اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی جریدے فارن افیئرز نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: "واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی مسابقت کے تازہ ترین اشارے میں، 24 اکتوبر 2023 کو ایک امریکی B-52 بمبار کو بحیرہ جنوبی چین میں بین الاقوامی فضائی حدود میں گشت کے دوران ایک چینی لڑاکا طیارے کی طرف سے اشتعال انگیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی پائلٹ نے بمبار طیارے سے تین میٹر سے بھی کم فاصلے پر پرواز کی، اور دونوں طیاروں کے عملے کی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔"
اس سے چند ماہ قبل، آبنائے تائیوان میں امریکی بحریہ کے ڈسٹرائر Chang'e-Hun کو چینی جنگی جہاز نے ایک خطرناک پینتریبازی (Maneuver) کا نشانہ بنایا، جو بغیر کسی وارننگ کے امریکی جہاز کے 150 گز کے اندر سے گذر گیا، اور اس نے ـ تصادم سے بچنے کے لئے ـ ڈسٹرائر کو فوری طور پر راستہ بدلنے پر مجبور کیا۔ پینٹاگون کے حکام نے کہا کہ ایسا رویہ بین الاقوامی بحری اور ہوابازی کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس سے عملی تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ایسے حالات میں ایک چھوٹی سی غلطی بھی دو جوہری طاقتوں کے درمیان غیر ارادی جھڑپ کا باعث بن سکتی ہے۔
چین کی امریکہ پر گہری بداعتمادی
امریکی تھنک ٹینکس کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے واشنگٹن کی طرف سے فوجی مواصلاتی چینلز یا خطرہ کم کرنے کے معاہدوں کے قیام کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی ہے۔ بیجنگ کے نقطہ نظر سے، اس طرح کے میکانزم امریکی مفادات کی زیادہ خدمت کرتے ہیں اور چین کے ارد گرد کے پانیوں میں واشنگٹن کی مسلسل فوجی موجودگی کے لئے ایک بہانہ فراہم کر سکتے ہیں۔
سنہ 1990 کی دہائی میں، جب امریکہ کو ابھی فیصلہ کن فوجی بالادستی حاصل تھی، دونوں ممالک کے درمیان محدود بات چیت برقرار ہوئی، لیکن یکے بعد دیگرے آنے والے بحرانوں - جن میں 1995-1996 میں آبنائے تائیوان کا تیسرا بحران بھی شامل ہے، ـ نے باہمی عدم اعتماد میں اضافہ کیا۔ چینیوں نے امریکی طیارہ بردار جہازوں کی تعیناتی کو اپنے لئے ذلت آمیز اور براہ راست خطرے کے طور پر دیکھا۔
بعد کے سالوں میں، ـ حتیٰ کہ اس وقت بھی جب دونوں ممالک نے سمندری تصادم روکنے کے لئے معاہدوں پر دستخط کئے ـ سنہ 2001 میں امریکی جاسوس طیارے کے چینی لڑاکا طیارے کے ساتھ تصادم جیسے واقعات سے معلوم ہؤا کہ کہ بحران کے وقت مواصلاتی ذرائع عملی طور پر غیر مؤثر ہیں۔
سرد جنگ کا تجربہ، مشرقی ایشیا کے لئے ایک نامکمل ماڈل
امریکہ، سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے ساتھ تعلقات کے کامیاب ماڈل کو چین کے حوالے سے دہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت کے دوران، 1972 کے معاہدے جیسے سمندر میں واقعات کی روک تھام کے معاہدے (U.S.-Soviet Incidents at Sea agreement) نے tactical تصادم کو تزویراتی بحرانوں میں تبدیل ہونے سے روکا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ چین کا مختلف سیاسی ڈھانچہ اور کمیونسٹ پارٹی پر پیپلز لبریشن آرمی کا مکمل انحصار واشنگٹن اور ماسکو تعلقات کی طرح کے میکانزم کو نافذ نہیں کرنے دیتا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، چینی کمیونسٹ پارٹی بحرانی صورت حال میں ـ حتیٰ کہ مواصلات یا تکنیکی کوآرڈینیشن کی صورت میں ـ کسی بھی بیرونی ادارے کے ساتھ فوجی فیصلہ سازی کا اختیار شیئر کرنے سے گریزاں ہے۔ بیجنگ کے نقطہ نظر سے، فوجی پالیسیوں میں ابہام ایک ایسی رکاوٹ ہے جو بحران کا سامنا کرنے کے لئے قیادت کے ہاتھ کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔
ماہرین کا انتباہ: مشرقی ایشیا میں حادثاتی جنگ کا خطرہ
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس صورتحال کا تسلسل دنیا کو ایک غیر ارادی بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔ تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان براہ راست رابطے کا فقدان غلط اندازوں (Mis-calculation) کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کیوبا کے میزائل بحران جیسا کوئی واقعہ مشرقی ایشیا میں پیش آیا تو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان رابطے کی فوری لائنوں کا فقدان ایک عالمی تباہی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
جیسا کہ مشرقی ایشیا میں دنیا کی دو فوجی سپر پاورز کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، تجزیہ کار فوجی بات چیت کی بحالی اور بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان براہ راست رابطے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مکالمہ ایسی جنگ کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے جس کو کوئی بھی فریق بھی نہیں چاہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مہدی النک
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ