بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق: صدر موصوف ہفتے کی شام 27 ستمبر کو نیویارک سے تہران واپس پہنچ گئے ہیں۔ صدر نے نیویارک میں مصروف وقت گذارا۔ مبصرین نے صدر پزشکیان اور امریکی صدر کے درمیان ملاقاتو کے بارے میں قیاس آرائیاں کی تھیں لیکن صدر پزشکیان نے کہا تھا کہ جو ایک طرف سے جبر اور تکبر برتتا ہے اس کے ساتھ بات چیت ممکن نہیں ہے۔
صدر پزشکیان کی 11 ملاقاتیں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں :صدر کی پُرعظمت تقریر اس سفر کی پہلی اہم بات تھی۔ اس تقریر میں صدر پزشکیان نے ایران پر 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکہ کے حملوں اور ان کے انسانیت سوز جرائم کی تصاویر دکھا کر اسلامی جمہوریہ ایران کی حقانیت کو واضح کیا۔
• نیویارک میں صدر کی پہلی ملاقات فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ ہوئی۔ صدر پزشکیان نے اس ملاقات میں زور دے کر کہا کہ "ایران ہرگز ایٹم بم بنانے کے درپے نہیں ہے اور وہ یورپی فریقوں کے ساتھ قابل قبول فریم ورک میں میں جوہری مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہے۔"
• دوسری ملاقات ناروے کے وزیر اعظم کے ساتھ ہوئی۔ صدر نے اس موقع پر کہا کہ "اگر اسنیپ بیک میکانزم فعال ہو جاتا ہے تو پھر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہے گا۔" انھوں نے کہا کہ "مغربی ممالک کو اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہئے تاکہ مفاہمت ممکن ہو سکے۔ موجودہ صورت حال مغربی فریق کی وعدہ خلافی اور عہدشکنی کا نتیجہ ہے۔"
• اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر تیسری ملاقات یورپی کونسل کے صدر کے ساتھ ہوئی جس میں صدر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو واضح طور پر بیان کیا۔
• نیویارک میں چوتھی اہم ملاقات جنگ مخالف کارکنوں کے ساتھ ہوئی۔ صدر پزشکیان نے امریکی زیادتیوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ایران امن اور سکون چاہتا ہے، لیکن کبھی جبر کے سامنے نہیں جھکتا۔ اگرچہ پابندیوں کا واپس آنا ناخوشگوار ہے، لیکن یہ راستے کا اختتام نہیں ہے اور ہم ہار نہیں مانیں گے۔"
• پانچویں ملاقات میں صدر پزشکیان نے سوئٹزرلینڈ کی صدر سے بات چیت کی اور ایران کے اپنی مرضی سے یورینیم افزودگی کے حق پر اسلامی جمہوریہ ایران کا واضح موقف پیش کیا۔
• چھٹی ملاقات فن لینڈ کے صدر کے ساتھ ہوئی، جس میں صدر نے نشاندہی کی کہ "امریکہ اور یورپی ممالک کی وعدہ خلافی اور بات چیت کے دوران ایران پر فوجی حملے کی وجہ سے مغرب پر عدم اعتماد پایا جاتا ہے، لیکن سفارت کاری اس عدم اعتماد کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔"
• ساتویں ملاقات بولیویا کے صدر کے ساتھ ہوئی جس میں صدر نے زور دے کر کہا کہ "اسلامی جمہوریہ ایران ہر طرح کے منظر نامے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے اور ہماری پالیسیاں نئی صورت حال کے مطابق ترتیب دی جائیں گی۔"
• آٹھویں ملاقات اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ہوئی۔ صدر پزشکیان نے اس موقع پر اقوام متحدہ کے یادگاری رجسٹر میں ایک نوٹ لکھا اور زور دے کر کہا کہ "23 ستمبر 2025 کی میٹنگ میں، ہم نے صہیونی ریاست کی قانون شکنی اور امریکہ کی طرف اس کے جرائم کی مکمل کے عینی گواہ ہیں۔ امید ہے کہ اقوام متحدہ کے ارکان عملی طریقہ کار کے ذریعے دنیا میں نفاذِ قانون کی صلاحیت حاصل کر لیں۔"
• نویں ملاقات کویت کے ولی عہد کے ساتھ ہوئی جس میں صدر نے کہا کہ "مذہبی تعلیمات اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تعلیمات و ہدایات کی بنیاد پر، مسلمان بھائی بھائی ہیں اور اختلافات کو بات چیت اور خلوص کے ساتھ حل کرنا چاہئے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسلامی امت کی وحدت اور یکجہتی کو مضبوط کریں اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دیں تاکہ تمام مسلمان قوموں کے لئے سلامتی، خوشحالی اور سکون فراہم ہو سکے۔"
• دسویں ملاقات عراق کے صدر کے ساتھ ہوئی۔ صدر نے اس ملاقات میں کہا کہ "مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن دشمن ہمیشہ اختلافات میں شدت لانے اور اسلامی ممالک کے درمیان مسائل پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں؛ یہ کوششیں ایران اور عراق کے معاشروں کے اندر بھی جاری ہیں، جنہیں دونوں ملکوں میں ناکام بنانا چاہئے۔"
• نیویارک میں صدر کی آخری اور گیارہویں ملاقات امریکہ میں مقیم ایرانیوں کے ساتھ تھی۔ صدر پزشکیان نے اس موقع پر نشاندہی کی کہ "خدمات انجام دینے کے جذبے اور عزم پر کوئی قیمت نہیں رکھی جا سکتی۔ ایران ایسے افراد سے بھرا پڑا ہے جو خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور انہیں کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے تاکہ وہ ان لوگوں کی جگہ لے سکیں جو سیاست بازی اور عیاری کے درپے ہیں۔ اگر ہم صرف یہی ایک کام کر لیں تو ملک صحیح راستے پر گامزن ہو جائے گا۔"
.................
آپ کا تبصرہ