بین الاقوامی اہل بیت(ع) اسمبلی ـ ابنا ـ کے مطابق، سعودی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے نیتن یاہو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ایسے جنگی مجرم کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لا سکتا جو بڑے پیمانے پر قتل عام کا شیدائی ہے۔
سی این این کے ساتھ انٹرویو میں جب ان سے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں پوچھا گیا تو ترکی الفیصل نے جواب دیا: "کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ سعودی عرب اس طرح کے جرائم پیشہ شخص اور نسل کشی کے دیوانے کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرے گا؟، ناممکن۔"
انھوں نے 2002 کے عرب امن منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا: "سعودی عرب نے ہمیشہ ایک سیاسی حل اور پائیدار امن کی تجویز پیش کی ہے؛ چاہے وہ عرب امن منصوبے کے فریم ورک کے اندر ہو، چاہے وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لئے فرانس کے ساتھ حالیہ مشترکہ منصوبے کے فریم ورک کے اندر ہو۔"
شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کا صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ "سعودی عرب ہی نے عربی امن منصوبہ پیش کیا تھا۔ یہ منصوبہ اب بھی میز پر ہے۔"
ایرانی خبر ایجنسی اسنا کے مطابق، انھوں نے خطے میں امن کے لئے سعودی عرب کی ماضی کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "کہ تعلقات معمول پر لانے کا عمل امن قائم کرنے سے پہلے شروع نہیں ہو سکتا؛ سعودی عرب کی امن کوششوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ تعلقات معمول پر لانے کا عمل اس سے پہلے نہیں ہو گا۔ عربی امن منصوبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مبنی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو ان معاملات پر حکم فرما ہونا چاہئے، نہ کہ اسے نظر انداز کیا جائے اور نیتن یاہو جیسے نفسیاتی قاتل (Psychopath killer) کی پالیسیوں کی قیمت ادا کی جائے۔"
اس سابق سعودی عہدیدار نے گذشتہ مہینے نیویارک میں دو ریاستی حل کے کانفرنس میں سعودی عرب اور فرانس کی طرف سے پیش کردہ منصوبے کا بھی ذکر کیا۔
اس منصوبے میں غزہ میں ایک گورننگ اتھارٹی کا قیام شامل ہے تاکہ فلسطینی اتھارٹی تمام سرکاری خدمات فراہم کر سکے، عام شہریوں کی زندگی بحال ہو سکے، تعمیر نو ہو سکے اور عوام کو مستقبل کی امید دلائی جا سکے۔
انھوں نے کہا: "جیسا کہ میں نے پہلے کہا، سعودی عرب، فرانس اور دیگر ممالک نے حال ہی میں غزہ کی جنگ کے خاتمے اور اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان دشمنی ختم کرنے کے لئے ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔"
نیتن یاہو کے حالیہ بیان کے بارے میں جس میں اس نے "عظیم تر اسرائیل" کا ذکر کیا تھا، شہزادہ ترکی نے کہا: "نیتن یاہو اب بائبل کے حوالے سے اسرائیل کے ایک تصور کی بات کر رہا ہے۔ وہ اسے چھپاتا نہیں ہے بلکہ اسے نقشوں پر بھی دکھاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کی عرب سرزمینوں کے ان حصوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جو فلسطین سے باہر آتے ہیں۔ یہ ایک خطرہ ہے جسے عالمی برادری کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔"
سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے حالیہ جنگ کے آغاز سے اب تک فلسطینیوں کے بھاری نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا: "ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، لاکھوں پناہ گزین ہو چکے ہیں، اور غزہ تباہ ہو چکا ہے، کیا یہ کامیابی ہے؟ کبھی نہیں، یہ اس شخص کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو صرف اپنے ذاتی اقتدار ہی کو اہمیت دیتا ہے۔"
انہوں نے 1967 کی سرحدوں پر قائم فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا: "اسرائیل کا یہ اقدام امریکہ اور اسرائیل کی تنہائی کو مزید واضح کر سکتا ہے اور یورپ کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف زیادہ سنجیدہ موقف اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ