اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایک خصوصی انٹرویو میں نیویارک میں ایران، امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان ہونے والی حالیہ سفارتی پیش رفت، غزہ میں جاری صورتحال، جوہری مذاکرات، اور امریکہ و اسرائیل سے متعلق ایران کے مؤقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ فلسطینی عوام، مزاحمتی تحریکوں اور غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران ہر اُس کوشش کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل کی جانب سے جاری مظالم کو روکنے، انسانی امداد کی فراہمی اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے ہو۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل پر کبھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ماضی میں بھی اس نے کئی بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
عراقچی نے کہا کہ غزہ میں موجودہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جزوی طور پر اسرائیلی افواج نے علاقہ چھوڑا ہے، مگر اب بھی غزہ کا تقریباً پچاس فیصد علاقہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے آئندہ مراحل کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کا مؤقف نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ مکمل اور واضح ہے۔ ایران جنگ بندی کے مثبت پہلوؤں کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمی برادری کو اسرائیلی جرائم پر خاموشی نہ اختیار کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی جرائم پر مقدمات اور بین الاقوامی سطح پر کارروائی کی ضرورت برقرار ہے۔
وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ایران کا امریکہ یا کسی اور ملک سے فلسطین یا مزاحمتی گروہوں سے متعلق کوئی خفیہ یا علانیہ رابطہ یا مذاکرات نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا دائرہ صرف اور صرف جوہری معاہدے تک محدود ہے، اور ایران اس مؤقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
عراقچی نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کو بھی رد کر دیا جس میں انہوں نے ایران کی ممکنہ شمولیت کو "ابراہیم معاہدے" میں ممکن قرار دیا تھا۔ عراقچی نے کہا کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور اسرائیل جیسے جعلی اور قابض ریاست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اس لیے ایران اس کا حصہ کبھی نہیں بنے گا۔
انہوں نے امریکہ کے اس مطالبے کو بھی ناقابل قبول قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران 60 فیصد یورینیم کی افزودگی ترک کرے تو ’اسنپ بیک‘ میکانزم کو صرف چھ ماہ کے لیے مؤخر کیا جائے گا۔ عراقچی نے کہا کہ یہ مطالبہ انتہائی غیر منطقی اور یکطرفہ ہے، جسے ایران نے مسترد کر دیا۔
مزید برآں، عراقچی نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ فی الحال ایران یورپی ممالک کے ساتھ بھی مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، کیونکہ ماضی میں کیے گئے وعدے نبھانے میں وہ ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ یا کوئی اور ملک برابر کی سطح پر، احترام کے ساتھ اور ایران کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذاکرات کا کوئی ٹھوس اور عملی منصوبہ پیش کرے، تو ایران اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔
آپ کا تبصرہ