19 اگست 2025 - 20:29
اسرائیل کا 'ابراہیم معاہدے' کا مقصد مشترکہ مفادات نہیں عرب خطہ ہتھیانا ہے + ایک نکتہ

صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کا اعلان نہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ تل ابیب عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات کا خواہاں نہیں ہے، بلکہ اس للچائی نظریں ان کی سرزمینوں اور تیل کے ذخائر پر لگی ہوئی ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || عرب ممالک نے حالیہ برسوں میں، صہیونی ریاست کے ساتھ مشترکہ معاشی منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لالچ میں، تعلقات معمول پر لانے اور ابراہیم معاہدے اور ہندوستان-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری {امیک] (India–Middle East–Europe Economic Corridor [IMEEC]) میں شرکت کی طرف قدم بڑھایا تھا۔

ان کو ـ غزہ کی صورت حال کو نظر انداز کرکے اس منصوبے میں شمولیت سے ـ توقع تھی کہ خطے کے جیوپولیٹیکل موازنوں میں اپنا مقام بلند کریں گے اور مشرق سے مغرب کی ٹرانزٹ راستے میں اپنا حصہ پائیں گے۔ لیکن حالیہ واقعات نے ثابت کیا کہ یہ توقعات حقیقت سے زیادہ، ایک خام خیال پر مبنی تھیں۔

صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے "عظیم تر اسرائیل" (Greater Israel) کے منصوبے کے اعلان سے نہ صرف واضح ہؤا کہ کہ تل ابیب 'عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات' کا خواہاں نہیں ہے، بلکہ اس بات پر بھی تاکید ہوئی کہ صہیونی ریاست کے دماغ پر آج بھی توسیع پسندی اور خطے پر تسلط کا خواب مسلط ہے بلکہ اس للچائی نظریں ان کی سرزمینوں اور تیل کے ذخائر پر لگی ہوئی ہیں۔

اس طرح، وہی حکومتیں جو خود کو IMEEC کی راہداری سے مستفید سمجھتی تھیں، اب اس کڑوی حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں کہ ان کا عبرانی (یہودی) پارٹنر یکطرفہ بالادستی قائم کرنے کے درپے ہے، برابری کے تعاون کا نہیں۔

اسرائیل کا 'ابراہیم معاہدے' کا مقصد مشترکہ مفادات نہیں عرب خطہ ہتھیانا ہے + ایک نکتہ

"عرب-میڈ" راہداری (Arab-Mediterranean [Arab-Med])، جسے مغربی ایشیا کے تازہ ترین جغرافیاتی سیاسی منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، ایران کو نظر انداز کرنے اور عالمی نقل و حمل اور ٹرانزٹ پر اس کے اثر کو کم کرنے کے مقصد سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

یہ راہداری، بھارت، عرب ممالک اور صہیونی ریاست کی شراکت داری سے، تہران کے اسٹریٹجک مقام کو کمزور کرنے اور آبنائے ہرمز آبنائے کے کردار کو بے اثر کرنے کی کوشش ہے۔

سنہ 2024ع‍ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں، صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے "انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ راہداری" (IMEEC) کے منصوبے کو ایک اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی شاہراہ کے طور پر پیش کیا جو بھارت سے شروع ہو کر صہیونی ریاست کے بحیرہ روم کی بندرگاہوں، خاص طور پر حیفا کی بندرگاہ، سے جڑتی ہے۔

یہ راہداری نقل و حمل کے راستوں اور توانائی کی ترسیل اور مواصلاتی بنیادی ڈھانچے پر مشتمل ہے اور اس کا مقصد ایشیائی اور یورپی معیشتوں کے درمیان صہیونی ریاست کے ذریعے تیز اور براہ راست رابطہ قائم کرنا ہے، جسے امریکہ سیاسی دباؤ کے ذریعے آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

دوسری جانب حیفا بندرگاہ پر ایران کے حالیہ میزائل حملوں نے قاعدے کو مزید تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بندرگاہ ـ جسے صہیونی ریاست کی بیرونی تجارت کے لئے اہم گیٹ وے کہا جاتا ہے، ـ بحیرہ روم میں IMEEC راہداری کا دھڑکتا دل بھی ہے۔

اس بندرگاہ پر ایران کے دو بھاری بھرکم حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کی اقتصادی اور ٹرانزٹ سیکورٹی کی حالت انتہائی نازک اور ناقابل اعتماد ہے اور اس راستے پر کوئی بھی سرمایہ کاری خطرناک اور غیر مستحکم ہو گی۔ یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی میرسک (Maersk) نے وہاں کئی دنوں تک اپنی سرگرمیاں بند کر دیں اور صہیونی ریاست کو معاشی دھچکا لگا۔

ٹرانسپورٹیشن اور ٹرانزٹ کے ماہر حسن کریم نیا نے اس بات پر زور دیا کہ IMEEC  راہداری بنیادی طور پر ایران کو الگ تھلگ کرنے اور مشرقی-مغربی ٹرانزٹ میں اس کے تاریخی کردار کو کم کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں: "حیفا پر ایران کے دو حالیہ حملوں نے اس منصوبے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور امریکی-صہیونی فارمولے کو درہم برہم کر دیا ہے۔"

ان کے مطابق، اسرائیل ایسے حال میں اس راہداری کو "برکت" کے طور پر متعارف کروا رہا تھا کہ حقیقت میں اس کا عمومی قرضہ 357 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور اس کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے پانچ فیصد کے قریب ہے۔ اس اقتصادی بحران کو، جب ایران اور یمن سے میزائل اور ڈرون حملوں سے لاحق سیکورٹی خطرے کے ساتھ ملایا جائے، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ IMEEC راہداری پر سرمایہ کاری سے نہ صرف عرب شراکت داروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ اس سے انہیں شدید نقصان پہنچتا ہے یہ ان کی اقتصادی سلامتی کو چیلنج بھی کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر سمجھتے تھے کہ وہ اس منصوبے میں شامل ہو کر عالمی موازنے میں ایک نیا کردار ادا کریں گے، لیکن اب وہ خود کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار دیکھ رہے ہیں۔ "گریٹر اسرائیل" نے نہ صرف عملی طور پر برابری کی بنیاد پر ان کے ساتھ تعاون کو مسترد کر دیا ہے بلکہ IMEEC روٹ بھی ایرانی میزائلوں کی آگ میں جھلس کر اپنی سلامتی کھو بیٹھا ہے۔

ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر ایران اپنے ٹرانزٹ راستوں کو پہلے سے زیادہ فعال کر سکے تو یہ بین الاقوامی تاجروں کے لئے ایک محفوظ اور قابل اعتماد آپشن بن جائے گا۔

اس صورت میں ہندوستان کو یورپ سے ملانے والا مرکزی پل بننے کا تل ابیب کا خواب دیوار سے لگ جائے گا اور عرب ممالک کو بھی اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ اقتصادی شراکت دار کے طور پر صہیونی ریاست پر انحصار کرنا ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

بہرصورت، گریٹر اسرائیل کا نوآبادیتی منصوبہ نہ صرف فلسطینی کاز اور عالم اسلام کے تشخص پر دھچکا ہے بلکہ اس نے IMEEC راہداری کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کو بھی سیاسی اور اقتصادی گھٹن میں ڈال دیا ہے۔

اب انہیں تل ابیب کا ساتھ دینے یا اپنی شراکت داری جاری رکھنے یا پھر اس شراکت و رفاقت پر نظر ثانی کرنے کے درمیان ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایک ایسا راستہ جو علاقائی توازن اور نئے عالمی نظام میں ان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

نکتہ:

1۔ ابراہیم معاہدہ اسلام اور امت کی پیٹھ میں خنجر تھا جو اب "گریٹر اسرائیل" کی صورت اختیار کر چکا ہے؛ اور حماس کی قیادت کے بقول "غاصب صہیونی ریاست عربوں کے سرمایے سے ہی عرب ممالک پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنا رہی ہے"۔ گوکہ صہیونیوں کی سازباز عرب حکمرانوں سے ہے، جو عرب عوام کے نمائندے نہیں بلکہ اپنے ملکوں میں مغرب اور یہودی ریاست کے نمائندے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ وہ ـ بالخصوص امارات پر مسلط قبیلے جیسے حکمران قبائل ـ گریٹر اسرائیل کے قیام میں بھی غاصب ریاست کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہوجائیں؛ لیکن بہرحال یہ نوآبادیاتی صہیونی منصوبہ عرب اقوام کے لئے قابل قبول نہیں ہونا چاہئے۔

2۔ نجانے اپنے آپ کو اہل فکر و نظر اور عالم و دانشور سمجھنے والے عرب یا غیر عرب، یا مسلم اور غیر مسلم سیاستدانوں کا ذہن اتنا ماؤف کیوں ہے اور وہ اس حقیقت کے ادراک سے قاصر کیوں ہیں کہ وہ اپنے مقدرات کو ایک ایسی ریاست سے جوڑ لیتے ہیں جو 77 برسوں سے اپنے زیر قبضہ علاقے پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکی ہے۔ اور اس کے دو اہم اور بنیادی عناصر "قوم اور سرزمین" کی تشکیل نہیں ہو پائی ہے اور وہ مستقل طور پر حالت جنگ میں ہے، وہ ابھی اپنے زیر قبضہ علاقے میں، 77 برسوں سے! تو کیا ایسی ناجائز اور ناکام ریاست کے ساتھ تعاون کا انجام اس سے بہتر ہو سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha