17 ستمبر 2025 - 01:17
چین نے کاروباری امریکہ کو کاروبار کے ذریعے، سمندر میں، چیلنج کر دیا

ان دنوں چین کی جہاز سازی کی صنعت غیر معمولی رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور اس نے نصف سے زیادہ عالمی منڈی پر قبضہ کر لیا ہے، امریکی ٹیرف پالیسیوں نے اس صنعت کو دنیا کی دو اقتصادی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ کا ایک نیا مرکز بنا دیا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ہاز سازی کی صنعت جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سے ممالک کی اقتصادی تعمیر نو کے انجن کے طور پر جانی جاتی تھی، اب چین اور امریکہ کے درمیان براہ راست مقابلے کا میدان بن چکی ہے۔

چین نے پچھلی دہائی میں قابل ذکر تیزرفتاری سے دنیا کی پہلی پوزیشن حاصل کی ہے اور دنیا میں بحری جہازوں کی 50% پیداواری صلاحیت اپنے نام کر لی ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جو امریکہ کے لئے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، جاپان پہلا ملک تھا جس نے اپنی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے کے لئے جہاز سازی پر انحصار کیا۔ 1950 سے 1990 کی دہائی تک جاپان اس صنعت کے اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ تاہم، 21ویں صدی کے آغاز سے، جنوبی کوریا نے کچھ مدت کے لئے، دوبارہ، پہلا مقام حاصل کر لیا۔

تاہم، 2010 سے، چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، معاون پالیسیوں اور بے مثال پیداواری صلاحیت کے ساتھ عالمی جہاز سازی کی بلا منازع (Uncontested) طاقت بن گیا ہے۔

بیجنگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2020 سے 2024 تک اس ملک میں جہازوں کی پیداوار میں سالانہ اوسطاً 14.2٪ اضافہ ہؤا ہے۔ 2024 میں، کل عالمی پیداوار میں چین کا حصہ 50.1٪ تھا اور اس نے 67٪ سے زیادہ نئے آرڈرز کا اپنے نام کر لیے۔

یہ اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ چین نہ صرف تجارتی بحری جہازوں کے میدان میں بلکہ طیارہ بردار بحری جہازوں اور مائع قدرتی گیس لے جانے والے جہازوں جیسے تزویراتی شعبوں میں بھی آگے ہے۔

بہرحال، امریکہ اس ترقی کو اپنے مفادات کے لئے براہ راست خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے خلاف اپنی سخت تجارتی پالیسیاں نافذ کرتے ہوئے اس ملک میں تیار ہونے والے بحری جہازوں پر بھاری محصولات عائد کئے ہیں۔ اس کارروائی کی وجہ سے 2025 کی پہلی ششماہی میں چینی جہازوں کے نئے آرڈرز میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی۔

چائنا نیشنل شپ بلڈنگ انڈسٹری ایسوسی ایشن کے مطابق، جنوری سے جون 2025 تک ملک کی جہازوں کی پیداوار تقریباً 24.13 ملین DWT تھی، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 3.5 فیصد کم ہے۔ اسی مدت کے دوران، نئے آرڈرز 18.2 فیصد کم ہوکر 44.33 ملین DWT تک پہنچ گئے۔

ان دباؤ کے باوجود چین نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے۔ 2025 کی پہلی ششماہی میں، ملک نے عالمی پیداوار کا 51.7%، نئے آرڈرز کا 68.3% اور زیر تعمیر آرڈرز کا 64.9% حصہ حاصل کر لیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی مالکان کی ایک اچھی خاص تعداد نے، امریکی ٹیرف کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کے خدشات کے باوجود، اب بھی چینی شپ یارڈز کے ساتھ اپنے تعمیراتی معاہدے جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے۔

مثال کے طور پر، سال کی پہلی ششماہی میں آرڈر کیے گئے 195 کنٹینر جہازوں میں سے، 133 چینی یارڈز میں رجسٹرڈ تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جہاز سازی محض ایک اقتصادی صنعت نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، یہ چین کے لئے ایک جغرافیائی-سیاسی وسیلہ ہے۔ چین نے پیداواری صلاحیت پر انحصار کرتے ہوئے یہ ملک نہ صرف ملازمتیں پیدا کرنے اور بڑی مقدار میں زرمبادلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ اس نے فوجی اور بحری نقل و حمل کے شعبوں میں، دوسری طاقتوں پر، انحصار بھی کم کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، اس شعبے میں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی محاذ آرائی ابھی شروع ہوئی ہے، اور عالمی تجارت میں بحری نقل و حمل کی تزویراتی حیثیت کے پیش نظر (جبکہ دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ تجارت سمندر کے ذریعے کی جاتی ہے)، آنے والے سالوں میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تصادم میں جہاز سازی سب سے اہم محاذ بن سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha