بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سیاست کی دنیا میں، "مذاکرات" کا لفظ ہمیشہ امن، بات چیت اور اختلافات کے حل کا پیکر رہا ہے۔ لیکن امریکہ جیسی حکومتوں اور غاصب صہیونیوں جیسی کچھ ریاستوں کے لئے، مذاکرات مصالحت کا ذریعہ نہیں، بلکہ دھوکہ دہی، جعل سازی اور آخر میں قتل کا اوزار ہے۔ لبنان سے لے کر ایران اور اب قطر تک حالیہ برسوں کے تلخ تجربات، سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کھلاڑیوں کی لغت میں "مذاکرات کی میز" بات چیت کے بجائے میزائل داغنے لانچر کی حیثیت رکھتی ہے۔
"مذاکرات کا وعدہ" مقاومت پر قابو پانے کا ذریعہ
27 ستمبر 2024 مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا؛ وہ دن جب حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصرالله، ضاحیہ بیروت پر ایک شدید حملے میں شہید ہو گئے۔ حالانکہ حزب اللہ نے مغربی ممالک خاص طور پر فرانس اور امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر غور کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تھا، اس دن مقاومت کے دارالحکومت [بیروت] میں ان کے ہیڈکوارٹر پر 85 ٹن سے زیادہ بم اور میزائل گرائے گئے۔
ظاہری طور پر، جنگ بندی کے لئے بات چیت جاری تھی؛ لیکن عملی طور پر، صہیونی ریاست نے ایک مہلک ترین دہشت گردانہ کاروائی تیاری کر لی تھی۔ ایک ایسی ریاست جس نے ہمیشہ "مذاکرات" کے لفظ کا غلط استعمال کیا ہے اور اسے معلوماتی اور فوجی آپریشنز کے لئے ایک لبادے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
مذاکرات کی میز بارودی سرنگوں کا میدان؟
اس قتل سے چند ماہ پہلے، حماس کے ایک اعلیٰ رہنما "اسماعیل ہنیہ" کو صہیونی حکومت کی جانب سے ایک ٹارگٹڈ حملے میں شہید کیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد، مغربی ممالک خاص طور پر فرانس اور امریکا نے صہیونیوں کے اقدام کی مذمت کرنے کے بجائے، تہران کو یہ پیغامات بھیجے کہ اگر ایران خود پر قابو رکھے اور جواب نہ دے تو "مذاکرات" اور "مسائل کے حل" کا امکان پیدا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں، ایک ایسا میکانیزم متحرک کیا گیا جس کا مقصد جواب میں تاخیر اور متقابل کارروائی کو ملتوی کرنا تھا، تاکہ ایران کی تسدیدی صلاحیت (ڈیٹرنس) کم کیا جا سکے۔
درحقیقت، "مذاکرات کا وعدہ" مقاومت کی ردعمل پر قابو پانے کا ایک ذریعہ بن گیا تھا۔ ایران، جو امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے پانچویں دور کی تیاری کر رہا تھا، امریکہ اور صہیونی ریاست کی جانب سے ایک مربوط حملے کا نشانہ بنا۔
اگرچہ ایران نے اس کا جواب ایک انتقامی اور غیر معمولی کارروائی کے ذریعے دیا، لیکن ماضی کے تجربوں میں ایک نئے تجربے کا اضافہ ہؤا: وہ تجربے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ جب بھی مقاومت مذاکرات کے قریب آتی ہے، خون کی بو محسوس ہونے لگتی ہے۔
دوحہ، مکارانہ سفارت کاری کا شکار
گزشتہ منگل کو دنیا نے پھر وہی منظر دیکھا۔ اس بار لبنان یا ایران میں نہیں بلکہ قطر کے پرسکون اور نسبتاً غیر متنازعہ اور معمولی سے دارالحکومت میں۔ تحریک حماس کے نمائندے، امریکی حکومت کی ثالثی اور جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر سنجیدہ مذاکرات کا وعدہ دیتے ہوئے، دوحہ کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ لیکن سفارت کاری کے دروازے کھلنے کے بجائے ان پر آسمان ٹوٹ پڑا۔
ایک سرپرائز آپریشن میں اسرائیل کے دس جنگی طیاروں نے دوحہ میں حماس کے وفد کی رہائش گاہ کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اگرچہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مذاکرات جاری ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور تھی: فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں کو قتل کرنے کا ایک منصوبہ بند پراجیکٹ۔
صہیونی ریاست اس کارروائی میں ناکام رہی اور اپنے ہدف کو حاصل نہ کرسکی [بالکل غزہ کی طرح]، لیکن ان کا اصل ہدف قتل میں 100 فیصد کامیابی نہیں تھی، بلکہ ایک پیغام دینا تھا اور وہ یہ "ہم کہیں بھی اور کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ممالک کے دل قلب میں بھی۔"
آپریشن کے پس پردہ: فریب اور سفارتکاری کے ساتھ غداری
واشنگٹن پوسٹ کے ایک تجربہ کار صحافی ڈیوڈ اگنٹیئس نے ایک انکشافی رپورٹ میں قطری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "موساد اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے پہلے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ حماس کے رہنما قطر میں محفوظ رہیں گے۔ درحقیقت انہیں ایک قسم کا غیر تحریری سفارتی استثنیٰ دیا گیا تھا۔ لیکن یہ وعدہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔"
صہیونی اخبار "معاریو" نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ "دوحہ پر حملے کی کارروائی کی منصوبہ بندی ہفتوں پہلے کی گئی تھی اور اسرائیل کی داخلی سلامتی کی تنظیم (شن بیت) اسے انجام دینے کے لیے صرف مناسب موقع کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا اصل نشانہ حماس کے رہنماؤں کا اجلاس تھا، جو امریکہ کی دعوت پر مذاکرات کے لئے بلایا گیا تھا۔ ان شخصیات کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات غالباً اس مذاکراتی عمل اور سرکاری دعوت کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں۔
"وال اسٹریٹ جرنل" نے بھی رپورٹ دی ہے کہ کہ حملہ دس اسرائیلی جنگی جہازوں کی براہ راست شمولیت سے انجام پایا اور اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی اخبار "اسرائیل ہیوم" نے اس سے بھی آگے بڑھ کر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تمام یرغمالیوں کو ایک ہی دن میں رہا کرنے کا تجویز کردہ منصوبہ، ایک فریب کاری کے سوا کچھ نہیں تھا؛ ایک ایسی چال جو حماس کے رہنماؤں کو ایک جگہ جمع کرنے اور قتل کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے تھی۔
مذاکرات، فوجی کارروائیوں کو آسان بنانے کا ایک ذریعہ!
ان واقعات کے باریک بینانہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور صہیونی ریاست کی خارجہ پالیسی کے نظریے میں، مذاکرات جنگ کے متبادل کے طور پر نہیں، بلکہ فوجی کارروائیوں کو آسان بنانے کے ایک ذریعے اور اوزار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مذاکرات مخالف فریق کے قریب آنے، کمانڈ سینٹرز کی نشاندہی کرنے، مقاومتی محاذ میں دراڑ ڈالنے اور بالآخر زیادہ سے زیادہ درستگی اور کم سے کم لاگت پر فوجی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا بہانہ بنتے ہیں۔
مغرب ـ بالخصوص امریکہ ـ نے بارہا یہ ثابت کرکے دکھایا ہے کہ وہ "منصفانہ مذاکرات" پر یقین نہیں رکھتا۔ ان کے لئے مذاکرات تب ہی معنی رکھتے ہیں جب وہ فریق مخالف کو دھوکہ دینے، اس پر تسلط پانے یا اس کے جسمانی یا سیاسی خاتمے کی راہ ہموار کرتے ہوں۔ یہ نمونہ بیروت کے مضافاتی آپریشن، ہنیہ کے قتل، ایران کے خلاف فوجی جارحیت اور اب دوحہ پر حملے میں واضح طور پر نظر آیا ہے۔
مغربی حکومتوں کا خفیہ کردار اور ساختیاتی بداعتمادی
مسلسل تجربوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی حکومتیں صہیونی ریاست کے دہشت گردانہ اقدامات کے سامنے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بہت سے معاملات میں وہ پس پردہ اس کی کارروائیوں کے سہولت کار اور رابطہ کار بھی ہیں۔ دوحہ پر حملے کے دوران شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان سیکیورٹی کوآرڈینیشن تھا اور "قطر بھی محض ایک بے خبر میزبان نہیں تھا۔"
ان ہی حقائق نے محاذ مقاومت کو "سفارتی دعوتوں" کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ شکوک و شبہات سے دوچار کر دیا ہے۔ محور مقاومت کے رہنما اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر مغربی سفارتی مسکراہٹ کے پیچھے، غالباً ان کے قتل، حملے یا کمزور کرنے کا کوئی منصوبہ چھپا ہؤا ہے۔
قطر اور ثالث کے طور پر اس کا غیر یقینی کردار
دوحہ پر حملہ، ایک فوجی اور سیاسی پیغام بھی ہے اور ساتھ ساتھ اس سے ثالث کے طور پر قطر کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ چھوٹا ملک جو حماس، امریکہ اور صہیونی ریاست کے درمیان ایک فعال اور غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اب اس سوال کا سامنا کر رہا ہے کہ اس کی فضائی اور سکیورٹی حدود اسرائیل کے براہ راست حملے کے خلاف اتنی غیر محفوظ کیوں تھیں؟!
دوسری طرف یہ حملہ ایران، حزب اللہ، حماس اور دیگر مقاومتی گروپوں کے درمیان تعلقات کی مزید مضبوط کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے؛ کیونکہ وہ سب ایک ہی نتیجے پر پہنچے ہیں: کسی بھی ایسے مذاکرے کی میز محفوظ نہیں ہوگی جس کا ایک فریق امریکہ ہوگا۔
"مذاکرات" کے نام پر تیار کردہ پھندوں کے سلسلے کی ایک اور کڑی
دوحہ میں حماس کے اجلاس پر حالیہ اسرائیلی حملہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ "مذاکرات" کے نام پر تیار کیے گئے جال کے سلسلے کی ایک اور کڑی ہے۔ ایک بار بار چلنے والا نمونہ جو ہر بار سفارتی شکل سے شروع ہوتا ہے اور دھویں، آگ اور خون پر ختم ہوتا ہے۔ اس رویے نے سیاسی مکالمے کے جواز پر شدید سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ