بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے دونوں ممالک سے اپیل کی ہے وہ ایران اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی حمایت کرتے ہوئے مغرب کی پابندیوں کے خلاف کھڑے ہوں۔
مغربی ممالک کی طرف سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کے اقدامات کے بعد، عباس عراقچی نے سری لنکا کے وزیر خارجہ ویجیتا ہیراتھ (Vijitha Herath) کے نام خط میں ایران کے خلاف امریکہ اور مغرب کے اقدامات پر تنقید کی۔
سری لنکا میں ایران کے سفیر علی رضا دل خوش نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اس وقت بین الاقوامی قانون "امریکہ کے ہاتھ میں کھلونا" بن گيا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ بین الاقوامی قانون کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
عراقچی کا یہ خط اس وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ مہینے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خط لکھ کر ایران پر اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔
ایٹمی معاہدے (JCPOA) کی شرائط پر مغرب کی جانب سے وعدہ شکنیوں کی طرف اشارہ کئے بغیر 28 ستمبر 2025ع کو 'ٹریگر میکانزم' فعال کر دیا، جس کے نتیجے میں مذکورہ معاہدے کے نفاذ کے ساتھ ختم ہونے والی اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ ایران پر عائد کر دی گئیں۔
سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے سری لنکا کے وزیر خارجہ اور مالدیپ کے وزیر خارجہ کو لکھا ہے کہ "ہمیں بین الاقوامی قوانین کا تحفظ کرنا چاہئے، یہ صرف ایران کی بات نہیں ہے، یہ بین الاقوامی قانون کے وقار کا مسئلہ ہے!"
انہوں نے کہا کہ "آج، ایران ہدف ہے، کل یہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک اور پرسوں، شاید افریقی ممالک ہوسکتے ہیں۔ میڈیا کو عوام کے سامنے یہ واضح کرنا چاہئے،"
انہوں نے کہا: ہمیں بین الاقوامی آداب کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ یہ آداب اور اصول انسانیت کے دو عالمی جنگوں کے تلخ تجربوں کے نتیجے میں وضع کئے گئے ہیں۔ ہم ان آداب اور انسانی وقار کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور صرف یہ کہہ کر ہتھیار نہیں ڈال سکتے کہ "بس امریکہ جو چاہے، کر سکتا ہے۔"
سفیر نے یہ بھی کہا: "ہم نے سری لنکا اور مالدیپ کے وزرائے خارجہ کو خط بھیجا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔"
اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ یہ لمحہ بین الاقوامی قانون کے وقار و اعتبار کے لئے ایک اہم آزمائش ہے۔
ایرانی سفیر نے وضاحت کی کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جو زیرِ بحث ہیں، خاص طور پر ایران کے جوہری تنصیبات سے متعلق تجارت کو نشانہ بناتی ہیں اور دوسرے شعبوں جیسے چائے، تیل، ادویات، خوراک یا دیگر تجارتی شعبوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کے یہ غیر قانونی اقدامات جوہری پروگرام سے متعلقہ تعاون تک محدود ہیں۔
علی رضا دلخوش نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ قراردادیں ایران کی دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو، جن میں سری لنکا جیسے شراکت دار یا چین جیسی بڑی معیشتیں شامل ہیں، براہِ راست متاثر نہیں کرتیں۔
تاہم، انھوں نے تسلیم کیا کہ نقل و حمل کے شعبے میں کچھ اثرات ہیں، کیونکہ یہ قراردادیں یہ یقینی بنانے کے لئے ایرانی جہازوں اور ان کے کارگو کے معائنے کی اجازت دیتی ہیں کہ ان میں جوہری پروگرام سے متعلقہ اشیاء موجود نہ ہوں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے ایران اور سری لنکا کے موجودہ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان سیاسی میدان میں "بہت اچھے تعلقات" ہیں اور کثیرالجہتی فورمز پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ تجارت جاری ہے اور فریقین مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کے انعقاد کے منتظر ہیں۔ ثقافتی شعبے میں تعاون بھی جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ