والدین پر اپنی رحمت و شفقت سے دریغ نہ کرنا، اور اللہ سے بھی مدد مانگنا کیونکہ ان کا حق ادا کرنے سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں۔
21۔ اپنے ماضی، اپنی طفولت اور ان تلخیوں، مسائل و مشکلات کو ہرگز نہ بھولنا جو آپ بچپن سے نوجوانی، تعلیم و تربیت اور مقام و منصب تک پہنچتے پہنچتے ان پر مسلط کرتے آئے ہیں، اور کہہ دیا کریں: "وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا"۔
22۔ والدین کو بھی محبت کی رو سے اپنے فرزندوں کی پرورش کرنا چاہئے۔ "ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي"۔
23۔ ہر انسان کو اپنی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کرنے والوں کا شکرگزار اور قدردان ہونا چاہئے: ۔ "ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي"۔
قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیت 83، سورہ نساء کی آیت 36، سورہ انعام کی آیت 151 اور سورہ اسراء (یا سورہ بنی اسرائیل) کی آیت 23 میں والدین کے ساتھ احسان کی تلقین ہوئی ہے لیکن سورہ لقمان کی آیت 14 میں والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کا فرمان الٰہی وصیبت و تلقین کی صورت میں آیا ہے:
"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ؛ [29]
اور ہم نے انسانوں کو اس کے ماں باپ کے بارے میں ہدایت کی جس کو اس کی ماں نے بزمانہ حمل اٹھایا دہری دہری تکلیفوں کے ساتھ اور دو برس میں اس کی دودھ بڑھائی ہوئی کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر گزار رہنا، میری ہی طرف تو آخر میں پلٹنا ہے"۔
جی ہاں والدین پر احسان نہ صرف اسلامی حقوق میں سے بلکہ انسانی حقوق میں سے ہے، یہ مستقل اور دائمی حق ہے، اور وقتی یا موسمی حق نہیں ہے۔
سطور بالا میں بیان ہؤا کہ والدین خواہ زندہ ہوں خواہ دنیا سے رخصت ہوئے ہوں، اچھے ہوں یا برے، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا واجب ہے۔
جو والدین کے ساتھ نیکی روا رکھے وہ زیادہ لائق احترام ہے:
"عَنْ عَمَّارِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ: خَبَّرْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِبِرِّ إِسْمَاعِيلَ ابْنِي بِي، فَقَالَ: لَقَدْ كُنْتَ أُحِبُّهُ وَقَدْ ازْدَدْتُ لَهُ حُبّاً، إِنَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ أَتَتْهُ أُخْتُ لَهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا سُرَّ بِهَا وَبَسَطَ مِلْحَفَتَهُ لَهَا فَأَجْلَسَهَا عَلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يُحَدِّثُهَا وَيَضْحَكُ فِي وَجْهِهَا، ثُمَّ قَامَتْ وَذَهَبَتْ وِجَاءُ أَخُوهَا، فَلَمْ يَصْنَعْ بِهِ مَا صَنَعَ بِهَا، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَنَعْتَ بِأُخْتِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ بِهِ وَهُوَ رَجُلُ؟! فَقَالَ: لِأنَّهَا كَانَتْ أَبَرَّ بِوَالِدَيْهَا مِنْهُ؛ [30]
عمار بن حیان کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو خبر دی کہ میرا بیٹا اسماعیل میرے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھتا ہے؛ تو آپؑ نے فرمایا: میں بھی اس کو دوست رکھتا تھا اور اب اس کے تئیں میری محبت بڑھ گئی؛ اور فرمایا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رضاعی بہن آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپؐ نے انہیں دیکھا تو بہت خوش ہوئے، اور اپنا رومال ان کے لئے بچھایا اور انہیں اس پر بٹھایا، اور ان کی طرف رخ کیا اور ان سے بات چیت کرتے رہے اور تبسم فرماتے رہے، یہاں تک کہ وہ اٹھ کر چلی گئیں۔ بعدازاں ان کا بھائی آیا تو آپؐ نے وہ سلوک اس کے ساتھ روا نہیں رکھا جو اس کی بہن کے ساتھ روا رکھا تھا۔ کہا گیا: آپ نے اس کی بہن سے جو سلوک کیا ان کے بھائی کے ساتھ روا نہیں رکھا حالانکہ یہ مرد بھی ہے!! تو آپؐ نے فرمایا: وجہ یہ ہے کہ وہ بہن اپنے والدین کے ساتھ ـ بھائی سے زیادہ ـ حسن سلوک روا رکھتی تھیں"۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) دونوں اللہ کی طرف سے ماں باپ کا احترام کرنے پر مامور تھے:
"وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا؛ [31]
اور [یحییٰ (علیہ السلام)] اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے [تھے] اور وہ نافرمان اور سرکش نہیں تھے"۔
"وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا؛ [32]
اور میں [عیسیٰ] اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک رکھنے والا [ہوں] اور مجھے اس نے بدنصیب [اور] سرکش نہیں بنایا ہے"۔
اول وقت نماز کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے بہتر کوئی عمل نہیں
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھا کہ اللہ کے ہاں سب سے برتر عمل کون سا ہے تو آپؐ نے فرمایا:
"الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا؛ قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ شيْءٍ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ۔۔۔؛ [33]
بروقت نماز پڑھنا؛ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کونسا عمل؟ فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
"اَفْضَلُ الْأَعْمالِ اَلصَّلاةُ لِوَقْتِها، وَبِرُّ الْوالِدَینِ وَالْجِهادُ فِی سَبیلِ اللّهِ؛ [34]
بہترین عمل وقت پر نماز، اور والدین کے ساتھ نیکی اور اللہ کی راہ میں جہاد ہے"۔
وقت پر نماز کے بعد، کوئی بھی عمل والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے بہتر نہیں ہے:
والدین کے معنی
اسلامی فرہنگ میں آسمانی پیشوا، استاد، معلم اور مربی، نیز سسر کو بھی باپ کیا جاتا ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) امت کے باپ
"وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ؛ [35]
اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے لئے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں تمہارے لئے کوئی دشواری قرار نہیں دی ہے۔ وہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ ان ہی نے پہلے سے تمہارا نام مسلم رکھا ہے"۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) امت کے باپ
1۔ راغب اصفہانی مادہ "ابا" کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"وَرُوِيَ أَنَّهُ (صلّی اللّه عليه وسلم) قَالَ لِعَلِيٍّ: "أَنَا وَأَنْتَ أَبَوْا هَذِهِ الْأُمَّةُ؛ [36]
اور مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے علی (علیہ السلام) سے فرمایا: 'میں اور آپ اس امت کے باپ ہیں"۔
2۔ فیروز آبادی اور سمین الحلبی مادہ "أبی" کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"ہر وہ جو کسی شیئے کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح اور ظہور پذیری کا سبب بنے اس کو "اب" (باپ) کہا جاتا ہے:
"وَلِذَلِكَ سَمَّى النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا لِلْمُؤْمِنِينَ۔ وَيُرْوَى أَنَّهُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لَعَلِيٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ 'أَنَا وَأَنْتَ أَبَوْا هَذِهِ الْأُمَّةِ'؛ [37]
اسی بنا پر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مؤمنین کے باپ کا نام دیا گیا؛ اور مروی ہے کہ آپؐ نے علی (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "میں اور آپ اس امت کے باپ ہیں"۔
3۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
"أَفْضَلُ وَالِدَيْكُمْ وَأَحَقَّهُمَا لشكركم مُحَمَّدٍ وَعَلَيَّ؛ [38]
تمہارے بہترین باپ اور تمہاری شکرگزاری کے سب سے زیادہ حقدار محمد و علی (صلی اللہ علیہما) ہیں"۔
امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو فرماتے ہوئے سنا:
"أَنَا وَعَلِيُّ أَبَوْا هَذِهِ الْأُمَّةُ، وَلَحَقُّنَا عَلَيْهِمْ أَعْظَمُ مِنْ حَقِّ أَبَوَيْ وِلَادَتِهِمْ فَإِنَّا نُنْقِذُهُمْ إِنْ أَطَاعُونَا مِنَ النَّارِ إِلَى دَارِ الْقَرَارِ، وَنُلْحِقُهُمْ مِنَ الْعُبُودِيَّةِ بِخِيَارِ الْأَحْرَارِ؛ [39]
میں اور علی اس امت کے دو باپ ہیں، اور امتیوں پر ہمارا حق ان کے والدین سے زیادہ کہیں زیادہ ہے کیونکہ اگر وہ ہماری اطاعت کریں تو ہم انہیں جہنم کی آگ سے نجات دلاتے ہیں اور جنت الفردوس میں روانہ کرتے ہیں، اور انہیں غلامی سے نکال کر بہترین احرار میں شامل کرتے ہیں"۔
4۔ سیدہ فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہما) فرماتی ہیں:
"اَبَوا هذِهِ الْأُمَّةِ مُحَمَّدٌ وَعَلِىٌّ يُقِيمَانِ أَوَدَهُمْ وَيُنْقِذانِهِمْ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ اِنْ اَطاعُوهُما وَيُبِيحَانِهِمُ النَّعيمَ الدّائِمَ إِنْ وَافَقُوهُمَا؛ [40]
اس امت کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ہیں، جو ان کی کجیوں [اور ٹیڑھے پن] کو سیدھا کرتے ہیں اور انہیں دائمی عذاب سے بچاتے ہیں بشرطیکہ ان کی اطاعت کریں، اور انہیں دائمی نعمتوں سے نوازتے ہیں بشرطیکہ ان کی بات مانیں"۔
5۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے آخری کلمات
"اصبغ بن نباتہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں:
"امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ابن ملجم مرادی (لعنۃ اللہ علیہ) کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو میں آپؑ کی عمر کی آخری گھڑیوں میں اپنے مولا کی عیادت کو گیا۔ آنحضرتؑ نے مجھ سے فرمایا:
اے اصبغ! بیٹھو اور ایک حدیث مجھ سے سنو، کیونکہ آج کے بعد مجھ سے کوئی بات نہیں سنو گے۔ جان لو اے اصبغ! جس طرح آج تم میری عیادت کو آئے ہو میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عیادت کے لئے گیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے فرمایا:
اے اباالحسن! اٹھو اور لوگوں سے کہہ دو کہ نماز باجماعت کے لئے مسجد میں حاضر ہوجاؤ، اور پھر منبر پر جاؤ اور میرے مقام سے ایک زینہ، نیچے، بیٹھو اور لوگوں سے کہہ دو:
"أَلاَ مَنْ عَقَّ وَالِدَيْهِ فَلَعْنَةُ اَللَّهِ عَلَيْهِ، أَلاَ مَنْ أَبَقَ مِنْ مَوَالِيهِ فَلَعْنَةُ اَللَّهِ عَلَيْهِ، أَلاَ مَنْ ظَلَمَ أَجِيراً أُجْرَتَهُ فَلَعْنَةُ اَللَّهِ عَلَيْهِ؛
خبردار! جس نے والدین کی نافرمانی کی تو اللہ کی لعنت ہے اس پر، خبردار! جو [غلام اور مملوک] اپنے آقاؤں اور مولاؤں (اور مالکوں) سے بھاگا، تو اس پر اللہ کی لعنت نے؛ خبردار! جس نے اجیر کو اس کی اجرت سے محروم رکھا اس پر اللہ کی لعنت ہے"
اے اصبغ! میں نے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم کی تعمیل۔ تو اسی موقع پر مسجد کے ایک گوشے سے ایک شخص اٹھا اور بولا: اے ابا الحسن! آپ کے جملے مختصر تھے، ان کی وضاحت کریں۔ میں نے اس کو جواب نہیں دیا؛ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہؤآ اور جو کچھ اس شخص نے کہا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو کہہ سنایا۔
اصبغ کہتے ہیں: اس موقع پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور فرمایا: اے اصبغ اپنا ہاتھ کھول دو۔
میں نے ہاتھ کھول دیا تو آپؑ نے میری ایک انگلی پکڑی لی اور فرمایا: جس طرح کہ میں نے تمہاری انگلی پکڑ لی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی میری انگلی پکڑ لی اور پھر فرمایا:
یا ابا الحسن! یقینا میں اور آپ اس امت کے دو باپ ہیں، جو بھی ہمارے ساتھ جفا کرے اور ہماری نافرمانی کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو؛
یقینا میں اور آپ اس امت کے مولا و آقا اور سرپرست ہیں، تو جو ہم سے بھاگے اس پر اللہ کی لعنت ہو؛
یقین میں اور اس امت کے اجیر ہیں [اور ان کے لئے کام کرتے رہے ہیں] تو جو ہماری اجرت نہ کر ہم پر ظلم کرے خدا کی لعنت ہو؛
اور پھر فرمایا: آمین۔
اصبغ کہتے ہیں: بعدازاں مولا پر اغماء کی کیفیت طاری ہوئی اور تھوڑی دیر بعد ہوش میں آئے اور فرمایا:
یا اصبغ! ابھی بیٹھے ہو؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں اے میرے مولا!
فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ ایک حدیث اور نقل کروں تمہارے لئے؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں! اللہ اپنی بے انتہا بھلائیوں میں سے آپ کی بھلائیوں میں اضآفہ فرمائے۔
فرمایا: ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مدینہ کی ایک گلی میں مجھ سے ملے۔ میں بہت غمگین اور رنجیدہ تھا، یہاں تک کہ حزن و ملال کے آثار میرے چہرے پر ہویدا تھے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اے ابا الحسن! میں آپ کو غمگین دیکھ رہا ہوں، کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے ایک حدیث بیان کروں تاکہ اس بعد ہرگز غم و حزن سے دوچار نہ ہوں؟
میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)!
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جب قیامت کا دن آن پہنچے گا تو خدائے بزرگ و برتر میرے لئے ایک منبر رکھوائے گا جو انبیاء (علیہ السلام) اور شہداء سے بلند تر ہوگا، اور پھر مجھے حکم دے گا اور میں اس کے اوپر چلا جاؤں اور آپ کو حکم دے گا کہ منبر پر آکر مجھ سے نچلے زینے پر بیٹھا جائیں، اور پھر دو فرشتوں کو حکم دے گا آپ سے نچلے والے زینوں پر بیٹھ جائیں؛ جب ہم اس منبر پر بیٹھ جائیں، تو اولین اور آخرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے گا سوا اس کے تمام کے تمام اس منبر کے آس پاس اکٹھے ہونگے، ۔ آپ سے نیچے بیٹھنے والا ایک فرشتہ چلا چلا کر کہے گا:
اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے، سو جاناتا ہے، اور جو مجھے نہیں جانتا تو میں اپنا تعارف کرا دیتا ہوں۔ میں خازنِ جنَّت ہوں میرا نام رضوان ہے۔ جان لو کہ خداوند متعال نے اپنے کرم و احسان اور جلال و عظمت سے مجھے حکم دیا کہ جنت کی تمام کنجیاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حوالے کر دوں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھے حکم دیا میں وہ کنجیاں علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے کے حوالے کر دوں، چنانچہ تم سب شاہد رہو اور گواہی دو۔
بعدازاں اس سے نیچے والے زینے پر بیٹھا فرشتہ اٹھے گا اور اس طرح سے چلا کر پکارے گا کہ پورا انسانی اجتماع سن لے گا۔ وہ کہے گا:
اے لوگوں جو مجھے جانتا ہے، سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا تو میں اسی وقت اپنا تعارف کراتا ہوں۔ میں خازنِ دوزخ ہوں میرا نام "مالک" ہے۔ اللہ تعالی نے مجھے اپنے احسان و کرم اور فضل و جلال کے ساتھ حکم دیا کہ جہنم کی چابیاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سپرد کروں اور اور آنحضرتؐ نے مجھے فرمان دیا کہ میں انہیں علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے حوالے کر دوں؛ چنانچہ تم سب اس کے شاہد رہو اور اس کی گواہی دو۔ یوں جنت اور دوزخ کی چابیاں میرے سپرد کی جائیں گی۔
یا علی! آپ میرا دامن پکڑیں گے، اور آپ کا خاندان آپ کا دامن پکڑے گا اور آپ کے شیعہ آپ کے خاندان کا دامن پکڑیں گے، چنانچہ میں [خوشی] کی بنا پر دو ہاتھ بجائے، اور عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! ہم [یعنی میں، میرا خاندان اور ہمارے شیعہ] سب جنت جائیں گے؟
اصبغ کہتے ہیں: میں نے اس حال میں صرف یہی دو حدیثیں اپنے مولا سے سن لیں، اور اس کے بعد مولا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی روح مطہر اپنے معبود کی طرف پرواز کر گئی"۔ [41]
ان دو واقعات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنا اور ان کی اطاعت کرنا کا ایک رائج اور عرفی مطلب ہے لیکن اسلامی فرہنگ میں والدین کے معنی وسیع تر ہیں۔
آخری نکتہ:
اگر والدین تمہیں شرک کی تلقین کریں تو ان کی یہ بات مت ماننا
والدین اگر مشرک بھی ہوں تو نیک سلوک کا حکم منسوخ نہیں ہوتا اور قول کریم کا حکم ساقط نہیں ہوتا لیکن اگر تمہیں مشرک بنانا چاہیں تو ان کی بات مت مانو:
"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا؛ [42]
اور ہم نے انسان کو تلقین کی کہ وہ والدین کے ساتھ بھلائی کرے، اور اگر وہ کوشش کریں کہ تم کسی ایسی چیز کو ہمارا شریک ٹہرا دو جس کا تمہیں علم نہیں ہے، تو ان کی بات نہ مانو"۔
**************
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ سورہ اسراء، ایات 23-24۔
[2]۔ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامۃ الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ج2، ص368؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص162۔
[3]۔ سورہ اسراء، آیت 23۔
[4]۔ سورہ آل عمران، آیت 92۔
[5]۔ سورہ اسراء آیت 23۔
[6]۔ العیاشی السمرقندی، محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج2، ص285؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص325؛ البحرانی، السيد ہاشم بن سلیمان الحسینی التوبلانی،البرہان فی تفسیر القرآن، ج2، ص413۔
[7]۔ الفتال النیسابوری، الشيخ العلامۃ الشہید محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، ج2، ص368؛ اہل سنت کے مصادر میں بھی یہ حدیث کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے؛ دیکھئے: "رِضَا اللّهِ فِي رِضَا الوَالِدِ وَسَخَطُ اللّهِ فِي سَخَطِ الوَالِدِ" المنذری الشافعی، الترغیب والترہیب، ج3، ص221؛ سنن الترمذی، ج4، ص311، حاکم النیسابوری، مستدرک علی الصحیحین،ج4،ص168۔
[8]۔ الکوفی الاہوازی، حسین بن سعید، الزہد، (ط سنہ 1399ھ)، ص33؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج71، ص81۔ شیخ حر العاملی (رحمہ اللہ) نے بھی اس حدیث کو کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ، نقل کیا ہے۔ وسائل الشیعہ، (احیاء التراث ـ بیروت)، ج13، ص117۔
[9]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج5، ص554؛ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص21؛ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن حسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلی اللہ علیہم)، ص359۔
[10]۔ مصباح الشریعہ و مفتاح الحقیقہ، منسوب بہ امام جعفر صادق (علیہ السلام)، ص69 و 70؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج 71، ص77، بحوالہ مصباح الشریعہ؛ ؛ العروسی الحویزی، تفسیر نور الثقلین، عبد علی بن جمعہ، ج4، ص202۔
[11]۔ الشعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص84؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص193-194؛ اسی مضمون کی حامل حدیثیں مسند ابن حنبل اور صحیح بخاری میں بھی نقل ہوئی ہیں۔ "ابن حنبل کی منقولہ حدیث کے مطابق، گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے، اور والدین کی نافرمانی یہ ہے کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی دو اور وہ جواب میں تمہارے ماں باپ کو گالی دیں"۔ مسند ابن حنبل، ج11، ص522۔
[12]۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج8، ص8؛ المالکی الاشتری، ورام بن فراس، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النوادر، (المعروف بہ مجموعۃ ورام)، ص18۔
[13]۔ یہ دعا سید بن طاؤس، علی بن موسی بن جعفر الحلی،اقبال الاعمال، ج1، ص175، سمیت ادعیہ کی کتب میں بھی منقول ہے۔
[14]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج1، ص132؛ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الامالی، ص287-288؛ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص65؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار، ص284۔
[15]۔ العیاشی السمرقندی، محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمي، "التفسير" (المعروف بہ تفسیر العیاشی)، ج2، ص285؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص325؛ البحرانی، السيد ہاشم بن سلیمان الحسینی التوبلانی،البرہان فی تفسیر القرآن، ج2، ص413۔
[16]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج2، ص163۔
[17]۔ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج15، ص206۔
[18]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص163؛ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الامالی، ص462۔
[19]۔ سورہ ابراہیم، آیت 41۔
[20]۔ سورہ اسراء، آیت 24۔
[21]۔ سورہ نوح، آیت 28۔
[22]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص163۔
[23]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص159۔
[24]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص158۔
[25]۔ سورہ زمر، آیت 53۔
[26]۔ سورہ مریم، آیات 13-14۔
[27]۔ ابن الجوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم والملوک، ج2، ص270؛ فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضی، ج3، ص186۔
[28]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص518۔
[29]۔ سورہ لقمان، آیت 14۔
[30]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج2، ص161۔
[31]۔ سورہ مریم، آیت 14۔
[32]۔ سورہ مریم، آیت 32۔
[33]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص163۔
[34]۔ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج74، ص85۔
[35]۔ سورہ حج، آیت 78۔
[36]۔ راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، ص57۔
[37]. الفیروزآبادی، مجد الدین محمد بن يعقوب، بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، ج2، ص113؛ السمین الحلبی، أحمد بن یوسف بن عبد الدايم، عمدۃ الحفاظ فی تفسیر اشرف الألفاظ، ص9؛ (قلمی نسخہ جو بنیاد محقق طباطبائی میں "نسخہ م/107" کے تحت محفوظ ہے)۔
[38]، تفسیر امام حسن عسکری (علیہ السلام)، ص330؛ البحرانی، السيد ہاشم بن سلیمان الحسینی التوبلانی،البرہان فی تفسیر القرآن، ج4، ص307۔
[39]۔ تفسیر امام حسین عسکری، (علیہ السلام)، ص330؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص9؛ البحرانی، السيد ہاشم بن سلیمان الحسینی التوبلانی،البرہان فی تفسیر القرآن، ج4، ص307۔۔
[40]۔ تفسیر امام حسن عسکری (علیہ السلام)، وہی صفحہ، البحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج4، ص307۔؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص9
[41]۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الامالی، ص351-352؛ الشيخ الطوسى، محمد بن حسن، الامالى، ص123-124؛ القمی، شاذان بن جبرئیل بن اسماعیل بن ابی طالب، الروضۃ فی فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص133 تا 135؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، محمد باقر بن محمد تقی، ج40، ص44-45؛ ج42، ص204؛ المستنبط، سید احمد بن رضی الموسوی التبریزی، القطرہ، ج2، ص255-256؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج14، ص30۔ یہ حدیث، حدیث کی دوسری کئی کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
[42]۔ سورہ عنکبوت، آیت 8۔
آپ کا تبصرہ