بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ حجر کی آیات 32 تا 51 انسان کی خلقت کی داستان کا ایک اہم حصہ بیان کیا گیا ہے، شیطان کے نقشوں کی جڑوں کو عیاں کیا گیا ہے، اور واضح کرتا ہے کہ شیطان کی دشمنی ایک حادثاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی زندگی میں ایک مستقل اور ابدی دھارا ہے۔ اس داستان سے دشمن شناسی کی نشانیوں اور اصولوں کو اخذ کیا جا سکتا ہے، اور آگہی کے ساتھ دشمن کے وسوسوں اور سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
ابلیس کی سرکشی؛ دشمنی تکبر کی رو سے
اللہ نے ابلیس کو فرشتوں کی طرح آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے غرور و تکبر کی بنا پر انکار کر دیا (آيات 32 اور 33)۔ یہ سرکشی انسان کے ساتھ دشمنی کا اعلان تھا؛ ابلیس نے خود کو 'برتر و بہتر' دیکھا، اس لئے کہ وہ آگ سے پیدا ہؤا تھا اور آدم مٹی سے! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کے اصل دشمن اکثر و بیشتر اپنی برتری کے وہم و سراب پر بھروسہ کرکے حق کی راہ سے انکار کرتے ہیں۔ آج کے معاشرے میں بہت سی دشمنیوں کی جڑیں 'طاقتوں اور عالمی استکبار کے تکبر' میں پیوست ہیں جو خود کو قوموں سے برتر و بالاتر سمجھتے ہیں۔
مہلت مانگنا، بہکانے کا موقع پانے کے لئے
ابلیس نے راندہ درگاہ ہونے کے بعد، اللہ سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی (آیات 36 اور 37)۔ اس کا مقصد واضح تھا: انسانوں کو بہکانے کے لئے موقع حاصل کرنا۔ اللہ نے اسے مہلت دی لیکن لامحدود نہیں بلکہ ایک "مقررہ وقت" تک۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دشمن اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے ہمیشہ مناسب وقت اور موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ جو سبق آج سیکھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ امت اسلامی کے دشمن کبھی بھی سازشوں سے باز نہیں آتے اور اگر وہ خاموش اور کبھی کوئی تکلیف دہ عمل انجام دیتے نظر نہیں آتے تو وہ در حقیقت مناسب حالات اور مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
دشمن قسم اٹھاتا ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا
ابلیس نے قسم اٹھائی کہ وہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے گا اور ان میں سے اکثر کو دھوکہ دے گا (آیت 39)۔ یہ قسم شیطان کی مسلسل دشمنی کا منشور ہے۔ اس نے کھلے عام اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ وہ لوگوں کی اکثریت کو گمراہ نہ کر دے۔ یہاں قرآن ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ اصل دشمن نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی طور پر بھی فتنہ انگیزی کرکے اور لوگوں کو غفلت سے دوچار کرکے گھس آتا ہے۔ آج دشمنوں کی نرم جنگ ابلیس کے منصوبے کا تسلسل ہے جس نے پروپیگنڈے اور ثقافتی آلات سے ایمان اور اخلاق کو نشانہ بنایا ہے۔
مخلص مستثنیٰ ہے
آیت 40 میں، خدا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شیطان خدا کے خالص بندوں کو بہکا نہیں سکتا۔ یہ بندے وہ ہیں جنہوں نے ایمان، علم اور اخلاص کے ذریعے اپنے آپ کو فتنے کے بھنور سے الگ اور گمراہی کے راستے سے الگ کر لیا۔ اس حصے کا واضح پیغام یہ ہے کہ شیطان کی دشمنی اور اس کے جدید آلات کے شر سے بچنے کا واحد راستہ سچے اخلاص اور تقویٰ کی منزل تک رسائی ہے؛ ایک ایسا معاشرہ جو ایمان اور روحانیت کو مضبوط کرے گا وہ دشمن کے سامنے اپنی زد پذیری اور کمزوری کو کم کر سکے گا۔
دشمن کے پیروکاروں کے لئے جہنم کی وعید
اللہ تعالیٰ اگلی آیت (43) میں واضح کرتا ہے کہ ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا انجام جہنم ہے۔ یہ آیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دشمن نہ صرف خود تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی اپنے ساتھ تباہی کی طرف کھینچتا ہے۔ اس تناظر میں، دشمن کا اتّباع محض ایک سادہ انتخاب نہیں بلکہ اپنی بربادی کے فیصلے پر خود دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ آج کے ماحول میں بھی جو لوگ اسلام کے کٹر دشمنوں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں، وہ عنقریب اخلاقی اور معاشرتی طور پر زوال پذیر ہو جاتے ہیں؛ جس کی مثالیں بہت ہیں، کچھ زوال پذیر ہوچکے ہیں اور کچھ عنقریب زوال پذیر ہونگے۔
اللہ کی رحمت، دشمن کے مقابلے میں پناہگاہ
آیات 49-50 میں، اللہ تعالیٰ اپنا تعارف "معاف کرنے والے اور رحم کرنے والے" کے طور پر کراتا ہے، اور ساتھ ہی یہ خبردار کرتا ہے کہ اس کی سزا بہت سخت ہے۔ 'امید اور خوف' کا یہ امتزاج ظاہر کرتا ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ خدا کی رحمت پر بھروسہ کرنا اور اس کی طرف رجوع کرنا ہے۔ شیطان کی دشمنی مستقل اور دائمی ہے، لیکن خدا ان لوگوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہے جو وسوسوں کے جال میں گرفتار ہوتے ہیں اور پھر توبہ کرتے اور اس کی طرف لوٹتے ہیں۔
ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری، دشمنیوں کے مقابلے میں امید کا ذریعہ
آخری آیات (51 سے آگے) ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کی کہانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو خوشخبری لے کر آئے تھے۔ یہ کہانی واضح کرتی ہے کہ دشمن کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ خدائی وعدے اور نجات کی بشارتیں بھی آتی ہیں۔ یہ پیغام آج کے معاشرے کے لئے بھی قابل فہم ہے: اگرچہ دشمنیاں بے شمار ہیں، لیکن باطل پر حق کی فتح کا خدائی وعدہ یقینی ہے۔ سورہ حجر کی آیات 32 تا 51 شیطان کے دشمنی کے منصوبے کو واضح طور پر عیاں کرتی ہیں: 'تکبر'، 'بہکاوے کی قسمیں'، 'وقت پر مبنی منصوبہ بندی'، اور 'لوگوں کی اکثریت کو دھوکہ دینے کی کوشش'۔
اس کے برعکس، قرآن کریم مقابلے کے طریقوں کو بھی واضح کرتا ہے: 'ایمان'، 'اخلاص'، 'خدا پر بھروسہ اور توکل' اور 'حق کے راستے پر ثابت قدمی'۔ آج کے دور میں ان پیغامات کو زندگی کے لائحۂ عمل میں سرفہرست رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے؛ کیونکہ اعلانیہ اور خفیہ دشمن سیاسی، ثقافتی اور عقیدتی و نظریاتی میدانوں میں اسی ابلیسی راستے کے پیروکار ہیں۔ اس دشمن کو پہچاننا اور اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا، ایمانی معاشرے کی عزت اور بقا کی ضمانت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ