بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مورخہ 9 دسمبر، وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ـ خاویر پیریز دے کوئیار (Javier Pérez de Cuéllar) ـ نے عراق کو ایران کے خلاف جنگ کا ذمہ دار اور جنگ آغاز کرنے والا قرار ملک، دیا تھا، اس موقع پر اس بات کا جائزہ لینا ـ کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے کیا رویہ اپنایا، ـ یہ واضح کرنے کے لئے موزون موقع ہے کہ "اس بین الاقوامی ادارے نے عراق کی دو فوجی جارحیتوں کے سامنے بالکل دوغلا اور غیر منصفانہ رویہ اپنایا۔"
ایک ہی جیسی صورتحال؛ لیکن اقوام متحدہ کے دو مختلف رویئے!!
** کویت پر حملے کے معاملے میں اقوام متحدہ کا فوری اقدام، جس میں عراق کو جارح قرار دیا گیا اور عراقی فوجیوں کے کے لئے مقررہ حد (Deadline) مقرر کی گئی، اس کے برعکس ایران کے معاملے میں اس تنظیم کی ٹال مٹول اور سست روی، واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے بعض اراکین واضح طور پر دشمنی اور تعصب سے کام لیتے رہے اور اس ادارے کا عمل بالکل غیر منصفانہ رہا۔
* ایران اور عراق کے مابین آٹھ سالہ جنگ کے دوران، سلامتی کونسل نے مجموعی طور پر 11 قراردادیں منظور اور جاری کر دیں جن میں سے 3 کیمیائی ہتھیاروں کے معاملات پر اور 8 جنگ کے حوالے سے تھیں؛ جبکہ عراق - کویت جنگ کے ایک سال کے دوران، سلامتی کونسل نے 40 قراردادیں منظور اور شائع کر دیں۔ اس بنیاد پر، اگر کسی ملک پر حملہ کیا جائے اور امن کی خلاف ورزی ہو، تو سلامتی کونسل کو کارروائی کرنی چاہیے، یہاں تک کہ فوجی کارروائی کا اختیار بھی ہے، اور اس معاملے میں اس نے مداخلت کی۔
* اقوام متحدہ نے نہ صرف مسلط کردہ جنگ کے دوران عراق کو ایران سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا اور مجرم قرار نہیں دیا بلکہ اس کو 'جارح' کے طور پر بھی متعارف نہیں کرایا، [کیونکہ یہ جارحیت مغرب کی مرضی کے مطابق تھی]۔ آٹھ سال تک عراق پر مسلط بعثی حکومت کے جرائم و مظالم کے دوران اس ادارے کی کوشش صرف جنگ بندی کے اعلان پر اصرار، تک محدود رہی، جو نہ صرف ایران کے لیے فائدہ مند نہیں تھی بلکہ اسلامی ایران کی علاقائی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا رہی تھی۔
* اس وقت کے ایرانی حکام کی طرف سے اقوام متحدہ کے اراکین کو قراردادوں میں ترمیم پر قائل کرنے کی بہت سی کوششوں کے باوجود، آخر کار قرارداد نمبر 598 میں بھی عراق کو جارح قرار نہیں دیا گیا اور اس کا تعین مستقبل پر چھوڑ دیا گیا۔
ایران پر مسلط کردہ جنگ کے تقریباً 3 سال بعد، اور ایک عمل کے ذریعے ـ شاید کویت پر حملے کی وجہ سے عراق سے بدلہ لینے کی غرض سے ـ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کو ایک رپورٹ بھیج کر عراق کو جارح قرار دیا، لیکن سلامتی کونسل نے پھر بھی اس کی توثیق نہیں کی۔
* بہرحال، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کی توثیق کرنی چاہئے تھی اور باضابطہ طور پر عراق کو جارح قرار دینا چاہئے تھا، لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بیان اور رپورٹ کو ایران پر عراق کی فوجی جارحیت کو سرکاری دستاویزات اور رائے عامہ باضابطہ طور پر میں ثبت کر دیا، لیکن اس سے ایران کو اپنے نقصانات کا ازالہ کرنے کے حوالے سے عراق سے مطالبہ کرنے اور معاوضہ وصول کرنے میں مدد نہیں ملی۔
* اگر ہم اس رویے پر غور کریں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق کی کویت پر جارحیت کے ساتھ روا رکھا، اور اس کا موازنہ عراقی فوج کی ایران کی سرزمین پر جارحیت سے کریں، تو دیکھتے ہیں کہ کویت پر قبضے کے پہلے دن سے ہی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق کو جارح قرار دیا، عراق کی کویت پر فوج کشی کی مذمت کی، عراق کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کاروائی کی اور کویت کو اس جارحیت سے ہونے والے براہ راست اور بالواسطہ نقصانات کا تخمینہ لگایا، اور عراق سے آخری ڈالر تک وصول کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سید محمد حسین راجی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ