اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لا تَطْلُبُوا الهُدیٰ فِي غَيرِالقُرآنِ فَتَضِلُّوا؛ قرآن کے سوا کسی اور چیز سے ہدایت مت مانگو ورنہ گمراہ ہو جاؤگے"۔ (الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الامالی، ص438)
قرآن کریم کا صفحہ 166 بھی موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعونیوں کی داستان کا تسلسل ہے۔ اللہ نے فرعونیوں پر قحط اور خشکسالی بھیج دی تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور حق کے راستے پر گامزن ہوجائیں مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہؤا اور اللہ تعالیٰ نے اس بار ان پر آسمانی بلا نازل کر دی۔
فرعون نے اپنے پیروکاروں کی اس انداز سے دماغ شوئی (Brainwashing) کی تھی کہ انہوں نے پھر بھی سبق نہیں لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ساحر اور آپ کے معجزوں کو سحر اور جادو سمجھا؛ حالانکہ معجزات حق کی نشانیاں تھے جنہیں اس بار اللہ نے فرعون اور اس کے پیروکاروں کے لئے سزا کے طور پر بھیجا تھا۔
ان آفات میں سے کچھ جوؤوں، مینڈکوں اور خون کی صورت میں تھیں؛ اور وہ کسی بھی مایع شیئے کو ہاتھ لگاتے تھے، اس کا رنگ خون کا ہو جاتا تھا۔ لیکن فرعونیوں نے پھر بھی عبرت نہ لی۔
ہاں! مگر جب کبھی بلائیں نازل ہوتی تھیں تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) کا دامن پکڑ لیتے تھے اور ان بلائیں رفع ہونے کے لئے ان سے دعا کی درخواست کرتے تھے لیکن جب بلائیں ٹل جاتی تھیں تو وہ اپنے راستے پر پلٹ جاتے تھے اور کفر و انکار کی راہ اہنا لیتے تھے۔ انہوں نے مکرر در مکرر عہدشکنیاں کیں اورآخرکار بلائے عظیم نازل ہوئی اور اللہ نے ان سب کو یکجا سمندر میں ڈبو دیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی نابودی کے بعد بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنایا اور درحقیقت فرعونیوں کی حکومت بنی اسرائیل کو ورثے میں ملی، نیز فلسطین کے مشرقی اور مغربی علاقوں کو اللہ نے ایک سرزمین کے طور پر انہیں بخش دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اُس وقت کے بنی اسرائیل کے صبر و برداشت کو فرعونیوں پر کامیابی کا سبب قرار دیا۔ گوکہ فرعونی بھی تمام سرزمینوں میں ختم نہيں ہوئے اور اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد ہنوز جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ:
شک نہيں ہے کہ کہ آج اسرائیل کہلانے والی ریاست فلسطین کے اصل مالکوں اور ان کے بچوں کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو فرعون نے اس زمانے کے بنی اسرائیل کے ساتھ روا رکھا ہے چنانچہ آج کا اسرائیل اخلاق و کردار میں بھی اور ظلم و ستم میں بھی فرعون کی حکومت اور صہیونیت نامی سیاسی مکتب فرعون ہی کا مکتب ہے اور اس کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے آسمانی مکتب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ غاصب یہودیوں کا انجام بھی وہی ہوگا جو فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ہؤا اور اس کا وعدہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیتوں میں دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں مشہور ایرانی قراری استاد شہریار پرہیزکار کی آواز میں، صفحہ 166 ـ یعنی سورہ مبارکۂ اعراف کی آیات 131 تا 137 کی ترتیل پیش کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ