جب صہیونی واضح طور پر "عظیم تر اسرائیل" کی بات کرتے ہیں اور سرکاری طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں "فلسطین" نامی کسی ریاست کو قبول نہیں کریں گے، تو پھر کسی 'معاہدے' اور 'عہد' پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایک نئے اسرائیلی وفد نے، کچھ صہیونی مذہبی راہنماؤں کی سربراہی میں، دمشق کا دورہ کیا۔ غزہ کے بچوں کے قتل کے فتوے دینے والے یہودی ربیوں نے الجولانی حکومت کے سینئر وزراء سے ملاقاتیں کیں!! یہودی-صہیونی ربیوں کے لئے ماحول بالکل تیار تھا چنانچہ وہ دمشق کے قدیمی کنیسے میں اکٹھے ہوئے اور "محفل دعا" منعقد کی، ایک ایسا واقعہ جو حالیہ کئی صدیوں میں پہلی بار رونما ہؤا!! 'اسلامی مجاہدین' کہلوانے والے شام پر قابض ہوئے اور اب اس کے اہداف و مقاصد یکے بعد دیگرے عیاں ہو رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کے خواہاں ہیں۔ یہ مسئلہ، جو پہلے صرف نظریاتی سطح پر زیر بحث تھا، پہلی بار اس حکومت کے ایک سرکاری عہدیدار نے عمومی طور پر بیان کیا ہے۔
صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کا اعلان نہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ تل ابیب عرب ممالک کے ساتھ مشترکہ مفادات کا خواہاں نہیں ہے، بلکہ اس للچائی نظریں ان کی سرزمینوں اور تیل کے ذخائر پر لگی ہوئی ہیں۔
صہیونی ریاست کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں نسل کشی نہیں ہو رہی، لیکن حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق، اسرائیلی فوجی انٹلیجنس کے سابق سربراہ نے غزہ پٹی میں 50 ہزار سے زائد افراد کے قتل کو اسرائیل کے مستقبل کے لئے "ضروری" قرار دیا ہے / "یہ حقیقت کہ ہم نے اب تک غزہ میں 50 ہزار افراد مارے ہیں، آنے والی نسلوں کے لئے ضروری اور لازم ہے۔" بربادی کا یہ بھوت شاید عنقریب بہت سے خاموش ممالک پر دستک دے گا۔۔۔ گریٹر اسرائیل کی خاطر!