8 اپریل 2025 - 15:12
جانور، اللہ کے کارگزار

خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: "اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دو کے درمیان ہے اس، کو بیہودہ پیدا نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کفر اختیار کر گئے ہیں"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

اللہ کے کارگزار

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

"وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا؛ [1]

اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دو کے درمیان ہے اس، کو بیہودہ پیدا نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کفر اختیار کر گئے ہیں"۔

حیوانات جو اللہ کے کارگزار ہوئے

"فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ؛ [2]

تو جب ہم نے ان [سلیمان] پر موت کا حکم جاری کیا تو کسی چیز نے ان [جِنّات] کو نہیں ان کی موت سے باخبر نہیں کیا سوا دیمک کے، جو کھا رہی تھی ان کی لاٹھی کو، تو جب وہ [سلیمان] گرے تو جِنَّات سمجھے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت آمیز سزا سے اتنے عرصے تک دوچار نہ رہتے"۔

قرآن کریم میں بارہا حیوانات کی کارگزاری کی طرف اشارہ ہؤا ہے، جیسے:

1۔ بنی اسرائیل کی گائے

خدائے متعال نے گائے کے جسم کے ایک حصے کے ذریعے ایک مقتول کو زندہ کیا اور اس نے اپنے قاتل کو متعارف کرایا:

"وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ؛ [3]

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔ انھوں نے کہا: [کیا] آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔ کہا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں"۔

"فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ؛ [4]

تو ہم نے کہا اسی گائے کا ٹکڑا اس پر مارو۔ اس طرح اللہ مردوں کو جلاتا ہے۔ اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے شاید اب بھی تم میں عقل آ جائے"۔

2۔ مکڑی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محافظت

ایک مکڑی نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت، غار کے دروازے پر جالا بُن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا:

"إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ؛ [5]

اگر تم آپؐ کی مدد نہ کرو گے تو (کیا ہؤا؟) اللہ نے [خود ہی] آپؐ کی مدد فرمائی اس وقت جب کافروں نے ان کو [مکہ] نکال دیا تھا، جب آپؐ دو میں سے ایک تھے جب وہ دونوں غار میں تھے، جب آپؐ اپنے ساتھ والے سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اپنی طرف کا سکون و اطمینان آپؐ پر اتارا اور آپؐ کوتقویت پہنچائی ایسی فوجوں سے جنہیں تم لوگوں نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو نیچا کیا اور اللہ کی بات سب سے بالا ہے".

3۔ کوا بنی نوع انسان کا معلّم بنتا ہے:

قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تو ان بھائی کی لاش چھپانے سے عاجز ہؤا؛ ارشاد ہوتا ہے:

"فَبَعَثَ اللّهُ غُرَاباً يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ؛ [6]

اب اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کرید رہا تھا کہ اسے دکھائے کہ وہ کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے"۔

ہُدہُد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قاصد

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملک سباء کی ملکہ بلقیس کو خط لکھ کر ہُدہُد کے ذریعے بھجوایا، اور ہُدہُد کو ہدایت کی کہ:

"اذْهَب بِّكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ؛ [7]

میرا یہ خط لے جا کر اسے ان کے یہاں ڈال دے، پھر ان کے پاس سے ہٹ آ تو پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں"۔

5۔ ابابیل اللہ کے کارگزار

ابابیل نے مکہ پر حملہ آور فیل سواروں کو سرکوب کر دیا؛ فرمایا:

"أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ * أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ * وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ * تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ * فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ؛ [8]

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ * کیا اس نے ان کی ترکیب کو بے کار نہیں کر دیا * اور ان پر غول پر غول پرندوں کے بھیج دئیے * جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے * تو انہیں ایسا کر دیا جیسے [مویشیوں کا] چبایا ہؤا بھوسہ ہو"۔ 

6۔ اژدہا نبوت کی حقانیت کا ذریعہ

اژدہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت و نبوت کی حقانیت کے اظہار کا ذریعہ بن گیا:

"قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ * فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ؛ [9]

اس نے کہا کہ اگر تم کوئی معجزہ لائے ہو تو اسے پیش کرو، اگر تم سچے ہو * انھوں نے اپنے عصا کو پھینک دیا جو ایک دم کھلا ہوا اژدہا بن گیا"۔

7۔ ایک مچھلی نے ایک نبی کو نگل لیا

گویا وہ مچھلی اللہ کی کارگزار تھی جس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا اور یوں انہیں اللہ ہی حکم سے ایک قسم کی سزا دی:

"فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ؛ [10]

تو انہیں مچھلی نے نگل لیا اس عالم میں کہ وہ اپنی سرزنش کر رہے تھے"۔

8۔ دیمک بھی کارگزار تھی

"فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ؛

تو جب ہم نے ان [سلیمان] پر موت کا حکم جاری کیا تو کسی چیز نے ان [جِنّات] کو نہیں ان کی موت سے باخبر نہیں کیا سوا دیمک کے، جو کھا رہی تھی ان کی لاٹھی کو، تو جب وہ [سلیمان] گرے تو جِنَّات سمجھے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت آمیز سزا سے اتنے عرصے تک دوچار نہ رہتے"۔

9. ایک کتّا اصحاف کہف کا محافظ

اصحاب کہف نے ایک غار میں پناہ لی تو ایک کتا ان کا محافظ بنا:

"وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ؛ [11]

اور تم سمجھتے ہو کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں، اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلوا دیتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا ہے"۔

10۔ ایک گدھے کا کردار!

ایک گدھا اللہ کی مشیت سے، سبب بنا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) حشر و معاد پر یقین کر لیں:

"أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؛ [12]

یا جیسے وہ آدمی جو ایک بستی سے گذرا جس کے دیوار و درکا ملبہ گری ہوئی چھتوں پر آچکا تھا؛ کہا اللہ کیونکر زندہ کرے گا اس (بستی کے مکینوں) کو موت کے بعد۔ تو اسے اللہ نے سو برس تک کے لئے مار ڈالا، پھر اسے اٹھا لیا؛ کہا کتنے عرصے تک تم اس طرح رہے؟ کہا میں اس حالت میں ایک دن یا دن کے کچھ حصے تک رہا۔ کہا بلکہ تم سو برس پڑے رہے ہو؛ تو اب دیکھواپنے کھانے پینے کی چیزوں کو کہ وہ خراب نہیں ہوئی ہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو اور یہ اس لئے کہ تمہیں ہم نشانی قرار دیں لوگوں کے لئے اور تم دیکھو ہڈیوں کو کہ کس طرح ہم انہیں کھڑا کرتے ہیں پھران پرگوشت چڑھاتے ہیں۔ جب اس پر یہ ثابت ہوگیا تو کہا میں یقینی طورپر جانتا ہوں کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے"۔

11۔ چار پرندے جو خلیل الرحمٰن (علیہ السلام) کے اطمینان کا سبب بنے

چار پرندے (یعنی مور، کبوتر، مرغا اور کوا) حشر و معاد کے بارے میں ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے اطمینان کا سبب بنے:

"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ؛ [13]

اور یاد کر جب ابراہیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا؟ فرمایا: کہ کیا تمہیں یقین نہیں ہے؟ کہا کیوں نہیں! لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے۔ فرمایا تو چار پرندے لے لو پھر [انہیں مار ڈالو اور] ان کے ان کے ٹکڑے کرکے [پیس] ڈالو اور ساتھ ملا لو اور  پھر ہر پہاڑ پر اس میں سے ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر ان کو بلا دو تو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لو کہ بے شک الله بہت زبردست ہے بہت حکمت والا"۔

12۔ قربانی کے جانور "شعائر اللہ"

حج بیت اللہ کے موقع پر قربانی کے اونٹ، [بیل اور بکرے] شعائر اللہ کی حیثیت اختیار کرتے ہیں:

"وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ؛ [14]

اور قربانی کے موٹے تازہ اونٹ، انہیں ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر میں سے قرار دیا ہے، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے"۔

14۔ جانور خداشناسی کا وسیلہ

خدائے متعال نے اونٹ کو آسمان، پہاڑوں اور زمین کے ساتھ، خداشناسی کا وسیلہ قرار دیا:

"أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ * وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ * وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ * وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ؛ [15]

تو کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ یہ کیونکر پیدا کئے گئے ہیں * اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیوں کر بلند ہؤا * اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیوں کر قائم کئے گئے * اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیوں کر بچھائی گئی"۔

14۔ حیوانات، آزمانش کا ذریعہ

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ؛ [16]

اے ایمان لانے والو ! اللہ کو تمہاری آزمائش کرنا ہے ایک طرح کے شکار کے ساتھ جسے تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پا جائیں تاکہ اللہ پتہ چلائے کہ کون بے دیکھے اس سے ڈرتا ہے تو جس نے اس کے بعد حد سے تجاوز کیا، اس کے لئے درد ناک عذاب ہے"۔ 

15۔ جانور اللہ کا اعجاز

حضرت صالح (علیہ السلام) نے معجزے کے طور پر ایک اونٹنی اپنی قوم کے سامنے پیش کردی:

"وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحاً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً؛ [17]

اور [ہم نے] ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو [بھیجا] انھوں نے کہا اے میری قوم والو! عبادت کرو اللہ کی، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے؛ تمہارے پاس آیا ہے ایک خاص معجزہ تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک قدرتی نشانی ہے تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے اور اسے ذرا بھی تکلیف نہ پہنچانا، نہیں تو تمہیں درد ناک عذاب اپنی گرفت میں لے لے گا"۔

16۔ جانور عذاب کا ذریعہ

جانور اللہ کے قہر و غضب کا ذریعہ بن گئے:

"فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلاَتٍ؛ [18]

تو ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون [جو ان کے زندگی کے وسائل کو آلودہ کر دیتا تھا]، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے۔ سو وه تکبر کرتے رہے اور وه لوگ جرائم پیشہ ہی تھے"۔

17۔ ایک چھوٹا جانور انسانوں کی قوت کی کسوٹی: مکھی

"إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ؛ [19]

یہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر دہائی دیتے ہو، یہ حتی کہ ایک مکھی کو بھی ہرگز پیدا نہیں کر سکتے چاہے وہ سب اس کے لئے اکٹھے ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے طالب و مطلوب دونوں ہی بے بس"۔

18۔ وہ بھی تمہاری طرح کی امتیں ہيں

زمین پر چلنے والے اور ہوا میں اڑنے والے سب تمہاری طرح کی امتیں ہیں:

"وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ؛ [20]

اور کوئی چلنے والا زمین میں نہیں اور نہ کوئی پرندہ کہ اپنے دوبازؤں سے اڑتا ہے مگر یہ تمہاری ہی طرح کی امتیں ہیں ہم نے ان کی تقدیر کے لکھنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع کئے جائیں گے"۔

19۔ مچھر اللہ کا کارگزار

نمرود کا مختصر قصہ

نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوح، بابل کا بادشاہ تھا۔ کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ وہ حام بن نوح کی نسل سے تھا۔ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا آزر کا چچیرا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا۔ قرآن کریم میں نمرود کا نام نہیں آیا ہے لیکن اس کے کرتوتوں کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے۔

نمرود کی مختصر داستان یہ ہے کہ اس نے تکبر و استکبار کا راستہ چن لیا، ایک طرف سے بت پرست تھا اور دوسری طرف سے خدائی کا دعویدار؛ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دعوت توحید کی پاداش میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور انہیں آگ میں پھینکوا دیا اور انہیں زندہ پایا تو انہیں رہا تو کر دیا لیکن ایمان نہیں لایا۔ اللہ نے فرشتے کے ذریعے اس کی نصیحت کا اہتمام کیا لیکن وہ اپنے شرک پر بضد رہا۔ فرشتے نے اللہ کی طرف سے اس کو ہلاکت کی وعید بھی دی لیکن اسے اپنے لاؤ لشکر پر ناز تھا بالآخر اللہ نے اس کو اپنی کمزور ترین مخلوق کے ذریعے کچل ڈالا۔ اس کا لشکر مچھروں کے حملے میں برباد ہو گیا اور خود بھی ایک مچھر کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔

نمرود کی شکست قرآن کریم کے بیان میں

"وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ؛ [21]

ان [نمرودیوں] نے ابراہیم (علیہ السلام) [کے قتل اور شکست کے لئے] مکر کرنے [اور منصوبہ بنانے] کا ارادہ کیا تو ہم نے انہیں بہت زیادہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے قرار دیا"۔

کلام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) میں نمرود کی ہلاکت کی طرف اشارہ

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وہ بدھ کا دن تھا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا گیا، اور ۔۔۔ [آخرکار] بدھ ہی کا دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر نمرود پر مسلط کر دیا"۔ [22]

ایک زندیق کے ساتھ مناظرے میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا مچھر اور نمرود کی طرف اشارہ

"جہاں تک مچھروں اور کیڑوں کا تعلق ہے تو ان کی خلقت کا ایک مقصد یہ ہے کہ انہیں پرندوں کا رزق بنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ایک ظالم و جابر [حکمران، نمرود بن کنعان] کو خوار و ذلیل کیا؛ جس نے خدا سے بغاوت کی، تکبر کیا اور اس کی ربوبیت کا انکار کیا۔ چنانچہ خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے کمزور مخلوق کو اس پر طاقت بخشی کور مسلط کیا تاکہ اس کو اپنی قدرت اور عظمت دکھائے، اور وہ کمزورترین مخلوق مچھر ہے، جو اس [نمرود] کے نتھنے میں داخل ہؤا یہاں تک کہ اس کے دماغ تک پہنچ گیا، اور اسے ہلاک کردیا"۔ [23]

نمرود کی ہلاکت ابن عباس کی روایت میں

عبداللہ بن عباس سے مروی ہے:

"مچھر نے نمرود کے ہونٹ کو کاٹا، نمرود نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن مچھر اس کی ناک کے اندر داخل ہؤا۔ اس نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن مچھر اس کے دماغ میں داخل ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن تک اس [مچھر] کے ذریعے اسے آزار و اذیت میں مبتلا رکھا اور آخرکار اس نے نمرود کو ہلاک کر ڈالا"۔ [24]

**************

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

[1]۔ سورہ ص، آیت 27۔

[2]۔ سورہ سباء، آیت 14۔

[3]۔ سورہ بقرہ، آیت 67۔

[4]۔ سورہ بقرہ، آیت 73۔

[5]۔ سورہ توبہ، آیت 40۔

[6]۔ سورہ مائدہ، آیت 31۔

[7]۔ سورہ نمل، آیت 28۔

[8]۔ سورہ فیل، قرآن کریم کا 105واں سورہ۔

[9]۔ سورہ اعراف، آیات 106-107۔

[10]۔ سورہ صافات، آیت 142۔

[11]۔ سورہ کہف، آیت 18۔

[12]۔ سورہ بقرہ، آیت 259۔

[13]۔ سورہ بقرہ، آیت 260۔

[14]۔ سورہ حج، آیت 36۔

[15]۔ سورہ غاشیہ، آیات 17 تا 21۔

[16]۔ سورہ مائدہ، آیت 94۔

[17]۔ سورہ اعراف، آیت 73۔

[18]۔ سورہ اعراف، آیت 133۔

[19]۔ سورہ حج، آیت 73۔

[20]۔ سورہ انعام، آیت 38۔

[21]۔ سورہ انبیاء، آیت 70۔

[22]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص388؛ وہی مصنف، علل الشرائع، ج2، ص597۔

[23]۔ ابومنصور الطبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، ج2، ص86؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج10، ص173؛ ج12، ص37۔

[24]۔ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج2، ص169؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج12، ص18۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha