1 جولائی 2014 - 13:27
شام میں اکياسي ملکوں کے بارہ ہزار شدت پسند تشدد میں ملوث ہیں

نيويارک ميں قائم ادارے سوفان گروپ نے اپني ايک تازہ ترين رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ شام کي تين سالہ خانہ جنگي ميں دنيا کے اکياسي ملکوں کے بارہ ہزار جنگجوؤں نے حصہ ليا ہے جن ميں يورپي ملکوں کے ڈھا‏ئي ہزار تربيت يافتہ دہشت گرد بھي شامل ہيں-

ابنا: اس رپورٹ کے مطابق ‏غيرملکي جنگجوؤں ميں يورپي يونين کے مختلف ملکوں خصوصا ، امريکہ، کنيڈا، آسٹريليا، اور نيوزي لينڈ کے شہري شامل ہيں جو شام کي حکومت اور عوام کے خلاف دہشت گردانہ کاروائيوں ميں مصروف ہيں- سوفان گروپ کي رپورٹ کے مطابق فرانس کے سات سو، برطانيہ کے چارسو، ڈنمارک سے سو اور سعودي عرب سے ڈھائي ہزار دہشت گرد شام گئے ہيں- رپورٹ کے مطابق يہ جنگجو شام پہنچنے کے بعد داعش جيسے انتہا پسند تکفيري گروہوں سے ملحق ہوگئے ہيں جبکہ شمالي قفقاز سے بھي دہشت گردوں کي ايک تعداد شام کي خانہ جنگي ميں ملوث ہے- البتہ شام ميں دہشتگرد گروہوں ميں شامل زيادہ تر انتہا پسند عرب ممالک سے آ‏ئے ہيں-

رپورٹ کے مطابق اگرچہ ان غير ملکي جنگجوؤں ميں زيادہ تعداد نوجوان مردوں کي ہے تاہم خاصي بڑي تعداد ميں تربيت لڑکياں بھي ان کي جنسي تسکين اور حوصلوں کو بڑھانے کي ‏غرض سے ان کے ہمراہ شام گئ ہيں-

سوفان گروپ کي رپورٹ کے مطابق عالمي برادري کو اس بات سے سخت تشويش لاحق ہے کہ شام کي جنگ کے بعد يہ لوگ کيا کريں گے- شام کي قانوني حکومت کے خلاف برسر پيکار جنگجووں کي اتني بڑي تعداد کے بارے ميں مغربي ملکوں خصوصا " سوفان گروپ" جيسے ادارے کے بيان کردہ اعداد شمار عالمي برادري کے لئے خطرے کي گھنٹي شمار ہوتے ہيں-

مغربي ملکوں ميں ان دہشت گردوں کي واپسي سے متعلق جو انتباہات ديئے جارہے ہيں ان سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح شام کي حکومت نے بارہا اعلان کيا ہے ، يہ شام کے عوام نہيں ہيں جو حکومت کے ساتھ لڑ رہے ہيں بلکہ يہ انتہا پسند دہشت گرد گروہ ہيں جو مغربي ملکوں اور ان عرب اتحاديوں کے حمايت سے شام ميں جنگ کي آگ بھڑکائے ہوئے ہيں-

اس سلسلے ميں حال ہي ميں يہ اعلان کيا گيا ہے کہ امريکي صدر باراک اوباما نے شام دہشتگرد گروہوں کي مدد و حمايت کے لئے کانگريس سے پانچ سو ارب ڈالر کي منظوري ديئے جانے کي درخواست کي ہے - اگرچہ امريکيوں کا دعوي ہے کہ يہ امداد صرف انہي گرہوں کو ارسال کي جائے گي جو مغرب کے ساتھ مکمل ہم آہنگي رکھتے ہيں اور بقول ان کے اعتدال پسند ہيں, ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے کہ يہ امداد تکفيري گروہوں کو دي جاري ہے-

بتايا جاتاہے کہ مغرب خصوصا امريکا اور اس کا اسٹراٹيجک اتحادي برطانيہ ، جنيوا ٹو سے موسوم مذاکرات کي ناکامي کے بعد ايک بار پھر اس بات کي کوشش کررہے ہيں کہ اپنے روايتي پاليسي کے تحت ايک طرف شام کي حکومت پر دباؤ ڈاليں اور دوسري جانب انواع و اقسام کي مالي امداد اور ہتھياروں کي فراہمي کے ذريعے مخالفين کے حوصلوں کو بڑھاکر اپنے مذموم اور ناجائز مقاصد کو حاصل کريں-

.......

/169