21 اگست 2025 - 10:00
الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

60 سال گذرنے کے باوجود، الجزائر میں فرانس کے جوہری تجربات کے بارے میں بہت سے ان کہے راز باقی ہیں جو ابھی تک منکشف نہیں ہوئے ہیں / اسرائیلی سائنسدان الجزائر میں ہونے والے تمام فرانسیسی ایٹمی تجربات میں حاضر تھے اور معلومات اکٹھی کر رہے تھے!

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مورخہ 13 فروری 1960 کی صبح، جنوب مغربی الجزائر کے علاقے 'رقان' (Reggane) کے آسمان پر مشروم کی شکل میں ایک سیاہ بادل کے نمودار ہونے کے ساتھ ہی، جنرل 'چارلس ڈی گال' نے آپریشن رقان کے مرکز کو ایک ٹیلی گرام ارسال کیا جس کا متن تھا: "فرانس زندہ باد! آج سے، فرانس مزید طاقتور ہو گیا ہے۔"

یہ الجزائر کے رقان نامی علاقے میں فرانس کا پہلا جوہری بم کا تجربہ تھا جس کا نام "Gerboise Bleue" (نیلا يَربوع ۔ نیلا جَنگَلی چُوہا) تھا، جو اخبار 'PARIS Presse L’Intransigeant' کے سرورق پر نمایاں ہؤا اور اس نے فرانس کے جوہری طاقتوں کے کلب میں شامل ہونے پر مبارکباد پیش کی۔

کچھ دیر بعد، اس دھماکے کی ایک تصویر اخبار ' لو جرنل ڈو ڈیمانیش (Le Journal du Dimanche) کے سرورق پر سجا دی گئی، جس نے فخر سے لکھا: "یہ فرانس کے جوہری بم کی پہلی تصاویر اور رپورٹ ہے۔"

اس وقت فرانسیسی میڈیا نے واقعے کا صرف ایک رخ پیش کیا: کہ پیرس جوہری بم رکھنے والے ممالک کے کلب میں شامل ہو گیا ہے۔ لیکن انہوں نے دوسرا پہلو نظرانداز کر دیا: "الجزائریوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے بے جان جسم، بہائے گئے خون اور تابکار مواد سے آلودہ ہوا اور زمین" ان گھناؤنے جرائم میں سے ایک جنہیں فرانس آج تک چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

جوہری بم کے جنون میں مبتلا بڈھا

جب فرانس نے اپنے پہلے جوہری تجربات کیے تو الجزائر اس وقت فرانسیسی استعمار سے آزادی کی جدوجہد کر رہا تھا۔ اس وقت سے لے کر چھ سال بعد تک، فرانسیسیوں نے الجزائر کے صحرا میں 17 جوہری تجربات انجام دیئے۔

فرانس کی جوہری بم تک پہنچنے کی کوششیں اگرچہ کئی سال پہلے کی ہیں، لیکن یہ کوششیں سنہ 1945ع‍ میں ڈی گال کے ذریعہ ایٹمی انرجی کمیشن کے قیام کے ساتھ باقاعدہ طور پر شروع ہوئیں۔

ڈی گال نے جوہری بم بنانے کے لئے فرانس کے تمام تکنیکی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لایا اور سنہ 1952ع‍ میں فرانس کا پہلا پانچ سالہ ایٹمی منصوبہ پیش کیا، جس کا مقصد کم از کم 50 کلوگرام پلوٹونیم پیدا کرکے چھ سے آٹھ جوہری بم تیار کرنا تھا۔

اس پروگرام نے الجزائر میں واقع رقان سائٹ کو فرانس کے پہلے جوہری تجربات کے لئے منتخب کیا۔

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

زہریلا سانپ اپنا گھونسلا بنانے کے لئے کوشاں

سنہ 1945ع‍ میں ایٹمی توانائی کمیشن کے قیام کے بعد، فرانس نے جوہری تجربات کے لئے ایک مناسب مقام کی تلاش کے سلسلے میں تحقیق شروع کی۔ پیش کردہ تجاویز میں سے، الجزائر کا صحرا فرانس سے جغرافیائی قربت اور وسیع رقبے کی وجہ سے منتخب کیا گیا۔

فرانسیسیوں نے الجزائر کے صحرا میں "رقان" اور "عین عکر (In Eker)" کے علاقوں کا انتخاب کیا۔ تیسرا علاقہ " "کولومب بشار" (Colomb-Béchar) تھا جو کیمیائی تجربات کے لئے مختص کیا گیا۔ الجزائر کا انتخاب کوئی اتفاقی یا حادثاتی واقعہ نہیں تھا، یہ بڑی طاقتوں کے جوہری تجربات کا ایک ماڈل ہے کہ وہ اپنے تجربات دوسرے ممالک میں کرتے ہیں تاکہ متاثرین دوسرے ممالک کے باشندے ہوں۔

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

"نیلا يَربوع" تجربے کا مقصد بم کے اثرات، استعمال ہونے والے مواد کے رد عمل کی صلاحیت اور دھماکے کے اثرات سے نمٹنے کی تیاری کی پیمائش کرنا تھا۔ اس لئے فرانسیسی فوج نے تابکاری کے اثرات کے مشاہدے کے لئے آلات نصب کیے تاکہ دھماکے کے اثرات اور نتائج کا جائزہ لیا جا سکے۔

بم کا وزن 70 ٹن تھا اور اس کے دھماکے کی قوت ہیروشیما پر گرائے گئے امریکی ایٹم بم سے چار گنا زیادہ تھی۔ یہ بات ہی اس سانحے کی گہرائی عیاں کرنے کے لئے کافی ہے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ فرانس نے اس تجربے میں خطے کے رہائشیوں کی حفاظت کو مد نظر نہیں رکھا تھا۔ بم ایک سو میٹر بلند آہنی ٹاور پر پھاڑا گیا، بغیر اس بات کے کہ لوگوں، زرعی پیداوار اور زمین پر اس کا اثر کیا ہوگا۔

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

یکم اپریل سنہ 1960ع‍ کو "نیلے یربوع" تجربے کے محض دو ماہ بعد، فرانس نے اپنا دوسرا تجربہ "وائٹ جربوئل" (سفید یربوع) کے نام سے انجام دیا۔ جنرل چارلس ایلیرے (Charles Ailleret) کے بیان کے مطابق، اس دھماکے نے بہت زیادہ آلودگی پھیلائی۔

چارلس ایلیرے کے بقول، "کنکریٹ کے ایک چبوترے پر پر بم کے پھٹنے سے دھماکے کے نتیجے میں آلودہ ذرات کی کثیر مقدار پھیلنے سے ارد گرد کے علاقوں میں انتہائی شدید تابکاری آلودگی پھیل گئی۔" فرانس نے دسمبر 1960 میں تیسرا تجربہ "ریڈ جربوئل" (سرخ یربوع) کے نام سے کیا۔ اس تجربے میں ایک ہزار عام چوہوں، صحرائی چوہوں اور بکریوں جیسے جانوروں کو استعمال کیا گیا تاکہ دھماکے کے اثرات کا ان پر جائزہ لیا جا سکے۔

اپریل سنہ 1961ع‍ میں فرانس کا چوتھا سطحی جوہری تجربہ "گرین جربوئل" (سبز یربوع) کے نام سے کیا گیا، جو کامیاب نہیں رہا اور کھلی فضا میں تجربات کرنے پر فرانس پر عالمی سطح پر تنقید عروج پر پہنچ گئی۔

منکشف ہونے والے دستاویزات بتاتی ہیں کہ فرانس نے اس تجربے میں '195 فرانسیسی فوجیوں کو انتہائی خفیہ طور پر اور ان کی معلومات کے بغیر، تجرباتی چوہوں کے طور پر' استعمال کیا۔

زہریلا جوہری مواد صحرا کی گہرائیوں میں سرایت کر گیا

چار سطحی (اور کھلی فضا میں ہونے والے) تجربات اور شدید و وسیع آلودگی پھیلانے کے بعد، فرانس عالمی دباؤ کے آگے جھک گیا اور اپنے جوہری تجربات زیر زمین جاری رکھے۔ لیکن الجزائر کو معاف نہ کیا اور زیر زمین تجربات کے لئے بھی الجزائر کے علاقے "ہقار" (Hoggar) کو فرانسیسیوں کے نئے ہدف کے طور پر منتخب کیا گیا۔

فرانس نے سنہ 1960ع‍ سے سنہ 1966ع‍ کے درمیان الجزائر کے مختلف علاقوں میں 17 جوہری تجربات کیے، جن میں رقان کی کھلی فضا میں چار تجربات، "ہوگار" میں ایک زیر زمین تجربہ، اور "عین عکر" پہاڑ میں چار تجربات شامل تھے۔ عین عکر کے تجربات جوہری مواد کے رساؤ کا باعث بنے۔

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

پہلا رساؤ مئی سنہ 1962ع‍ میں "بیریل" تجربے (بیریل کے واقعے Béryl incident)  کے دوران، دوسرا رساؤ مارچ سنہ 1963ع‍ میں "ایمی تھسٹ" (Améthyste) تجربے کے دوران، تیسرا رساؤ اکتوبر سنہ 1963ع‍ میں "روبی" (Ruby) تجربے کے دوران، اور چوتھا رساؤ مئی سنہ 1965ع‍ میں "جیڈ" (Jade) تجربے کے دوران ہؤا۔

فرانس کی پارلمان اس بات کو تسلیم اور تأکید کرتی ہے کہ فرانس کے تیرہ زیرزمین جوہری تجربات میں سے چار تجربات رساؤ کا سبب بنے ہیں۔ "بیریل" اور "ایمی تھسٹ" تجربات تابکار لاوے کے اخراج کا باعث بنے، جبکہ "روبی" اور "جیڈ" تجربات گیس کی صورت میں تابکار عناصر کے اخراج کا سبب بنے اور ان علاقوں کے رہائشیوں کو جوہری تابکاری کا سامنا کرنا پڑا۔

ان دھماکوں کے دوران الجزائر کے صحراؤں کی گہرائیوں میں جو کچھ ہوا، فرانس نے اس کی تفصیلات کبھی آشکار نہیں کیں، لیکن چشم دید گواہوں نے دھماکوں سے ہونے والے سانحات کا انکشاف کیا۔ "بیریل" تجربے کے دوران، ـ جو کہ ایک اہم ترین جوہری تجربات میں سے تھا اور اس نے مٹی اور خطے کے رہائشیوں کو تابکار مواد سے آلودہ کیا، ـ ایک فرانسیسی فوجی بیان دیتا ہے: "بارہ بج کر تیس منٹ پر ہم نے ایک زبردست دھماکے کی آواز سنی۔ شروع میں منظر بہت خوبصورت تھا؛ پہاڑ کا رنگ بدل کر شفاف ہو گیا۔ لیکن چند لمحوں بعد، ہم نے پہاڑ کی چوٹی کو پھاڑ سے الگ ہوتے اور سیاہ دھواں ہوا میں پھیلتے دیکھا۔" یعنی دھماکہ زیر زمین سے پھر بھی کھلی فضا میں پہنچا!

اس تجربے میں، 5 سے 10 فیصد تابکار مواد دھماکے کے منہ سے لاوا بن کر پگھلے ہوئے مادے کی شکل میں خارج ہؤا۔ رسے ہوئے مواد کا حجم 700 مکعب میٹر تک پہنچ گیا تھا؛ جس کی وجہ فرانس کی ناکافی تیاری تھی۔

پروفیسر "ایو روکار"، جو ان تجربات کے دوران ماہر و ناظر کے طور پر موجود تھے، کہتے ہیں: "فرانس کے تمام چاروں زیر زمین تجربات ناموافق اور انتہائی آلودہ کرنے والے حالات میں کیے گئے، حتیٰ کہ بنیادی احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کی گئیں۔"

اس وقت کے فرانسیسی وزیر دفاع "پیئر میسمر" (Pierre Messmer) ، جو "بیریل" آپریشن کے موقع پر موجود تھے، نے تسلیم کیا کہ تجربہ گاہ میں تابکاری کی مقدار کا اندازہ لگانا ناممکن ہے، لیکن یہ یقینی طور پر معمول کی حد سے زیادہ تھی۔

فرانس "بیریل" اسکینڈل پر پردہ نہ ڈال سکا اور خبر میڈیا میں پہنچ گئی۔ فرانسیسی میڈیا نے دھماکے کی یوں رپورٹنگ کی: "تان آفیلا پہاڑ (Taourirt Tan Afella)، دھماکے کو روکنے کے بجائے، سب کی آنکھوں کے سامنے پھٹ گیا۔ ایک بہت بڑا سیاہ بادل اٹھا اور لوگوں کے سروں کے اوپر آسمان پر اندھیرا چھا گیا۔ کمانڈر بھاگ گئے اور فوجیوں کو گھنٹوں تابکار بادل کے نیچے چھوڑ دیا۔ الجزائری مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔"

سب فرانسیسی آگ میں جھلس رہے ہیں

سالوں گذرنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ فرانس کو، جیسا کہ ڈی گال نے دعویٰ کیا تھا، جوہری ہتھیاروں پر فخر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ فرانس کو بڑے الزامات کا سامنا ہے اور سامنا رہے گا جں میں "انسانیت کے خلاف جرائم" کا منطقی الزام شامل ہے۔

فرانس نے اپنے ایک تجربے میں 150 الجزائریوں کو تجرباتی چوہوں کے طور پر استعمال کیا، انہیں صلیب پر ٹانک کر تابکاری کے اثرات کی پیمائش کی۔ فرانس نے اپنے جوہری تجربات کے دوران تقریباً 40 ہزار الجزائریوں کو تجرباتی چوہے بنایا اور مقامی باشندوں کو پہاڑوں میں سونا ڈھونڈنے کا جھانسہ دے کر تجربات کے لئے پہاڑوں میں کھدائی پر مجبور کیا۔

الجزائریوں کے علاوہ، فرانسیسی فوجی بھی اپنے ہی ملک کے تجربات کا شکار ہوئے۔ "مارسیل کوچو" اور "رولینڈ ویل" ان فوجیوں میں شامل تھے جنہیں بغیر کسی تربیت یا ساز و سامان کے، تجرباتی مقامات پر بھیجا گیا تھا۔ انہیں صرف یہ ہدایت دی گئی تھی کہ دھماکے کی روشنی کو نہ دیکھیں، تجربہ گاہ سے پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوں اور اپنے منہ اور کانوں کو ڈھانپیں تاکہ دھماکے کی لہر کی وجہ سے خون بہنے سے بچ سکیں۔ جب کہ افسران عینکوں، کیمروں اور دیگر سامان سے لیس تھے، فوجیوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔ انہیں دھماکے کے محض چند منٹ بعد دھماکے کے مرکز میں جانا ہوتا تھا اور مطلوبہ مشنوں کو انجام دینا ہوتا تھا۔

الجزائر کے ڈسٹرکٹ "تمنراست" (Tamanrasset) کے ایک رہائشی کا کہنا ہے: "اس وقت میں چھ سال کا تھا، صحرا میں بھیڑیں چرا رہا تھا کہ فرانسیسی آئے اور ہمیں ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر لے گئے، ریوڑ کو چھوڑ گئے۔ جب ہم گاؤں پہنچے تو ہمیں ٹرک میں بٹھا کر دوسری جگہ لے جایا گیا۔ اسی دن، میری ماں، باپ اور بھائی مر گئے۔"

الجزائر کے صحرا میں باقی ماندہ زہریلی فرانسیسی ترکہ

فرانس نے الجزائر کی آزادی کے بعد بھی تیل کی دریافت کے بہانے الجزائر کے صحرا میں اپنے جوہری تجرباتی مقامات کا استعمال جاری رکھا اور کبھی بھی تجرباتی تنصیبات کے خاتمے،  ماحولیات کی بحالی یا مقامی لوگوں کی صحت کی نگرانی، کے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا؛ کرے؛ یہی نہیں بلکہ فرانس نے جوہری فضلے کے ٹھکانوں کے صحیح مقامات کے نقشے دینے سے بھی انکار کر دیا۔

صحافیوں اور محققین کی گواہی جنہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا، وسیع پیمانے پر پڑے ہوئے فضلے کی نشاندہی کرتی ہے جو صحرا میں پڑا ہؤا ہے اور مقامی باشندے آسانی سے اس تک اور تابکاری سے آلودہ علاقوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

"عین عکر" الجزائر میں فرانس کے جوہری تجربات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ "بیریل" تجربہ وہاں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 250 ہیکٹر اراضی، بشمول پہاڑ "تان آفیلا" کے 2.5 ہیکٹر ڈھلانوں کو تابکار مواد سے آلودہ کر دیا گیا، جس کے اثرات 60 سال گذرنے کے بعد بھی قائم ہیں۔

"محمد بن جبار" ان متاثرین میں سے ایک ہیں جن کا 18 دن تک آلودہ مواد سے قریبی رابطہ رہا۔ وقت گذرنے کے ساتھ، انھوں نے اپنی صحت کھو دی اور معذور ہو گئے۔ ان کا پہلا بچہ ہائیڈرو سیفالس (یا استسقاء دماغ) کے ساتھ پیدا ہؤا اور دوسرا بچہ تین گردوں کے ساتھ۔"

الجزائر میں فرانس کے وحشیانہ جوہری تجربات؛ ان کہے جرائم

فرانس کے جرائم وقت گذرنے سے فراموش نہیں ہوتے

اگرچہ فرانس نے اپنے جوہری تجربات کے تباہ کن اثرات کو ضمنی طور پر تسلیم کیا ہے، لیکن عملی طور پر اس نے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے جو الجزائریوں کے حقوق کی ضمانت دے۔ یہ اس صورت حال میں ہے کہ مقامی باشندے سنگین مسائل کا شکار ہیں، بشمول کینسر کی مختلف اقسام اور آنکھوں اور دل کی بیماریاں۔

الجزائر میں فرانس کے جوہری تجربات ہوئے 60 سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے، یہ ایک ایسا جرم ہے جو الجزائر کے عوام کے خلاف کیا گیا۔ لیکن فرانس نے نہ صرف سرکاری طور پر ان جرائم کو تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان تجربات کے متاثرین کو کوئی معاوضہ ادا کیا ہے، بلکہ وہ صحرا میں تجربات کی صحیح جگہوں اور اپنے تابکار فضلے کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات ظاہر کرنے تک سے انکاری ہے۔

ایک انتہائی اہم نکتہ: اسرائیلی سائنسدان الجزائر میں ہونے والے تمام فرانسیسی ایٹمی تجربات میں حاضر تھے اور معلومات اکٹھی کر رہے تھے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: قیس زعفرانی، روزنامہ نویس

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha