بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مذکورہ اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست بامقصد شعوری اقدامات کے ذریعے خطے میں اپنے اعمال اور اقدامات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ "عظیم تر اسرائیل" کے منصوبے کے حوالے سے درج ذیل نکات بیان کیے جا سکتے ہیں:
لہٰذا، صرف مصر اور اردن کا محدود طور پر ذکر کرنا درست نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیتن یاہو نے ان ممالک کی طرف اشارہ کیا ہو، لیکن اس کا مطلب صرف ان ممالک کے بعض علاقے نہیں ہیں، بلکہ "عظیم تر اسرائیل" کی حدود چند مخصوص ممالک نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔ اسے "نیل سے فرات" تک کے دائرے سے بھی آگے تصور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ صہیونی نظریے میں ترکی بھی "عظیم تر اسرائیل" کا حصہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، "عظیم تر اسرائیل" کا جغرافیائی دائرہ کار موجودہ سرحدوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
2۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیتن یاہو نے اس مخصوص وقت پر یہ بحث کیوں چھیڑی ہے؟
- پہلی وجہ خطے کی موجودہ صورتحال ہے۔ صہیونیوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات اور گذشتہ دو سالوں کے دوران ان کے اقدامات نے خطے میں ان کی برتری قائم کر دی ہے اور اب ان نظریات کے اظہار کے لئے بہترین موقع ہے۔
"جدید مشرق وسطی" یا "نیا علاقائی نظام" جیسے منصوبے اس ریاست کی جانب سے قبضے کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کی تیاری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
- دوسری وجہ امریکہ کی موجودہ صورتحال ہے۔ نیتن یاہو اور حال ہی میں اسموٹرچ نے بار بار زور دیا ہے کہ ٹرمپ اس حکومت کے ساتھ تعاون کے حوالے سے امریکہ کے بہترین صدر رہے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے صہیونی ریاست بلا خوف و خطر اپنے اقدامات اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہے اور اسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے، بالکل اسی طرح جیسے ٹرمپ کی پہلے دور صدارت کے دوران اس کے اقدامات، جیسے گولان کے الحاق، بیت المقدس کو صہیونی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا، اور ابراہیم معاہدہ، عمل میں آئے۔
نتیجتاً، ان مسائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ "عظیم اسرائیل" کا منصوبہ خطے کے ممالک پر قبضہ کرنے کے لئے ایک امریکی-صیہونی پروجیکٹ ہے جسے اس ریاست کی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں تیار کیا گیا ہے اور اسے وسیع پیمانے پر طاقت اور کوشش کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محمد رضا فرہادی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ