5 اپریل 2025 - 13:28
شکرگزاری کیوں اور کیسے؟

خدائے بزرگ و برتر نے ارشاد فرمایا: اور جب تمہارے پروردگار نے اطلاع دی کہ اگر شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

شکر گزاری

شکر کے معانی

شکر نعمتوں پر ثنا گوئی اور نعمت کا اعتراف ہے جو ایک قسم کی تعظیم کے ہمراہ [1] یا نعمت کا اظہار اور اس کا بیان ہے [2] راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ نعمت کا تصور اور اس کا اظہار ہے اور اس کا متضاد کفر ہے یعنی فراموش کرنا اور چھپانا۔ [3]

خدائے متعال قرآن کریم میں کئی بار مادی اور معنوی نعمتوں کی یاددہانی کے بعد شکر کی ضرورت پر زور دیتا ہے تاکہ سب جان لیں کہ ہر نعمت پر شکر لازمی ہے۔

شکر کی تین قسمیں ہیں: زبانی شکر، قلبی اور دلی شکر، عملی شکر۔ [4]  

ہاں مگر، شکر زیادہ تر "عمل" کے زمرے میں آتا ہے اور شاید اسی بنا پر قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ بہت کم بندے اللہ کے حقیقی شکر گزار ہیں۔

بہرحال، شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اسی راہ میں صرف کیا جائے جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔

احسان کرنے والے اور نعمت دینے والے کی شکر گزاری عقلی تقاضا ہے اور ہر عقلمند انسان شکر گزاری کو ضروری سمجھتا ہے۔

خدائے متعال بھی بندوں کو حکم دیتا ہے کہ نعمتوں پر شکر ادا کریں اور پھر شکر کرنے والے بندوں کی تعریف بھی کرتا ہے اور ناشکرے بندوں کی سرزنش کرتا ہے؛ شکر کو نعمتوں میں اضافے اور کفر [یا ناشکری] کو نعمتوں سے محرومی کا موجب قرار دیتا ہے۔

شکر کی کیفیت

ارشاد خداوندی ہے:

"وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ؛ [5]

اور جب تمہارے پروردگار نے اطلاع دی کہ اگر شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے"۔

"وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ؛ [6]

اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرے گا وہ اپنے لئے ادا کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت کرے گا تو بلاشبہ اللہ بے نیاز ہے اور بہت قابل تعریف"۔

"قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ"، [7]

اے موسیٰ ! بلاشبہ میں نے تم کو تمام لوگوں پر مقدم کیا ہے اپنے پیغاموں اور اپنے کلام کے ساتھ تو لو اسے جو میں نے تمہیں دیا ہے اور شکر گزاروں میں سے ہو"۔

"فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ؛ [8]

ان نعمتوں سے جو تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے، حلال اور پاکیزہ، کھا لو، اور اللہ کی نعمت کی شکر گزاری کیا کرو، اگر تم صرف اسی کی عبادت [و بندگی] کرتے ہو"۔

"إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ؛ [9]

بلا شبہ تم اس [اللہ] کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو، وہ کچھ بہت ہی توہین اور جھوٹ بناتے ہو [کہ وہ تو بس دیوتا یا شفیع یا مؤثر ہیں]، یقینا یہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، تمہاری روزی پر قدرت نہیں رکھتے تو اللہ سے رزق کے طلب گار رہو اور اس کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار رہو۔ اسی کی طرف تو تمہیں پلٹ کر جانا ہے"۔

"لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ * فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ؛ [10]

قبیلہ سبا کے لئے ان کے بود و باش والے مقام پر ایک قدرت کی نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں طرف [ہم نے ان سے کہا] کہ کھاؤ اپنے پروردگار کی طرف کے رزق سے اور اس کا شکر ادا کرو، پاک و صاف شہر ہے اور پروردگار ہے جو بخشنے والا ہے * تو انھوں نے رو گردانی کی تو ہم نے ان پر زور و شور کا سیلاب بھیجا"۔

"لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ* بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ؛ [11]

اگر تم شرک کرو تو تمہارے سب اعمال اکارت جائیں گے اور تم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گے * بلکہ بس اللہ ہی کی عبادت کیجئے اور شکر گزاروں میں سے ہو جائیے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"شُكْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ المَحَارِمِ، وَتَمَامُ الشُّكْرِ قولُ الرَّجُلِ 'الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ العَالَمِينَ؛ [12]

نعمت کا شکر ان حرام چیزوں اور کاموں سے پرہیز کرنا ہے اور شکر کی تکمیل یہ ہے کہ آدمی کہے: "الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ العَالَمِينَ؛ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔

نیز آپؑ نے فرمایا:

"ثَلَاثٌ لَا يَضُرُّ مَعَهُنَّ شَىْءٌ: اَلدُّعَاءُ عِنْدَ الكَرْبِ، وَالْإِسْتِغْفَارُ عِنْدَ الذَّنْبِ، وَالشُّكْرُ عِنْدَ النِّعْمَةِ؛ [13]

تین کام ایسے ہیں کہ اگر انجام دیئے جائیں تو انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا: مصائب میں دعا کرنا، ارتکاب گناہ کی صورت میں مغفرت طلب کرنا اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی صورت میں اللہ کا شکر ادا کرنا"۔

"أَدْنَى الشُّكْرِ رُؤْيَةُ النِّعْمَةِ مِنَ اللّهِ مِنْ غَيْرِ عِلّةٍ يَتَعَلَّقُ القَلْبُ بِهَا دُونَ اللّهِ وَالرِّضَا بِمَا أَعْطَاهُ، وَأَنْ لَا تَعْصِيَهُ بِنِعْمَتِهِ وَتُخَالِفَهُ بِشَيْءٍ مِنْ أمْرِهِ وَنَهْيِهِ بِسَبَبِ نِعْمَتِهِ؛ [14]

شکر کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ انسان اعتراف کرے کہ نعمتیں [براہ راست] اللہ کی جانب سے ہیں؛ [اور اس کے حصول میں اپنی ذہانت، علم و دانش، تجربے یا دوسروں کی ہدایات اور مشوروں کو مؤثر نہ سمجھے] اور ہر اس چیز پر راضی اور خوش ہو جو کچھ اللہ نے اس کو عطا فرمائی ہے؛ اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے گناہ نہ کرے اور انہیں اللہ کی اوامر اور نواہی کی مخالفت بروئے کار نہ لائے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَلشّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى وَالصَّبْرُ زينَةُ البَلْوَى؛ [15]

شکر دولت کی زینت ہے اور صبر مصیبت کی زینت ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ أَنْعَمَ اَللَّهُ عَلَيْهِ بِنِعْمَةٍ ثُمَّ عَرَفَهَا بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَدَّى شُكْرَهَا؛ [16]

جس کو اللہ ایک نعمت سے نوازے اور اس نے اس نعمت کو دل میں پہچان لیا، تو اس نے گویا اس نعمت کا شکر ادا کیا ہے"۔

اللہ کی نعمتیں عظیم ہيں اور انسان کی طرف سے اس کا شکر بہت ناچیز ہے، بقول سعدی:

بنده همان به که زتقصیرخویش

عذر به درگاه خدا آورد

ورنه سزاوار خداوندیش

کس نتواند که بجا آورد[17]

بندے کے لئے یہی بہتر ہے کہ اپنی کوتاہیوں سے

معذرت طلب کرے خدا کی درگاہ سے

ورنہ اس کی ربوبیت کے لائق

کوئی بھی نہیں اس کا شکر بجا نہیں لا سکتا۔

شکر ادا کرنے کا موقع پانا بھی نعمت ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَتَمَامُ اَلشُّكْرِ الْإِعْتِرَافُ بِلِسَانِ اَلسِّرِّ خَالِصاً لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِالْعَجْزِ عَنْ بُلُوغِ أَدْنَى شُكْرِهِ لِأَنَّ اَلتَّوْفِيقَ فِي اَلشُّكْرِ نِعْمَةٌ حَادِثَةٌ يَجِبُ اَلشُّكْرُ عَلَيْهَا؛ [18]

مکمل شکر اللہ کے سامنے باطنی زبان سے، شکر کی ادائیگی سے، اپنے عجز اور بے بسی کا خاضعانہ اعتراف ہے، کیونکہ شکر کی توفیق بجائے خود ایک نئی نعمت ہے جس کا شکر گزار ہونا چاہئے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"أَوْحَى اللَّهُ تَعَالَى إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا مُوسَى، اشْكُرْنِي حَقَّ شُكْرِي، فَقَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَشْكُرُكَ حَقَّ شُكْرِكَ وَلَيْسَ مِنْ شُكْرٍ أَشْكُرُكَ بِهِ إِلَّا وَأَنْتَ أَنْعَمْتَ بِهِ عَلَيَّ؟! فَقَالَ: يَا مُوسَى شَكَرْتَنِي حَقَّ شُكْرِي حِينَ عَلِمْتَ أَنَّ ذَلِكَ مِنِّي؛ [19]

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی اور فرمایا: اے موسیٰ! میرا اس طرح سے شکر ادا کرو جیسا کہ شکر ادا کرنے کا حق ہے؛ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار میں کیونکر تیرے شکر کا حق ادا کر سکتا ہوں حالانکہ کہ میں جو بھی شکر ادا کرتا ہوں وہ خود نعمت ہے تیری طرف سے؟! تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! جب تم جان گئے کہ ہر نعمت بھی اور شکر کی توفیق بھی میری طرف سے ہے تو گیا تو نے میرے شکر کا حق ادا کر لیا ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ شَكَرَ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَجَبَ عَلَيْهِ شُكرٌ ثَانٍ إِذْ وَفَّقَهُ لِشُكْرِهِ وَهُوَ شُكْرُ الشُّكْرِ؛ [20]

جو شخص اللہ سبحانہ کا شکر ادا کرے اس پر دوسرا شکر بھی واجب ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کو اپنی شکرگزاری کا قابل بنایا ہے، اور یہ شکر کا شکر ہے"۔

امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) حق تعالیٰ عزّ و جلّ سے راز و نیاز کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

"فَكَيْفَ لِي بتَحْصِيلِ الشُّكْرِ وَشُكْرِي إيَّاكَ يَفْتَقِرُ إِلَىٰ شُكْرٍ؟! فَكُلَّمَا قُلْتُ: لَكَ الْحَمْدُ وَجَبَ عَلَيَّ لذَلِكَ أَنْ أَقُولَ: لَكَ الحَمْدُ؛ [21]

تو میں کیوکنر تیرا شکر ادا کر سکوں گا، جبکہ تیرے لئے میری شکرگزاری [خود نعمت ہے جو مزید] شکرگزاری کا تقاضا کرتی ہے؛ جب میں میں عرض کروں کہ "تیرے لئے ہے حمد و شکر، تو مجھ پر واجب ہوجاتا ہے کہ [اس نعمت پر بھی] دوبارہ کہہ دوں: 'لَكَ الحَمْدُ'"۔

جس نے بندوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا / شکر گزاری نعمتوں میں اضافے کا سبب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"حَقٌّ عَلَى مَنْ أُنْعِمَ علَيْهِ أَنْ يُحْسِنَ مَكَافَأَةَ الْمُنْعِمِ، فَإِنْ قَصُرَ عَنْ ذَلِكَ وُسْعُهُ فَعَلَيْهِ أَنْ يُحْسِنَ الثَّنَاءَ، فَإِنْ كَلَّ عَنْ ذَلِكَ لِسَانُهُ فَعَلَيْهِ بمَعْرِفَةِ النِّعْمَةِ وَمَحَبَّةِ المُنْعِمِ بِهَا، فَإِنْ قَصُرَ عَنْ ذَلِكَ فَلَيْسَ لِلنِّعْمَةِ بِأَهْلٍ؛ [22]

جس پر احسان ہؤا ہے اس کا فریضہ ہے کہ بطور احسن، احسان کرنے والے کی اجرت دے دے؛ تو اگر وہ ایسا کرنے سے عاجز ہے تو بہترین انداز سے اس کا شکریہ ادا کرے؛ اگر اس کی زبان ایسا کرنے سے قاصر ہے تو اس پر لازم ہے کہ نعمت کو پہچان لے اور احسان کرنے والے کو دوست رکھے؛ اگر وہ ایسا کرنے سے بھی قاصر رہا تو وہ نیکی اور احسان کا لائق ہی نہیں ہے"۔

امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"يقولُ اللّهُ تبَارَكَ وَتعَالَى لِعَبْدٍ مِنْ عَبِيدِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ: أَشَكَرْتَ فُلَاناً؟ فَيَقُولُ: بَلْ شَكَرْتُكَ يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: لَمْ تَشكُرْني إِذْ لَمْ تَشْكُرْهُ؛ [23]

خدائے تبارک و تعالیٰ روز قیام ایک بندے سے فرمائے گا: کیا تو فلان [شخص] کی شکر گزاری بجا لایا ہے [یا تو نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے]؟ وہ عرض کرے گا، [نہیں بلکہ] میں نے تو تیرا شکر ادا کیا ہے اے میرے پروردگار؛ خدائے متعال فرمائے گا: چونکہ تو نے اس کا شکریہ ادا نہیں کیا ہے اسی لئے تو نے میرا شکر بھی ادا نہیں کیا ہے"۔

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ لَمْ يَشْكُرِ المُنْعِمَ مِنَ المَخْلُوقِينَ لَمْ يَشْكُرِ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ؛ [24]

جو مخلوقین میں سے اس شخص کا شکریہ ادا نہیں کرتا جس نے اس پر احسان کیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ اشْكُرْ مَنْ أَنْعَمَ عَلَيْكَ وَأَنْعِمْ عَلَى مَنْ شَكَرَكَ فَإِنَّهُ لَا زَوَالَ لِلنَّعْمَاءِ إِذَا شُكِرَتْ وَلَا بَقَاءَ لَهَا إِذَا كُفِرَتْ؛ الشُّكْرُ زِيَادَةٌ فِي النِّعَمِ وَ أَمَانٌ مِنَ الْغِيَرِ؛ [25]

تورات میں لکھا ہے کہ جو تم پر احسان کرو اس کی شکرگزاری کرو، اور جس نے تمہاری شکرگزاری کی اس پر احسان کرو، کیونکہ نعمتیں لازوال ہیں بشرطیکہ ان پر شکرگزاری کی جائے اور اور وہ ہرگز باقی نہيں رہتیں اگر ناشکری کی جائے؛ شکر گزاری نعمتوں میں اضافہ کرتی ہے اور شکرگزار کو پرایوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَن شَكَرَ النِّعَمَ بِجَنَانِهِ اسْتَحَقَّ اَلْمَزِيدَ قَبْلَ أَنْ يَظْهِرَ عَلَى لِسَانِهِ؛ [26]

جس نے دل میں نعمتوں پر [اللہ کا] شکر ادا کیا وہ نعمتوں میں اضافے کا مستحق بن جاتا ہے قبل اس کے کہ شکر اس کی زبان پر ظاہر ہوجائے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الْآخِرَةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ وَيُرَجِّى التَّوْبَةَ بِطُولِ الْأَمَلِ يَقُولُ فِى الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ وَيَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وَإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ وَيَبْتَغِى الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ۔۔۔؛ [27]

"تم کوان لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے کہ جو عمل کے بغیر انجام بخیر ہونے کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں؛ دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیاپرستوں جیسے ہیں؛ اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے اور جو انہیں ملا ہے اس پر شکر گزاری سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس میں اضافے کی آرزو کئے بیٹھتے ہیں"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ اَللَّهَ أَنْعَمَ عَلَىٰ قَوْمٍ فَلَمْ يَشْكُرُوا فَصَارَتْ عَلَيْهِمْ وَبَالاً وَابْتَلَىٰ قَوْماً بِالْمَصَائِبِ فَصَبَرُوا فَصَارَتْ عَلَيْهِمْ نِعْمَةً؛ [28]

یقینا خدائے عزّ و جلّ نے لوگوں کو نعمتوں سے نوازا تو انہوں نے شکر ادا نہیں کیا چنانچہ وہ نعمتیں ان کے لئے وبال جان بن گئیں؛ اور کچھ لوگوں کو مصائب میں مبتلا کیا لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ نے ان مصائب کو ان کے لئے نعمتوں میں بدل دیا"۔

امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) نے فرمایا:

"نِعمَةٌ لا تُشكَرُ كَسَيِّئَةٍ لا تُغفَرُ؛ [29]

جس نعمت پر شکرگزاری نہ ہوئی ہو اس گناہ کی مانند ہے جسے بخشا نہیں گیا ہو"۔

والدین کا شکر

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ؛ [30]

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں ہدایت کی جس کو اس کی ماں نے بزمانہ حمل اٹھایا دہری دہری تکلیفوں کے ساتھ اور دو برس میں اس کی دودھ بڑھائی ہوئی کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر گزار رہنا میری ہی طرف تو آخر میں پلٹنا ہے"۔

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَمَرَ [اللهُ] بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَمَنْ صَلَّى وَلَمْ يُزَكِّ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ صَلَاتُهُ، وَأَمَرَ بِالشُّكْرِ لَهُ وَلِلْوَالِدَيْنِ فَمَنْ لَمْ يَشْكُرْ وَالِدَيْهِ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ؛ [31]

اللہ نے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا تو جس نے نماز ادا کی لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کی تو اس کی نماز باطل ہے، اور اللہ نے اپنے اور والدین کی شکر گزاری کا فرمان دیا تو جس نے اپنے والدین کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا"۔

نعمتوں کو حق و حقیقت کی راہ میں صرف کرنا

اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو راہ حق میں صرف کریں تو خدا ہمیں اور زیادہ عطا کرے گا کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے "لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ"؛ اور اگر راہ حق میں صرف نہ کریں تو اللہ کے عذاب سے دوچار ہونگے "وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ"۔

نیز ارشاد ربانی ہے:

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَار * جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ؛ [32]

کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے نعمت الہٰی کو کفر میں بدل دیا، اور اپنی جماعت کو ہلاکت کے گھر میں داخل کیا، * جو دوزخ ہے جس کی تپش میں وہ مبتلا ہوں گے اور کتنا برا ٹھکانا ہے وہ"۔ 

اللہ تعالیٰ کا شکر!

پروردگار متعال نے فرمایا:

"وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ؛ [33]

 اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر ادا کرے گا وہ اپنے لئے اور جو کفرانِ نعمت کرے گا تو بلاشبہ اللہ بے نیاز ہے قابل تعریف۔

"وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ؛ [34]

اور جو شکر گزار ہو گا، وہ اپنے فائدہ کے لئے شکر گزار ہو گا اور جو کفران نعمت کرے گا تو بلاشبہ میرا پروردگار عزت والا ہے، بے نیاز"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِظْهَارُ الْغِنَى مِنَ الشُّكْرِ؛ [35]

دولتمند بن کر دکھانا شکر گزاری کے زمرے میں آتا ہے"۔

بلاشبہ اللہ کی طرف ہماری توجہ ہماری عزت و عظمت اور نشوونما کا سبب ہے۔ خدا کو ہماری توجہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ جس طرح کہ سورج کو ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں اپنا گھر سورج کی طرف بنانا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں اس کی حرارت اور روشنی کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے شکر سے بے نیاز ہے، اور "ہمارے عذاب سے بھی بے نیاز ہے"۔ [36] اور اگر ہم دین و ایمان چھوڑ کر پیچھے پلٹ جائيں تو بھی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ [37]

اللہ تعالیٰ قرآن میں انبیاء (علیہم السلام) کی تعریف کرتے ہوئے ان کی مختلف خصلتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں سے ایک ان کی شکر گزاری ہے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بہت زیادہ صبر و استقامت سے کام لیا، زوجہ اور بیٹے سمیت اپنی امت کے لوگوں کی بے وفائی برداشت کی لیکن وہ شکر گزار رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس وصف کی طرف اشارہ فرمایا اور انہیں شکر گزار قرار دیا:

"ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا؛ [38]

اے ان لوگوں کی نسل کے لوگو جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ [کشتی میں] سوار کیا تھا ! بلاشبہ وہ بہت زیادہ شکر گزار بندہ تھا [تو تم بھی ان ہی کی طرح اللہ کے فرامین کی تعمیل کرکے شکر گزار بنے رہو]"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا ذَكَرَ أَحَدُكُمْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلْيَضَعْ خَدَّهُ عَلَى التُّرَابِ شُكْراً لِلَّهِ فَإِنْ كَانَ رَاكِباً فَلْيَنْزِلْ فَلْيَضَعْ خَدَّهُ عَلَى التُّرَابِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ يَقْدِرُ عَلَى النُّزُولِ لِلشُّهْرَةِ فَلْيَضَعْ خَدَّهُ عَلَى قَرَبُوسِهِ وَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ فَلْيَضَعْ خَدَّهُ عَلَى كَفِّهِ ثُمَّ لْيَحْمَدِ اللَّهَ عَلَى مَا أَنْعَمَ عَلَيْهِ؛ [39]

ہرگاہ تم میں سے کسی کو اللہ عزّ و جلّ کی کوئی نعمت یاد آئے، اگر وہ سوار ہو تو اتر کر خدا کے شکر کے عنوان سے اپنا چہرہ مٹی پر رکھ دے؛ اگر شہرت کو ٹھیس پہنچنے کے خوف سے، سواری سے نہیں اتر سکتا تو سواری کے زین کے آگے ابھرے ہوئے حصے پر سجدہ کرے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو چہرہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ دےاور اللہ کا شکر اور حمد و ثناء بجا لائے اس نعمت پر جو اللہ نے اس کو عطا کی ہے"۔

خدا کا شکر زبان، عمل اور کردار سے ادا کیا جا سکتا ہے

شکر کے کچھ عملی نمونے

1۔ نماز، شکر کا بہترین نمونہ ہے۔ خدائے متعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ارشاد فرماتا ہے:

"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ * إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ؛ [40]

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے * ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی * تو اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے * یقینا آپ کا دشمن مقطوع النسل ہوگا"۔

"مفضل بن عمر روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عید غدیر کی فضیلت بیان فرمائی، تو میں نے عرض کیا: اے میرے سید و سردار، کیا آپ مجھے اس دن کے روزے کا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "ہاں خدا کی قسم! ہاں خدا کی قسم! ہاں خدا کی قسم!، یقینا یہ وہ دن ہے کہ جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے طور پر روزہ رکھا؛ اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دلائی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا؛ اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کا تقرر کیا، ان کے فضائل آشکار کر دیئے اور انہیں اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا، اور اس دن کو انھوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا؛ 'وَإنَّهُ لَيَومُ صِيامٍ وقِيامٍ وإِطْعامُ وُصِلَةِ الاخِوَانِ وفيهِ مَرْضاةُ الرَّحمَنِ وَمَرْغَمَةُ الشَّيطانِ؛ اور یقینا یہ روزہ رکھنے، دوسروں [بالخصوص مساکین اور فقراء] کو کھانا کھلانے اور بھائیوں اہل خاندان کے ساتھ تعلق بڑھانے کا دن ہے۔ یقینا اس میں رحمٰن کی خوشنودی اور شیطان کی ذلت وخواری ہے"۔ [41]

3۔ اگر آپ کو اللہ نے علم کی دولت سے نوازا ہے، اور کوئی غیر پڑھا لکھا شخص آپ سے کوئی خط یا کسی بھی قسم کی تحریر لکھنے کی درخواست کرے تو لکھ دو اور یوں اپنے علم کا شکر ادا کرو:

ارشاد ربّ متعال ہے:

"وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ؛ [42]

اور کوئی کاتب، جسے کہ اللہ نے علم و دانش کی دولت سے نوازا ہے، لکھنے سے انکار نہ کرے، تو اسے لکھ دینا چاہئے"۔

4۔ قناعت  بھی شکر ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"كُنْ وَرِعاً تَكُنْ أَعْبَدَ اَلنَّاسِ وَكُنْ قَنِعاً تَكُنْ أَشْكَرَ اَلنَّاسِ وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُؤْمِناً؛ [43]

پرہیزگار بنو عبادترین لوگوں میں شامل ہوجا؛ قانع، کفایت شعار اور دستیاب وسائل ـ منحملہ خدا کے دیئے ہوئے رزق ـ کو اپنے لئے کافی سمجھو شکرگذارترین لوگوں میں سے ہو جاؤ؛ لوگوں کے لئے وہی کچھ پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور مؤمنوں میں داخل ہوجا"۔

5۔ یتیم نوازی اور غریب نوازی بھی شکرگزاری ہے اور خداوند متعال اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ارشاد فرماتا ہے:

"أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ * وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ * وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ؛ [44]

کیا اللہ نے آپ کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی * اور آپ کو کھویا ہؤا پا کر رہنمائی نہیں کی * اور کیا آپ کو تہی دست پاکر تونگر نہیں بنایا"۔

6۔ محرومین اور محتاجوں کی مدد بھی شکرگزاری کے زمرے میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ * وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ؛ [45]

تو یتیم پر سختی نہ کیجئے * اور جو سائل ہو اسے جھڑکئے نہیں"۔

7۔ لوگوں کا شکریہ ادا کرنا بھی شکرگزاری میں آتا ہے۔ خدائے متعال نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مخاطب ہوکر زکوٰۃ دہندگان کو ترغیب دلانے کے ارشاد فرمایا کہ ان پر درود بھیجا کیجئے یا ان کے لئے دعائے خیر کیجئے، کہ ان کی تسکین کا باعث ہے۔

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ؛ [46]

آپ ان کے اموال کی زکوٰة لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں برکت دیتے ہیں؛ اور ان کے لئے دعائے خیر کیجئے۔ یقینا آپ کی دعائے خیر ان کے لئے باعث سکون ہو گی"۔

تلخیوں پر شکر

خدائے متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

"عَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَىٰ أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ؛ [47]

اور بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے اچھی ہے، اور بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہے۔ اور [بات یہ ہے کہ] اللہ جانتا ہو اور تم نہيں جانتے ہو"۔

مسائل اور مشکلات اگر ہیں تو بے شمار نعمتیں اسی حال میں بھی ہمیں حاصل ہیں، انہیں بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ اور پھر مسائل اور مشکلات دور کرنے کی کوشش ہماری فطرت کا تقاضا ہے چنانچہ انہیں دور کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے اور محنت ترک کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اس کے باوجود:

اگر ہم جان لیں کہ دوسروں کو ہم سے بڑھ کر مسائل کا سامنا ہے؛

اگر ہم جان لیں کہ مشکلات اور مسائل خدا کی طرف ہماری توجہ میں اضافہ کرتے ہیں؛

اگر ہم جان لیں کہ مسائل غرور اور تکبر کو توڑ دیتے ہیں اور سنگ دلی اور شقی القلبی کو ہم سے دور کر دیتے ہیں؛

اگر ہم جان لیں مسائل ہمیں دردمندوں اور دکھی انسانوں کی یاد دلاتے ہیں؛

اگر ہم جان لیں کہ مسائل ہمیں دفاع اور تخلیق کے بارے میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے پر آمادہ کرتے ہیں؛ (ضرورت ایجاد کی ماں ہے)

اگر ہم جان لیں کہ مسائل اللہ کی دی ہوئی سابقہ نعمتوں کی یاددہانی کراتے ہیں؛

اگر ہم جان لیں کہ اگر ہم سختیوں میں گھر کر ناشکری پر نہ اتر آئیں اور حق کا انکار نہ کریں، اور سابقہ نعمتوں کو نہ بھولیں، اور شکرگزاری ترک نہ کر دیں، تو مسائل و مشکلات ہمارے گناہوں کا کفارہ ہیں؛

اگر ہم جان لیں یہ مسائل اخروی ہمارے لئے اجر و ثواب کا باعث ہیں اگر بدانیم؛

اگر ہم جان لیں کہ مسائل اور مشکلات بیدار باش کی گھنٹی ہے کہ ہم اگلی دنیا کے مسائل کے لئے بھی تیار ہو جائیں؛

اگر ہم جان لیں کہ مسائل اپنا صبر و استقامت پرکھنے کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم مسائل سے دوچار ہوکر اپنے حقیقی دوستوں کو اچھی طرح پہچان لیتے ہیں؛

اگر ہم جان لیں کہ عین ممکن تھا کہ ہمیں اس سے بڑھ کر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا؛

تو ہم جان لیں گے کہ یہ ظاہری تلخیاں کس قدر شیریں ہیں۔

جی ہاں! ایک بچے کے لئے کھجور میٹھا اور پیاز یا مرچ کی تیزی اور تلخی ناخوشگوار ہے لیکن والدین کے لئے، جو عمر میں بڑے اور تجربہ کار ہیں چنانچہ ان کے لئے تیزی، ترشی، اور شیرینی سب خوشایند ہیں۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"۔۔۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے عرض کیا: اے رسول خداؐ کیا ایسا نہیں ہے کہ جنگ احد کے دن ـ جب مسلمانوں میں سے کئی افراد نے جام شہادت نوش کیا اور شہادت مجھے نصیب نہیں ہوئی تھی اور یہ مسئلہ مجھ پر بہت گراں گذرا تھا تو ـ آپ نے مجھ سے فرمایا تھا  کہ 'تمہیں بشارت ہو، کہ شہادت کے پیچھے پیچھے آئے گی'۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے فرمایا کہ 'یہ بشارت ہو کر رہے گی، [یہ بتاؤ کہ] اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہوگی؟'؛ تو میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! یہ صبر کا موقع تو نہیں ہے بلکہ یہ [میرے لئے] مژدہ، اور صبر کا مقام ہے"۔ [48]

اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے جرائم پیشہ امویوں کے طعنوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

"مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِیلاً؛ [49]

میں نے کربلا میں خوبصورتی کے سوا کچھ نہیں دیکھا"۔

ناشکری فراخی کی راہ میں رکاوٹ

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَا يَنْقَطِعُ الْمزَيدُ مِنَ اللّهِ حَتَّى يَنْقَطِعَ الشُّكْرُ مِنَ الْعِبَادِ؛ [50]

اللہ کی طرف سے نعمتوں میں اضافے کا سلسلہ صرف اس وقت منقطع ہوجاتا ہے جب بندوں کی طرف سے شکر سلسلہ بند ہوجاتا ہے [وسعت رزق میں اضافہ بندوں کی ناشکری کی وجہ سے رک جاتی ہے]"۔

- عنه (عليه السلام): تمام الشكر اعتراف لسان السر خاضعا لله تعالى بالعجز عن بلوغ أدنى شكره، لأن التوفيق للشكر نعمة حادثة يجب الشكر عليها (11)۔

(11) مصباح الشريعة: 5٨۔- الإمام علي (عليه السلام): من أعطي الشكر لم يحرم الزيادة (1)۔

شکر عذاب سے بچاتا ہے

جس طرح کہ اللہ ہماری شکر گزاری سے بے نیاز ہے اور اس نے قرآن کریم  میں شکر گزاری عذاب سے نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے:

پروردگار متعال ہمارے عذاب سے بھی بے نیاز ہے؛ شکر گزار، مؤمن اور قدردان رہیں گے تو عذاب سے چھٹکارا ہوگا:

"مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا؛ [51]

اللہ تمہیں عذاب کرکے کیا کرے گا! اگر تم شکر گزار رہو اور ایمان اختیار کرو اور اللہ قدردان [اور مسلسل اجر و ثواب دینے والا] ہے، بڑا جاننے والا"۔ 

شکر گزاری اخروی ثواب کے استحقاق کا سبب ہے

قرآن کریم کی کئی آیات میں شکر گزاروں کو آخرت کی جزا اور مستحق قرار دیتی ہيں:

ارشاد ہوتا ہے:

"وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ؛ [52]

اور جو دنیا میں صلہ چاہتا ہے ، اس کو ہم دنیا میں ہی صلہ دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا صلہ چاہتا ہے اسے وہاں دیتے ہیں اور قریب ہے کہ جب ہم شکر گزاروں کو صلہ دیں گے"۔

اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے سوال کا جواب بھی مضمر ہیں جو دنیا کی دولت و شہرت کمانے کے لئے کچھ اختراعات اور ایجادات کرنے والے افراد کو بھی اپنی طرف سے اخروی ثواب اور جنت کا مستحق قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان میں سے کچھ تو اللہ کے وجود تک کے منکر رہے ہیں۔ اور پھر وہ دنیاوی شہرت اور دولت چاہتے تھے جو انہيں مل چکی ہے۔

"وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ؛ [53]

اور جو الٹے پاؤں پلٹ جائے تو وہ اللہ کو ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچائے گا اور وہ وقت قریب ہے جبکہ اللہ شکر گزاروں کو صلہ عنایت کرے گا"۔

"نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا كَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ؛ [54]

فضل وکرم سے اپنی طرف کے اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں انہیں جو شکر گزار ہوں"۔

آیتوں اور نشانیوں کی وصولی  استحقاق

کچھ آیات کریمہ میں شکر گزاروں کو آیات الٰہیہ کی وصولی کا مستحق قرار دیا گیا ہے:

"وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ؛ [55]

اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ [جو رحمت، عذاب، فتح یا شکست کے دن ہیں] یقینا ان میں ہر بڑے صبر و استقامت والے، شکر گزار کے لئے [توحید، ربوبیت اور اللہ کی قدرت کی] نشانیاں ہیں"۔

"وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا؛ [56]

اور وہ وہ ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا [اور پے درپے قرار دیا] اس کے لئے جو عبرت لینا چاہے [اور نصیحت قبول کرنا چاہے] یا شکر گزار ہونا چاہے"۔ 

"أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ؛ [57]

کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ کشتیاں اللہ کی نعمت [اور فضل و کرم] سے سمندر میں رواں دواں ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے، یقینا اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں"۔

ناشکروں کے انجام میں شکر گزاروں کے لئے نشانیاں ہیں

"وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ * قَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ؛ [58]

اور ہم نے قرار دیں ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت عطا کی مسلسل آبادیاں اور ان میں آمد و رفت کا سلسلہ قائم کیا، (اور ان سے کہا) چلو پھرو ان میں رات دن امن و عافیت کے ساتھ *  لیکن (ان ناشکرے لوگوں نے) کہا: اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفروں میں فاصلے قرار دے اور انھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تو انہیں ہم نے افسانہ بنا دیا اور ان کے پورے طور پر پرخچے اڑا دیئے، یقینا اس میں (عبرت کی) نشانیاں ہیں ہر صبر و شکر کرنے والے کے لئے"۔

"إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ؛ [59]

اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دیتا ہے تو وہ اس کی سطح پر رکی رہ جائیں، یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر برداشت کرنے والے کے لئے جو شکر گزار ہو"۔ 

آیت کریمہ کی مختصر تفسیر

اگر اللہ ان ہواؤں کو ساکن اور متوقف کرنا چاہے جو کشتیوں اور جہازوں کو حرکت میں لاتی ہیں، تو انہیں قطعی طور پر روک لیتا ہے، اور کشتیاں سمندر میں رک کر ساکن رہتی ہیں۔ یقینا کشتیوں کی تخلیق اور ہواؤں کی تسخیر میں واضح نشانیاں اور دلالتیں ہیں اللہ کی قدرت پر، ان لوگوں کے لئے جو بلاؤں اور مصیبتوں پر بہت زیادہ صبر کرنے والے اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر بہت زیادہ شکر گزار ہیں۔

شکر گزاری کی توفیق

قرآن کریم کے مطابق، انسان نے اللہ سے شکر گزاری کی توفیق مانگی ہے:

ارشاد ربانی ہے:

"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ؛ [60]

اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین [و ہدایت] کی ۔ ماں نے اسے پیٹ میں رکھا زحمت کے ساتھ اور اسے جنم بھی دیا زحمت کے ساتھ اور اس کے پیٹ میں رہنے اور دودھ سے چھوٹنے کی مدت تیس مہینے ہوئی، یہاں تک کہ جب وہ جوان ہؤا اور چالیس برس تک پہنچا تو اس نے کہا: اے میرے پروردگار! مجھ پر الہام فرما، [اور میرے دل میں ڈال دے] کہ میں شکر ادا کروں تیرے اس احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں نیک کام کروں جس سے تو خوشنود ہوجائے، اور میرے لئے میری اولاد کو نیک و صالح بنا دے، یقینا میں تیری درگاہ کی طرف پلٹ آیا اور یقینا میں سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں"۔

حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کی دعا

"وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ؛ [61]

اور [سليمان (علیہ السلام) نے] کہا: اے میرے پروردگار مجھ پر الہام کر [اور میرے دل میں ڈال دے اور مجھے توفیق دے] کہ میں تیری اس نعمت پر تیرا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا کی ہے، اور میں ایسا نیک و صالح عمل کروں جو تجھے پسند ہو اور مجھے اپنی رحمت ے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما"۔

"رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ؛ یعنی اے میرے پروردگار، مجھے الہام فرما، یا مجھے حریص کردے اس شکر پر، یا مجھے [اپنے دل و جان سے] تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی اندرونی دعوت دلوا دے، جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے۔ [62]

یہ بھی کہا گیا ہے کہ "أُوْزِعَ‌ بشَيْ‌ءٍ" کسی چیز پر حریص ہؤا۔ امین الاسلام طبرسی (رحمہ اللہ) زجّاج (ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سری) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "أَوْزِعْنِي" کی تاویل ہے کہ "اے پروردگار مجھے تیرے شکر کے سوا دوسری ہر چیز سے باز رکھ اور مجھ باز رکھ ہر اس چیز سے جو مجھے تجھ سے دور کرتی ہو"۔ [63] راغب اصفہانی کہتے ہیں: "'أَوْزِعْنِي' کی حقیقت یہ ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے شکر پر حریص کردے، یوں کہ میں اپنے آپ کو کفران اور ناشکری سے باز رکھوں"۔ [64]

چنانچہ "أَوْزِعْنِي" یعنی مجھے اپنی نعمتوں کے شکر کا الہام کردے، اور مجھ میں شکر کا عشق و لگن پیدا کر۔ ہم عام طور پر ـ اگر توفیق الٰہی شامل حال ہو تو ـ روزمرہ کی نعمتوں کو توجہ دیتے ہیں اور زیادہ تر نعمتوں سے غافل رہتے ہیں، جن میں وہ چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے بزرگوں سے اور آبادء و اجداد سے ترکے میں ملا ہے، و یا ہزاروں بلائیں جو ہر روز ہمیں سے دور ہو جاتی ہیں؛ یا وہ معنوی اور روحانی نعمتیں، جیسے اللہ اور اس کے انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام) پر ایمان، یا کفر، فسق اور گناہ سے نفرت، یا ظالموں اور کافروں اور ان کے اعمال سے بیزاری۔ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ ہؤا ہے:

"حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ؛ [65]

اللہ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنایا، اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ [اور خوبصورت] بنایا اور کفر اور فسق اور گناہ و نافرمانی کو تمہارے لئے ناگوار اور قابل نفرت کر دیا؛ یہی لوگ [جو ان خصوصیات کے حامل ہیں] ہدایت یافتہ ہیں"۔

علاوہ ازیں معصومین (علیہ السلام) کی دعاؤں میں کا ایک حصہ بھی اللہ کی نعمتوں کے تذکرے اور ان پر اللہ کی شکرگزاری پر مشتمل ہے، تاکہ انسانوں کے دل اور ان کے ذہن میں اللہ کی یاد اور اس کی شکرگزاری کا جذبہ قائم و دائم رہے۔

اللہ تعالیٰ شاکرین کی تعریف فرماتا ہے

حضرت ابراہیم (علیہ السلام)

"إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ * شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ؛ [66]

بلاشبہ ابراہیم ایک امت تھے جو خالص اللہ سے لو لگانے والے، غلط راستے سے ہٹے ہوئے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے * اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار ہوتے ہوئے۔ اس نے انہیں منتخب کیا اور انہیں سیدھے راستے پر لگایا"۔

حضرت نوح (علیہ السلام)

إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا؛ [67]

بلا شبہ وہ [نوح] بہت زیادہ شکر گزار بندہ تھا"۔

اللہ خود شکور ہے: بہت قدردان اور بہت شکر پذیر

قرآن کریم کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود "شکور" کی صفت اختیار فرمائی ہے؛ یقینا اللہ کی شکر گزاری اور قدردانی یہ ہے کہ وہ بندوں کی اطاعت کی سطح کے مطابق انہیں نعمتوں، فضل و کرم اور بخشش سے نوازتا ہے اور ان کا شکر قبول فرماتا ہے۔

"إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ * لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ؛ [68]

یقینا وہ جو کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے پوشیدہ طور پر اور ظاہر بظاہر خیرات کرتے ہیں، وہ امید وابستہ کیے ہوئے ہیں ایسی تجارت سے جو کبھی برباد نہیں ہو گی * تاکہ وہ انہیں پورے پورے ان کے ثواب عطا کرے اور اپنے فضل و کرم سے انہیں اور زیادہ دے، بلاشبہ بخشنے والا ہے، عمل کی قدر کرنے والا"۔

"جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ * قَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ؛ [69]

 ہمیشہ کے قیام والے بہشتوں میں داخل ہوں گے، انہیں پہنائے جائیں گے ان میں سونے کے کنگن اور موتی اور ان کے کپڑے ریشم کے ہوں گے * اور وہ کہیں گے شکر اس اللہ کا جس نے ہم سے رنج و غم دور کیا، بلاشبہ ہمارا پروردگار بہت بخشنے والا ہے، اچھے اعمال کا بہت شکر [و قدر] کرنے والا"۔  

سب سے بڑی بھلائی نعمت ولایت پر شکر اور اللہ کی جانب کی قدردانی

"ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ؛ [70]

یہ وہ ہے جس کی خوشخبری دیتا ہے اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں کہئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے اور جو کوئی نیک کام کرے گا ہم اسے اس میں بھلائی اور زیادہ عطا کریں گے، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا ہے، غفور [اور قدردان]"۔

قرآن کریم کی کچھ آیتوں میں اللہ تعالی کی صفت "شاکر" بیان ہوئی ہے، اور اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اللہ نیک اعمال کا اجر و ثواب دیتا ہے اور شاکرین اور صالحین کا قدردان ہے۔

ارشاد ہؤا:

"إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ؛ [71]

بلاشبہ صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ بجا لائے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ وہ ان دونوں کا چکر لگا لے اور جو شوق و رغبت کے ساتھ کچھ نیکی کرے تو اللہ قدر دان ہے، جاننے والا"۔

"إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا؛ [72]

اگر تم شکر گزار رہو اور ایمان اختیار کرو اور اللہ قدردان [اور مسلسل اجر و ثواب دینے والا] ہے، بڑا جاننے والا"۔ 

"إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ؛ [73]

اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو تو وہ تمہارے لئے اسے بہت بڑھا دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا اور اللہ بڑا قدردان [عمل صالح کے بدلے اجر و ثواب دینے والا اور بہت شکر قبول کرنے والا]، بہت حلیم و تحمل سے کام لینے والا ہے"۔

اللہ شکر کرنے والوں کی قلت کی شکایت کرتا ہے

قرآن کریم کی کچھ آیات میں شکر کرنے والوں کو قلیل قرار دیا گیا ہے۔

"وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ؛ [74]

اور یقینا ہم نے تمہیں زمین میں اقتدار عطا کیا اور تمہارے لئے اس میں زندگی اور رزق و روزی کے اساب فراہم کئے (پھر بھی) تم کس قدر کم شکر گزاری کرتے ہو"۔

"وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ؛ [75]

اور وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل (اور عقل) بنائے ہیں مگر تم بہت کم شکر گزاری کرتے ہو"۔

"قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ؛ [76]

کہئے وہی تو ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں اور دِل ودماغ قرار دیئے مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو"۔

"ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ؛ [77]

پھر اس کے جسم کو تیار کیا اور اپنی روح میں سے اس میں پھونک دیا اور تمہارے لئے سننے کی طاقت اور نگاہیں اور دل قرار دیئے۔ تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو"۔

"إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ؛ [78]

یقینا اللہ بندوں کے حق میں بڑا فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر آدمی شکر گزار نہیں ہیں"۔

"مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ؛ [79]

[یوسف (علیہ السلام) نے کہا] ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں۔ یہ اللہ کے فضل و کرم سے ہے ہم پر اور تمام لوگوں پر، مگر زیادہ تر لوگ شکر ادا نہیں کرتے"۔

"إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ؛ [80]

بلاشبہ اللہ تمام لوگوں پر بڑے فضل [و بخشش] کرنے والا ہے مگر زیادہ تر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے"۔

"إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ؛ [81]

یقینا اللہ لوگوں پر بڑے فضل و احسان والا ہے مگر زیادہ تر لوگ شکر ادا نہیں کرتے"۔

"اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ؛ [82]

[اور ہم نے ان سے کہا] اے خاندانِ داؤد! شکر ادا کرو لیکن میرے بندوں میں کم ہی لوگ بہت شکر ادا کرنے والے ہیں"۔

شیطان کی امیدیں بھی ناشکروں سے وابستہ ہیں:

"قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ * قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ * قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ * ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ؛ [83]

اس (شیطان) نے کہا مجھے مہلت عطا کر اس دن تک کہ جب سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے * فرمایا تو ان [افراد] میں سے ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے * اس نے کہا تو اس لئے کہ تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، اب میں ضرور بیٹھوں گا ان کے لئے تیرے سیدھے راستے پر * پھر میں آؤں گا ان کی طرف ان کے سامنے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں س، اور تو ان میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں پائے گا"۔

**************

 

[1]۔ الطریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، ج1، ص569؛ مصطفوی، حسن بن عبدالرحیم بن مصطفی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج6، ص119۔۔

[2]۔ حقی، اسماعیل بن مصطفی، روح البیان، ج6، ص57؛ الثعلبی، احمد بن محمد النیسابوری، تفسیر الکشف والبیان (المعروف بہ تفسیر الثعلبی)، ج3، ص406۔  

[3]. راغب أصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج1، ص461؛ قرشی بُنابی،  سید علی اکبر بن  سید محمد، قاموس قرآن، ج4، ص62۔

[4]۔ راغب أصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج1، ص462؛ الطریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، ج1، ص569۔   

[5]۔ سورہ ابراہیم، آیت 7۔

[6]۔ سورہ لقمان، آیت 12۔

[7]۔ سورہ اعراف، آیت 144۔

[8]۔ سورہ نحل، آیت 114۔

[9]۔ سورہ عنکبوت، آیت 17۔

[10]۔ سورہ سباء، آیت 15۔

[11]۔ سورہ زمر، آیت 66۔

[12]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص95۔

[13]۔ الکلینی، وہی ماخذ۔

[14]۔ امام جعفر الصادق علیہ السلام، مصباح الشریعہ و مفتاح الحقیقہ، ص23۔

[15]۔ الشیخ المفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج1، ص300۔

[16]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص96؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص47۔

[17]۔ گلستان سعدی

[18]۔ امام جعفر صادق علیہ السلام، مصباح الشریعہ و مفتاح الحقیقہ، ص24۔

[19]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص99؛ القطب الراوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الانبیاء (علیہم السلام)، ص161۔

[20]. التميمى الآمدى، عبد الواحد بن محمد، غُرَرُ الحِکَم وَدُرَرُ الکَلِم، ج1، ص662، ح1463.

[21]۔ محدث قمی، شیخ عباس بن محمد رضا، مفاتیح الجنان، مُناجات الشّاکرین۔

[22]۔ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص501۔

[23]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج2، ص99۔

[24]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عيون أخبار الرِّضا (علیہ السلام)، ج2، ص24۔

[25]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج2، ص94۔

[26]۔ التمیمی الأمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم ودرر الکلم؛ ح6193؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج12، ص371۔

[27]۔ نہج البلاغہ، حکمت 150۔

[28]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص92؛ الشیخ الصدوق، الامالی، ج1، ص302؛ ابن شعبہ الحرانی، حسن بن حسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلی اللہ علیہم)، ص359۔

[29]۔ الشہید الاول، محمد بن جمال الدین مکی العاملی، الدرۃ الباہرہ من الاصداف الطاہرہ، ص9، ح18؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج68، ص53۔

[30]۔ سورہ لقمان، آیت 14۔

[31]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص156۔

[32]۔ سورہ ابراہیم، آیات 28-29۔

[33]۔ سورہ لقمان، آیت 12۔

[34]۔ سورہ نمل، آیت 40۔

[35]۔ التميمى الآمدى، عبد الواحد بن محمد، غُرَرُ الحِکَم وَدُرَرُ الکَلِم، ج1، ص61، ح1183۔

[36]۔ سورہ نساء، آیت 147۔

[37]۔ سورہ آل عمران، آیت 144۔

[38]۔ سورہ اسراء، آیت 3۔

[39]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص98۔

[40]۔ سورہ کوثر، قرآن کریم کا سورہ 108۔

[41]۔ سید بن طاؤس، علی بن موسیٰ الحلی، اقبال الاعمال، ج2، ص265؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسا‏ئل الشیعہ (ط آل البیت)، ج10، ص446۔

[42]۔ سورہ بقرہ، آیت 282۔

[43]۔ المالکی الاشتری، ورام بن فراس، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النوادر، (المعروف بہ مجموعۃ ورام)، ج1، ص163؛ الغزالی، محمد بن محمد الطوسی، إحیاء علوم الدین، ج10، ص17۔

[44]۔ سورہ ضحیٰ، آیات 6 تا 9۔

[45]۔ سورہ ضحیٰ، آیت 10۔

[46]۔ سورہ توبہ، آیت 103۔

[47]۔ سورہ بقرہ، آیت 216۔

[48]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 156۔

[49]۔ ابن اعثم الکوفی، مجمد بن علی، الفتوح، ج5، ص122؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج44، ص116۔

[50]۔ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ص32؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج71، 56۔

[51]۔ سورہ نساء، آیت 147۔

[52]۔ سورہ آل عمران، آیت 145۔

[53]۔ سورہ آل عمران، آیت 144۔

[54]۔ سورہ قمر، آیت 35۔

[55]۔ سورہ ابراہیم، آیت 5۔

[56]۔ سورہ فرقان، آیت 62۔

[57]۔ سورہ لقمان، آیت 31۔

[58]۔ سورہ سباء، آیات 18-19۔

[59]۔ سورہ شوریٰ، آیت 33۔

[60]۔ سورہ احقاف، آیت 15۔

[61]. سورہ نمل، آیت 19۔

[62]۔ علامہ طباطبائی، سید محمد حسین بن سید محمد، المیزان فی تفسیر القرآن، ج15، ص353 و 354؛ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج7، 336۔

[63]۔ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، ج7، ص368۔

[64]۔ الراغب الاصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن (ط دارالقلم)، ص868۔

[65]۔ سورہ حجرات، آیت 7۔

[66]۔ سورہ نحل، آیات 120-121۔

[67]۔ سورہ اسراء، آیت 3۔

[68]۔ سورہ فاطر، آیت 29-30۔

[69]۔ سورہ فاطر، آیات 33-34۔

[70]۔ سورہ شوری، آیت 23۔

[71]۔ سورہ بقرہ، آیت 158۔

[72]۔ سورہ نساء، آیت 147۔

[73]۔ سورہ تغابن، آیت 17۔

[74]۔ سورہ اعراف، آیت 10۔

[75]۔ سورہ مؤمنون، آیت 78۔

[76]۔ سورہ ملک، آیت 23۔

[77]۔ سورہ سجدہ، آیت 9۔

[78]۔ سورہ بقرہ، آیت 243۔

[79]۔ سورہ یوسف، آیت 38۔

[80]۔ سورہ یونس، آیت 60۔

[81]۔ سورہ غافر (مؤمن)، آیت 61۔

[82]۔ سورہ سباء، آیت 13۔

[83]۔ سورہ اعراف، آیات 14 تا 17۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha