بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || باوجود اس کے کہ، مصر اور اسرائیل نے 7 اگست 2025 کو قدرتی گیس کی ترسیل کے لئے 35 ارب ڈالر کا نیا معاہدہ کیا ہے، لیکن زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف قاہرہ کے لئے توانائی کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتا، بلکہ یہ خطے میں حالات، ـ خاص طور پر غزہ پٹی کے تناظر میں ـ تل ابیب کے لئے مصر کے خلاف سیاسی دباؤ کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
اسرائیلی کمپنیاں اس معاہدے کے تحت سال 2040 تک "لیویاتان" گیس فیلڈ (Leviathan gas field) سے مصر کو تقریباً 130 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس برآمد کرنے کی پابند ہیں۔ اسرائیلی کمپنی نیومیڈ اینرجی (NewMed Energy) اور نجی کمپنی بلیو اوشن اینرجی (Blue Ocean Energy) اس معاہدے کے اہم فریق ہیں۔ اگرچہ مصری حکام نے بعد میں زور دیا کہ یہ معاہدہ "2019 کے سابقہ معاہدے کی توسیعی شکل" ہے اور دراصل اسی تعاون کا تسلسل ہے، لیکن سرمایہ کاری کے حجم اور طویل مدتی دورانیے نے توجہات کو اس کے سیاسی پہلوؤں پر مزید مرکوز کرایا ہے۔
گیس جنگ کے سائے میں؛ کیا اسرائیل، ایک ناقابل اعتماد شریک ہے؟
اس معاہدے کے باوجود غزہ میں جنگ جاری ہے اور اسرائیل نے گذشتہ مہینوں میں کئی بار یکطرفہ طور پر مصر کو گیس کی ترسیل روک دی۔ جون میں ایران کے ساتھ 12 روزہ جھڑپوں کے دوران آخری بار یہ اقدام دہرایا گیا، جب "لیویاتان" گیس فیلڈ کی پیداوار ممکنہ سکیورٹی خطرات کی وجہ عارضی طور پر بند کردی گئی۔
ان رکاوٹوں کا براہ راست اثر مصر کی گیس پر انحصار کرنے والی صنعتوں پر پڑا، جن میں سیمنٹ، کیمیاوی کھاد اور گیس پر انحصار کرنے والے بجلی گھر شامل ہیں۔ ان رکاوٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نہ صرف ایک مستحکم اقتصادی شراکت دار نہیں ہے، بلکہ علاقائی تنازعات کے دوران گیس کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
کیا گیس سیاسی دباؤ کا ذریعہ ہے؟
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، تل ابیب اپنے مقاصد، خاص طور پر صحرائے سینا میں فلسطینیوں کو آباد کرانے کے منصوبے کے حوالے سے سیاسی دباؤ کے لئے گیس کو اوزار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مصر سینا میں فلسطینیوں کے بسانے کے منصوبے کی سخت مخالفت کرتا ہے اور اسے اپنی قومی سلامتی کے لئے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر مصطفیٰ کامل السید، نے الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل نے گیس کو کھلے عام، مصر کے خلاف دباؤ کا ذریعہ بنا دیا ہے۔"
انھوں نے عبرانی میڈیا کے حوالے سے کہا کہ "نیتن یاہو نے مصر کو تل ابیب کے سیاسی پروگراموں کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لئے گیس کو بطور ہتھیار استعمال کی بات کی ہے۔"
کیا مصر کے اندر تنقیدی رائے، نظرثانی کا موقع فراہم کرے گی؟
اسی دوران، ایک تجربہ کار مصری سفارتکار اور اقوام متحدہ میں مصر کے سابق سفیر معتز احمدین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی بار بار رکاوٹیں اور غیر متوقعہ رویہ دو طرفہ اقتصادی تعاون میں عدم استحکام کی علامت ہے۔ انھوں نے کہا: "اگر تل ابیب اقتصادی امن کے وقت بھی اپنے وعدوں پر قائم رہنے کو تیار نہیں ہے، تو قاہرہ طویل مدت میں ایسی شراکت کیوں قبول کرے؟"
احمدین تجویز کرتے ہیں کہ "مصر کو اپنے طویل مدتی مفادات کے تناظر میں اس معاہدے کے فوائد کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے اور غزہ میں جنگ کے خاتمے اور اس کی تعمیر نو جیسے مسائل کو تعاون جاری رکھنے کی شرط قرار دینا چاہئے۔"
انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ "مصر کی گیس کی آمدنی کا ایک حصہ غزہ پٹی کی تعمیر نو پر خرچ کیا جائے اور قاہرہ خطے میں متبادل شراکت دار تلاش کرے جن میں قطر، سعودی عرب، الجزائر، روس اور چین شامل ہیں۔"
کیا تل ابیب معاہدے کو منسوخ کر سکتا ہے؟
سیاسی دھمکیوں کے باوجود، 'ڈاکٹر محمد فواد' جیسے بعض اقتصاد دانوں کا خیال ہے کہ "تل ابیب عملی طور پر اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ امریکی شیورون کارپوریشن (Chevron Corporation) "لیویاتان" فیلڈ کی 40 فیصد حصص کا مالک ہے اور گیس کی برآمدات میں کسی بھی قسم کی ارادی رکاوٹ امریکی سرمایہ کاروں کی طرف سے قانونی چارہ جوئی اور انہیں بھاری معاوضے کی ادائیگی کا سبب بن سکتی ہے۔"
تاہم، یہاں تک کہ اگر معاہدہ قانونی طور پر برقرار بھی رہے، برآمدات میں خلل کا اعادہ اور تسلسل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال مصر کی صنعتی منصوبہ بندی اور توانائی کی برآمدات کے لئے ایک سنگین چیلنج بنی رہے گا۔ خاص طور پر اگر اسرائیلی برآمدات مکمل طور پر رک جائیں تو مصر کو گیس کی قلت کے ازالے کے لئے مہنگی مائع گیس درآمد کرنا پڑے گی، جس کے تخمینوں کے مطابق مصر کی معیشت پر سالانہ 3 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
اسرائیل سے بتدریج دوری؟
اب جبکہ تل ابیب توانائی کو سیاسی ہتھیار بنانے اور گیس کو اثر و رسوخ بڑھانے کے ہتھیار طور پر استعمال کرنے کے لئے کوشاں ہے، مصر بھی اپنی علاقائی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ گذشتہ مہینوں میں قاہرہ کی روس، چین اور حتیٰ کہ ایران کے قریب آنے کی علامتیں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں مصر کی توانائی پالیسی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعاون کے مستقبل پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہیں۔
لہٰذا، مصر اور اسرائیل کے درمیان گیس کا معاہدہ اب محض ایک معاشی تعاون نہیں رہا، بلکہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان کمزور تعلقات اور جنگ و بحران کے سائے میں علاقائی معاہدوں کی غیر مستحکم نوعیت کی علامت بن گیا ہے۔ اس معاہدے کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ مصر کی فیصلہ سازی میں طویل مدتی معاشی مفادات اور تل ابیب کے سیاسی دباؤ میں سے کون سا پہلو غالب آتا ہے۔
اس معاہدے کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ مصری فیصلہ سازی میں ـ طویل المدتی اقتصادی مفادات اور تل ابیب کے سیاسی دباؤ کے ـ دو محوروں میں سے کس محور کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ