بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ رعد کی آیت 29 سے آیت 34 تک ایمان اور کفر کے محاذوں کے درمیان فرق کے حوالے سے ایک موڑ ہے۔ اللہ تعالی نے ان آیات کریمہ میں حقیقی مؤمنوں کی خصوصیات بیان کی ہیں اور دوسری طرف سے حق و حقیقت کے دشمنوں کے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سورہ رعد کا یہ حصہ فکری، نظریاتی اور اعتقادی میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے جس کے ایک طرف اہل ایمان سکون و اطمینان اور اللہ کے وعدوں کے ساتھ کھرے ہیں اور دوسری طرف وہ دشمن ہیں جو حیلوں بہانوں، ہٹ دھرمی اور آیات الہیہ کے انکار کے ساتھ اللہ کی روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں۔
دشمنوں کے مقابلے میں مؤمنین کی خصوصیت
آیت 29 میں ارشاد ہوتا ہے:
- "الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ؛
- جو لوگ ایمان لانے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے عیش و مسرت ہے اور عمدہ ٹھکانا ہے"۔
یعنی مؤمن وہ ہیں جنہوں نے اپنے قلبی ایمان کو عمل صالح کے ساتھ ملا لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان دشمنوں کے مقابلے میں ـ جو مؤمنوں کی حوصلہ شکنی اور انہیں کمزور کرنے سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہؤا کرتے؛ اور اللہ انہیں "طوبی" اور "حسن مآب" کا وعدہ دیتا ہے؛ یعنی دائمی ابدی سعادت اور خوبصورت واپسی۔ اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل صالح اس دشمنی کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ دشمنی اور آپ کی رسالت کو جھٹلانا
آیت 30 میں ارشاد ہوتا ہے:
- "كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ؛
- ہم نے آپ کو اسی طرح ایسی امت میں [رسول بنا کر] بھیجا ہے، جس سے پہلے بہت سی امتیں گذر چکی ہیں، (یعنی آپ ارسال رسل کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے) تاکہ آپ ان وہ [کتاب] پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کی طرف بھجی ہے؛ حالانکہ یہ لوگ خدائے رحمٰن کا انکار کرتے ہیں، کہہ دیجئے: وہ میرا پروردگار ہے میں اس پر توکل [اور بھروسہ] رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں [اور میری پوری امید اسی سے ہے]"۔
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نبی بنا کر بھیجا ہے، تاکہ سابقہ پیغمبروں کی طرح اللہ کا پیغام امت تک پہنچا دیں اور ان پر کتاب کی تلاوت کریں لیکن دشمن "عینی اور محسوس معجزہ چاہئے"، جیسا نعرہ لگا کر اللہ اور اس کے رسول(ص) کی مخالفت رکتے ہیں۔
آیت 31، دشمن کی انتہاؤں کی تصویر کشی کرتی ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:
- "وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ؛
- اور اگر کوئی ایسا قرآن نازل ہوتا جس (کے اعجاز بیان) سے پہاڑ چلتے یا اس سے زمین کے ٹکڑے ہو جاتے یا اس سے مردے بول اٹھتے (تو وہ صرف یہی قرآن عظیم تھا جس کو دیکھ کر بھی وہ ایمان نہیں لاتے)، بلکہ سب کاموں کا فرمان اللہ کے ہاتھ میں ہے (اور وہ جو چاہے اپنی مشیت سے کر دیتا ہے)، پھر کیا ایمان والے اس بات سے نا امید ہو گئے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کر دیتا؛ اور کافروں پر تو ہمیشہ ان کی بد اعمالی سے کوئی نہ کوئی مصیبت آتی رہے گی یا وہ بلا ان کے گھر کے قریب نازل ہوگی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو، بے شک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا"۔
یعنی اگر کوئی قرآن ہو جو پہاڑوں کو حرکت دے یا زمین میں شگاف ڈال دے یا مردوں کو زندہ کرے، تو وہ یہی قرآن ہے؛ لیکن منکروں اور کافروں کا مسئلہ 'دلیل و برہان کا فقدان' نہیں بلکہ ان کا مسئلہ ہٹ دھرمی اور اندھادھند دشمنی ہے۔ وہ حقیقت کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے مفادات اور اپنے اقتدار یا طاقت کو خطرے مین دیکھتے ہیں، چنانچہ ان حقائق کو جھٹلا دیتے ہیں۔
آیات کا یہ حصہ ظاہر کرتا ہے کہ دشمن مؤمنوں کے دلوں میں شک و تذبذب پیدا کرنے کے لئے ہر وقت بہانوں کا سہارا لیتے ہیں۔ دشمن کے سب سے اہم حربوں میں سے ایک یہ ہے کہ معجزات کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں اور آسمانی آیات کا انکار کرتے ہیں۔
دشمن کے خلاف اللہ کی سرپرستی اور مدد کا کردار
اس آیت کے تسلسل میں بیان ہوتا ہے کہ تمام معاملات کی ہدایت اور تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کر دے گا۔ لیکن دشمن ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
قرآن اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مصائب اور آفات دشمنوں کی سرزمین پر مسلسل پہنچتی ہیں اس لئے کہ شاید وہ متنبہ ہو جائیں، لیکن وہ پھر بھی اپنے غلط اور باطل راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن جہالت کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا بلکہ حق سے دشمنی، عناد اور ہٹ دھرمی کی رو سے، آپ کے خلاف ہو جاتا ہے۔
ایمان کے دشمن عہد و پیمان توڑنے والے
آیت 32 میں ارشاد ربانی ہے:
- "وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ...؛
- اور آپ سے پہلے بھی کئی رسولوں سا مذاق اڑایا گیا ہے، پھر میں نے کافروں کو مہلت دی پھر انہیں [سزا کے لئے] پکڑ لیا"
یعنی جس طرح کے سابقہ انبیاء کو استہزاء اور تمسخر کا سامنا ہؤا، آپ کو بھی دشمنوں کی طرف سے اس مذموم عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ لیکن اللہ کا مقرر کردہ انجام یہ رہا ہے کہ انہیں کچھ مہلت دی جاتی ہے، اور پھر عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ تنبیہ بتاتی ہے کہ دین خدا کے ساتھ دشمنوں کی دشمنی عارضی ہے اس لئے نہیں کہ وہ ہدایت پا جاتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ ان کو دی گئی مہلت ختم ہوجاتی ہے اور وہ حتمی نابودی اور بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دشمن شناسی، طاقت اور عظمت کے پہلو میں
آیت 33 میں ارشاد ہوتا ہے:
- "أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ؛
- تو کیا وہ (خدا) ہر کسی کے سر پر کھڑا ہے (اور جانتا ہے) ہر وہ چیز جو اس نے کیا ہے (اس شخص کی طرح ہے جو آس پاس سے بے خبر ہے)، اور انھوں نے تو اللہ کے لئے شریک بنا دیئے، کہہ دیجئے کہ ان کے نام بتلاؤ، کیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جسے وہ زمین میں، نہیں جانتا؟ یا اوپر ہی کی (سطحی اور کھوکھلی) باتیں کرتے ہو؛ بلکہ کافروں کے فریب کو انہیں بھلا بنا کر دکھایا گیا ہے، اور وہ (حق کے) راستے سے روک لئے گئے ہیں، اور جن لوگون کو اللہ ہدایت کے بغیر چھوڑتا ہے، ان کے لئے کوئی راہنما نہیں ہے"۔
اس آیت میں اللہ تعالی مشرکین کو انتباہ فرماتا ہے "تو کیا وہ (خدا) ہر کسی کے سر پر کھڑا ہے (اور جانتا ہے) ہر وہ چیز جو اس نے کیا ہے"؛ یعنی جو بندوں کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے، وہ ان جھوٹے معبودوں کی طرح جھوٹا ہے [معاذ اللہ]، دشمن ظاہری قوتوں (بتوں یا پھر طاغوتی اور شیطانی قوتوں) کا سہارا لے کر اپنے آپ کو طاقتور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن یاددہانی کراتا ہے کہ صدر خدائے متعال ہے جو ہر چیز سے آگاہ اور ہر چیز پر مسلط ہے اور کوئی بھی قوت اللہ کے ارادے کا مقابلہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔
یہ حصہ دشمن شناسی کی ایک الگ جہت کو بیان کرتا ہے: "وہ ہر وقت اس کوشش میں ہے کہ لوگوں کو وہمی اور جھوٹی طاقتوں کے ذریعے ڈھارس بندھا دیں، اور اللہ کو ان سے فراموش کرا دیں۔"
دشمنوں کا انجام اور عذاب الہی کا وعدہ
سورہ رعد کی آیت 34 میں ارشاد ہوتا ہے:
- "هُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ؛
- ان کے لئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے، اور البتہ آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے، اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔"
اس آیت میں دشمنوں کا انجام واضح کیا جاتا ہے؛ اور انہیں نہ صرف آخرت میں عذآب کا وعدہ نہیں دیا جاتا بلکہ وہ اسی دنیا میں بھی شکست، بدامنی، اضطراب، شکست و ریخت اور تباہی و بربادی سے دوچار ہونگے۔
اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ دشمن شناسی صرف خطروں کی پہچان کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں امید دلاتی ہے کہ دشمن کو شکست ہونے والی ہے، اور ہمیں صبر و استقامت "اور مقاومت" کا حوصلہ بھی دلاتی ہے۔
سورہ رعد کی آیات 29 تا 34، دین کے دشمنوں کو محاذ کا پورا نقشہ واضح کرتی ہیں۔
دشمن مؤمنوں کے ایمان اور عمل صالح کو نشانہ بناتے ہیں۔
مکاری اور حیلوں بہانوں اور معجزات کو جھٹلانے کے ذریعے سے انہیں شک و تردد میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تمسخر اور تضحیک و تحقیر نیز موہوم اور جھوٹی قوتوں کو حق و ایمان کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یہ لوگ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ کے عذاب سے دوچار ہونگے۔
ان کے مقابلے میں قرآن کریم نے مؤمنین کی حکمت عملی بیان فرمائی ہے [آیت 29 میں] جو ایمان، عمل صالح، اللہ کی ولایت و حکمرانی اور دشمنوں کے مقابلے میں صبر و استقامت سے عبارت ہے ہے۔ یہ سکون و اطمینان کا راستہ ہے، اور حتمی فتح و نصرت کی ضمانت دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ رعد کی آیت 35 بھی کچھ یوں ہے:
- "مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا وَعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ؛
- اس جنت کا وصف و حال جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے، [یہ ہے کہ] اس [میں درختوں] کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس کے میوے اور سائے ہمیشہ رہیں گے، یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آگ ہے۔"
سورہ رعد 43 آیات پر مشتمل ہے، اگلی آیات کی تلاوت اور ترجمہ دیکھنا، مت بھولئے گا۔
آیات 29 تا 34 کی تلاوت یہاں سنیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ