اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے ـ دو روز قبل 12 مئی 2025ع کو ـ شہید امدادی کارکنوں کی یاد میں منعقد ہونے والی قومی کانفرنس کے مرکز دفتر کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں طویل عرصے کے دوران ـ خواہ دفاع مقدس میں خواہ اس کے بعد کے برسوں میں ـ شہید ہونے والے امدادی کارکنوں کی یاد منانے کے لئے ایک ہیڈکوارٹر کے قیام کے سلسلے میں آپ کے اس عظیم کاوش کے سلسلے میں اپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
"شہید امدادی کارکنوں کی یاد میں قومی کانفرنس" کے مہتممین سے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای کا خطاب
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
وَالحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ وَالصَّلاةُ والسَّلامُ عَلَىٰ سَيِّدِنَا ونَبِيِّنَا أبي القَاسِمِ المُصْطَفىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلىٰ آلِهِ الأطيَبينَ الأطهَرينَ الْمُنْتَجَبِينَ الْهُداةِ اَلْمَهْدِيِّينَ سِيمَا بَقِيَّةِ اَللَّهِ فِي اَلْأَرَضِينَ
میں شکریہ ادا کرتا ہون اس عظیم عمل کی خاطر جو آپ کے مجموعے نے سرانجام دیا؛ یعنی شہید امدادی کارکنوں ـ خواہ وہ جو دفاع مقدس میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں، خواہ وہ جو بعد کے برسوں میں شہید ہوئے ہوئے ہیں ـ کی یاد منانے اور ان کی تکریم کے لئے ہیڈکوارٹرز کا قیام۔ بہت ضروری اور اہم کام تھا، [اور امید ہے کہ] ان شاء اللہ یہ کام اپنے مطلوبہ اثرات مرتب کرے۔ یہ اقدامات جن کا [ہلال احمر کے سربراہ] جناب کولیوند نے تذکرہ کیا - اس خوبصورت تحریر میں جو انھوں نے پڑھ کر سنایا - کہ یہ کام انجام پائے ہیں، ضروری ہے کہ ان کو سنا اور دیکھا جائے۔
یہ کہ آپ محض ایک کام کا آغاز کریں اور ایک اچھا پروگرام ترتیب دیں، یا ایک اچھی کتاب لکھیں، یا ایک فلم بنائیں، تو یہ کافی نہیں ہے۔ جو چیزیں آپ نے بتائیں، انسان کو خوش کر دیتی ہیں، اور بہت اچھی ہیں، تاہم آپ کو ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ آٹھ کروڑ کے ایک ملک میں، دو کروڑ افراد آپ کو دیکھیں اور سنیں؛ یعنی یہ کہ آپ انہیں حقیقتا ترویج دیں؛ یہ کام بہت اہم ہے۔ اس کا راستہ تلاش کریں، اور آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے نوجوان ان شعبوں میں جن کا ڈھانچہ موجود ہے۔۔۔ بیٹھ سکیں، انہیں فرصت ملے، سوچ لیں، اور راہ حل اور تخلیق کاری کو تلاش کریں، یقینا وہ بہت اچھے نتائج حاصل کر سکیں گے؛ اس کو ہم نے صنعت میں بھی آزمایا، ادب اور فن میں بھی آزمایا، سیاست میں آزمایا، مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے میدان میں بھی آزمایا۔
اگر نوجوان عزم و ہمت کے ساتھ کام میں داخل ہوجائیں، ہمت کریں اور ثابت قدم رہیں، کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے۔ جن شعبوں میں ملک کے اندر بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے، وہ ڈھانچہ رفتہ رفتہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہی پیشرفت جو آج آپ مختلف شعبوں میں دیکھ رہے ہیں، ان کا کوئی قومی ڈھانچہ نہیں تھا۔ آج شہداء کے بارے میں سینکڑوں لائق مطالعہ کتابیں ہیں، جو حقیقتا پڑھنے کے قابل ہیں اور اگر آدمی کو موقع ملے اور انہیں دیکھ لے اور پڑھ لے تو ان میں سے ہر ایک بہت دلچسپ ہے ـ بلا شبہ ایسا ہی ہے ـ حالانکہ انقلاب اسلامی سے قبل ہمارے پاس فنکارانہ کاوشوں اور سرگرمیوں ـ بالخصوص داستان نویسی ـ کے لئے کوئی ماحول نہیں تھا؛ بہت بہت شاذ و نادر اور بہت کم اور نچلی سطح کا ماحول تھا۔ آج کام کی سطح بہت اونچی ہے؛ یہ ڈھانچہ ہمارے نوجوانوں نے تعمیر کیا، ہمارے فنکاروں نے تعمیر کیا۔ چنانچہ آپ آگے بڑھ سکتے ہیں، اور ان شاء اللہ یہ کام انجا دیں۔
ایک فوجی مجاہد کو تربیت اور ہتھیار کی ضرورت ہے؛ لیکن جو شخص اس کو تربیت اور اسلحہ دیتا ہے، وہ عام طور پر جنگی معرکوں سے باہر اس کو یہ خدمت پہنچاتا ہے۔ اس فوجی کو امداد کی ضرورت ہے، مرہم پٹی کی ضرورت ہوتی ہے، زخموں سے رستا ہؤا خون روکنے، اور زخمی فوجی کو ڈسپنسری اور ہسپتال پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہےی اور جو شخص فوجی کے لئے یہ کام انجام دیتا ہے، وہ معرکے کے وسط میں موجود ہے؛ یہ حمایت اور پشت پناہی کی ان قسموں میں بہت اہم فرق ہے۔ امدادی کارکن گولیوں کی بوچھاڑ اور گولوں کے ٹکڑوں کی بارش میں، دوسرے کی نجات کے لئے سوچتا ہے۔ ہمارا فوجی دو کام کرتا ہے: ایک یہ کہ دشمن کو پیچھے دھکیل دے اور دوسرا یہ خود کو محفوظ رکھے؛ لیکن ہمارے امدادی کارکن کو اپنی حفاظت کی فکر نہیں ہے، اس کو دوسروں کی جان کی فکر ہے اور دوسروں کی حفاظت کے لئے میدان میں اترتا ہے۔ جو کچھ ایک آدمی کو ہمارے مجاہدین کی یادداشتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، ان کی رو سے جو کچھ امدادی کارکن انجام دیتے رہے ہیں [میدان جنگ میں] وہ حقیقتا حیرت انگیز ہے؛ ان تمام سختیوں میں ان کا ایثار اور ان کے وہ کارنامے، ان کی تشریح کرنا ضروری ہے لوگوں کے لئے تاکہ جان لیں اور سمجھ لیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے امدادی کارکن انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر تھے، ہم نے ایسے مناظر دیکھے کہ ہمارے امدادی کارکن حتیٰ کہ قید ہونے والے زخمی دشمن فوجیوں کی ابتدائی طبی امداد بہم پہنچا رہے تھے؛ یہ بہت بڑا کام ہے۔ کیونکہ دشمن میدان میں آپ کو مارنے کے لئے آیا ہے، تلافی اور جوابی اقدام کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ بھی اسے مارنا چاہیں؛ لیکن آپ جب اپنا امدادی بیگ کندھے پر لٹکاتے ہیں، یا جنگی محاذ کے پچھلے علاقوں میں واقغ فیلڈ ہسپتال میں پہنچ جاتے ہیں، اور وہاں امداد پہنچاتے ہیں، در حقیقت اس صورت حال کے برعکس جو انسانیت سے اجنبی دنیا پر حکم فرما ہے، اس کے برعکس عمل کرتے ہیں اور برتاؤ کرتے ہیں؛ انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اگلے محاذ کے بالکل قریب، ـ البتہ مجھے یاد نہیں ہے کہ اگلے مورچوں سے فاصلہ کتنا تھا، لیکن فاصلہ بہت کم تھا ـ کچھ ڈاکٹر اور نرس فیلڈ پسپتال میں مصروف عمل تھے، وہاں انہوں نے آپریشن تھیئٹر بنا رکھا تھا، جو باعث حیرت تھا! یہ بہت اہم ہے؛ دشمن کے گولے اور کم فاصلے پر مار کرنے والے مارٹر توپوں کے گولے وہاں پہنچتے تھے، اور انہوں نے دشمن کو گولوں کی زد میں، آپریشن تھیئٹر قائم کیا ہؤا تھا. دفاع مقدس کے دوران ایسے ڈاکٹر بھی تھے جن کا بیگ ہر وقت تیار رہتا تھا اور جب بھی آپریشن شروع ہونا ہوتا تھا، اور ان کا جانا طے ہو جاتا تھا، اور انہیں اطلاع ملتی تھی، یا ان کے گھر کو ٹیلی فون پر خبر دی جاتی تھی، گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ "ہم گئے" اور بیگ اٹھا کر روانہ ہو جاتے تھے؛ یعنی یہ کہ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جو زبان سے قابل بیان ہوں؛ انہیں فن کے سوا کسی بھی ذریعے سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا، اور بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔
اب آپ اس کا موازنہ کریں ان انسان نما وحشی حیوانوں سے جو ایمبولینسوں پر بمباری کرتے ہیں، ہسپتالوں پر بمباری کرتے ہیں، بیماروں پر بم گراتے ہیں اور انہیں قتل کر ڈالتے ہیں، بے گناہ اور دفاع سے عاجز بچے کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قتل کر دیتے ہیں! آج دنیا اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے؛ آج اسلامی جمہوریہ کی تحریک اور اسلامی جمہوریہ کی استقامت اور وہ "جدید اسلامی تہذیب" جس کو اسلامی جمہوریہ مسلسل دہرا رہی ہے، دنیا کی اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کر سکے اور حقیقت میں وہ اپنے اس قول سے مطمئن بھی ہو، کہ اس وحشی پن، ان خونخواریوں اور درندگیوں کے مقابلے میں انسانوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کون ایسی بات کر سکتا ہے؟ ہم سب کی ذمہ داری ہے، جو لوگ آج دنیا پر اختیار رکھنے کے دعویدار ہیں، یا دنیا میں کچھ ممالک کے حکمران ہیں، ان کا سلوک یہ ہے، بچے کو مار دیتے ہیں، بیمار کو قتل کرتے ہیں، ہسپتال کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، غیر فوجی عوام پر بلا جھجھک بمباری کرتے ہیں۔ [ہم ان سے کہتے ہیں کہ] اگر تمہیں لڑنا ہے تو فوجی فوجی سے لڑے۔ اور ہاں کبھی یہی جنگ بھی منصفانہ نہیں ہے، ظالمانہ ہے؛ یعنی یہ کام ظالمانہ ہے، لیکن بہرحال جنگ فوجیوں کے بیچے ہوتی ہے۔ غیر فوجی اور عام شہری کو کیونکہ قتل کر دیتے ہیں؟ کیوں مارتے ہیں؟ کیوں گھر کو اجاڑ دیتے ہیں؛ آج دنیا اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔
یہ وہ عظیم ذمہ داری ہے جو ہمارے کندھوں پر ہے۔ یہ ہمارا احساس ذمہ داری ہے جو ہمیں حرکت کرنے پر آمادہ کرتا ہے؛ ذمہ داری کا یہ اجساس ہے جو ہمارے دلوں میں امید کا چراغ نہیں بجھنے دیتا؛ اور ہمارا یہی ذمہ داری کا احساس ہے جو ان ٹائی بندھے، اسپرے لگائے خوش نما مغربی درندوں کی طرح کے دشمنوں کو اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور دشمنی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے؛ یعنی اگر آپ ان درندگیوں پر احتجاج نہ کریں یا ان کے ساتھ ہوجائیں [اور ان کے جرائم کو صحیح تسلیم کریں] اور اگر آپ ان کے جرائم کی تعریف و تحسین کریں، تو وہ آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہيں رکھیں گے؛ مشکل یہی ہے کہ آپ اس باطل تہذیب کی بنیادوں کو مسترد کر رہے ہیں؛ اور آپ ہی حق بجانب ہیں، اور انہیں مسترد ہی کرنا چاہئے۔
اور ان شاء اللہ باطل مٹنے والا ہے، باطل باقی رہنے والا نہیں ہے، باطل جانے والا ہے، تاہم اقدام کرنا ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم بیٹھیں اور تماشا دیکھیں کہ باطل پگھل جائے گا، اور مٹ کر برباد ہوجائے گا؛ ایسا نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حق مٹنے والا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور جدوجہد کی اور کام کیا تو یہ باقی رہنے والا نہیں ہے، اس کے پاس مقاومت و مزاحمت پر غلبے ک قوت نہیں ہے، [ارشاد ربانی ہے:]
"وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا؛ [1]
اور اگر کافر تم سے لڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑیں گے جس کے بعد وہ نہ کوئی حمایتی پائیں گے نہ ہی کوئی مددگار"۔
[یعنی] اگر آپ سینہ سپر ہوئے، آپ ثابت قدم رہے، اور بلاشبہ وہ پیٹھ پھیرے گا؛ لیکن اگر آپ یا بیٹھ گئے یا اس کے سامنے مسکرائے [اور اپنے قول و فعل سے اس کی حوصلہ افزائی کی] یا [معرکے سے] بھاگ اٹھے، یا اس کے کاموں کی وجہ سے اس کی تحسین کی، تو نہیں! وہ (باطل) نہیں مٹے گا، بلکہ روز بروز پھیل جائے گا اور مزید طاقتور ہوگا۔
ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ، خدائے متعال آپ کو کامیاب و کامران کرے، ہمیں ہمارے فرائض پر آگاہ فرما دے، اور توفیق دے کہ اپنے فریضے پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ سورہ فتح، آیت 22۔












آپ کا تبصرہ