بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || دنیا کے ذرائع ابلاغ پر عالمی صہیونی امیرشاہی (Oligarchy) کے تسلط کے باوجود، صہیونی ریاست کا مکروہ شیطانی اور انسان دشمن چہرہ دنیا کے سامنے روز بروز بدنام سے بدنام تر اور رسوائے عالم ہوتا جا رہا ہے، اور انتہائی منافق مغربی حکومتیں بھی رائے عامہ کے دباؤ میں آکر کم از کم اس ریاست پر تنقید کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں، لیکن بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت ـ بدستور اور "پورے فخر کے ساتھ" ـ صہیونیت نوازی کا ثبوت دے رہی ہے۔ نریندر مودی حکومت کی نظریاتی مسلم دشمنی یقیناً اس پلید اتحاد کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ایک ہندوستانی سیاسی تجزیہ کار اور فلسطینیوں کے حقوق کے وکیل رانجن سلیمان نے مڈل ایسٹ مانیٹر کی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں اپنے ملک کی حکومت کے اس طرز عمل پر تنقید کی ہے:
واسودیوا کٹمبکم (वसुधैव कुटुम्बकम = Vasudhaiva Kutumbakam) جی 20 کی صدارت کے دوران ہندوستان کا بڑا نعرہ تھا: "دنیا ایک خاندان ہے" لیکن اس فلسفے کا کیا مطلب ہے جب ہم ایک ایسی ریاست کو مسلح کر رہے ہیں جو نسل کشی کر رہی ہے؟ ہم جنگی جرائم کے خلاف پرامن احتجاج کو کب جرم قرار دیتے ہیں؟ جب ہماری حکومت ایک ایسی حکومت کو غیر متزلزل سفارتی مدد فراہم کرتی ہے جو مدد کے متلاشی بچوں پر بمباری کر کے پورے ہسپتالوں کو تباہ کر دیتی ہے؟ ہندوستان، جو کبھی عالمی جنوب میں اخلاقی قیادت کا نشان تھا، آج ہمارے وقت کے سب سے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔
نفاق کا اسلحہ
اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے فوجی اور اسٹریٹجک تعلقات گذشتہ دہائی کے دوران تیزی سے بڑھے ہیں۔ 2015 میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی تجارت 5.6 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ آج، یہ شرح ایک سال میں $85 ملین ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے۔ بھارت اب اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا گاہک ہے، جو ڈرون اور نگرانی کے نظام سے لے کر درست نشانے پر لگنے والے میزائلوں تک ہر چیز کو وہاں سے درآمد کرتا ہے۔
یہ ہتھیار اخلاقی خلا میں تیار نہیں ہوتے۔ ہندوستان کو برآمد کی جانے والی بہت سی ٹیکنالوجیز "بیٹل ٹیسٹڈ" (اور میدان جنگ میں آزمائے جا چکے) ہیں - غزہ اور مغربی کنارے میں 'فلسطینیوں پر فیلڈ ٹیسٹ شدہ' ہتھیاروں کی اصطلاح۔ انہیں خرید کر، بھارت مؤثر طریقے سے قبضے، آپارتھائیڈ کی دیوار، گھروں کی مسماری اور اب غزہ میں جاری نسل کشی، کی حمایت کر رہا ہے۔
براہ راست نشری نسل کشی (Live genocide)
غزہ میں کیا ہو رہا ہے اب کوئی معمہ نہیں رہا۔ اکتوبر 2023 سے اب تک 60,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں سے اکثر خواتین اور بچے ہیں۔ ہسپتالوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ امدادی قافلوں پر بمباری کی گئی ہے۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے سابق ڈائریکٹر کریگ موخیبر (Craig Mokhiber) سمیت ممتاز وکلاء نے اس نسل کشی کو "دانستہ، باضآبطہ اور منظم" قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے نام اپنے استعفیٰ کے خط میں کریگ موخیبر نے لکھا:
""یہ نسل کشی سکھانے کی نسل کشی کی درسی کتاب کا کیس ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بہت سے یورپی اس نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں اور اسی طرح ہندوستان بھی۔"
بھارت کی خاموشی - بلکہ اس سے بھی بدتر
بھارت کا جواب خاموشی کا نہیں بلکہ نسل کشی کی فعال حمایت ہے. وزیر اعظم نریندر مودی 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والے پہلے عالمی رہنماؤں میں سے ایک تھے، اس سے پہلے کہ کوئی تصدیق شدہ حقائق سامنے آئے ہوں، انھوں نے اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کر دیا۔ ہندوستانی حکومت نے شہریوں پر اندھا دھند بمباری کی مذمت کرنے سے اجتناب کیا اور اس کے بجائے فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کیا، طلباء کارکنوں کو معطل کیا، اور بولنے کی جرات کرنے والے ماہرین تعلیم اور صحافیوں کو مطلوب (Wanted) قرار دیا۔
یونیورسٹیوں سے کہا گیا کہ وہ کیمپس کی حدود میں بھی احتجاج کی اجازت نہ دیں۔ طلبہ یونینوں کو فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی پر مبنی بیانات جاری کرنے پر تادیبی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ دہلی، ممبئی اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں پولیس نے انسانی بنیادوں پر ریلیوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ کریک ڈاؤن نے ہندوستانی حکومت اور آمرانہ حکومتوں کے درمیان خوفناک مماثلتیں پیدا کر دیں: "اختلاف رائے کو خاموش کرو، ہمدردی کو مجرمانہ فعل قرار دو۔"
فلسطین کی حمایت بھی ہوتی جسے دبایا جاتا ہے
فلسطین کے حامیوں پر تشدد
هند که زمانی میزبان یاسر عرفات با تشریفات کامل دولتی بود و از آزادی فلسطین در سازمان ملل دفاع می کرد، اکنون از نظر نظامی با آپارتاید همکاری می کند و به مردمی که در جلوی چشم مردم دنیا پاکسازی قومی می شوند، پشت می کند.
ہندوستان، جس نے کبھی ریاستی تقریب کے ساتھ یاسر عرفات کی میزبانی کی تھی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی آزادی کا دفاع کرنے کا اعزاز رکھتا تھا، اب وہ آپارتھائیڈ اور نسلی امتیآز کے علمبرداروں کے ساتھ فوجی تعاون کر رہا ہے اور دنیا کی نظروں کے سامنے لوگوں کا نسلی صفایا ہو رہا ہے اور ہندوستان اس حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے۔
عوام کی آواز دبانا
ہندوستان میں سول سوسائٹی خاموش نہیں رہی۔ دہلی سے کیرالہ تک، آزاد گروپوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور طلباء نے جرأت سے بات کی ہے۔ فنکاروں نے غزہ کے لئے پینٹنگ کی ہے، وکلا نے سپریم کورٹ کو خطوط لکھے ہیں، اساتذہ نے فلسطین کے دفاع میں کانفرنسیں کی ہیں اور ملک بھر کے مسلمانوں نے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا ہے۔
لیکن انہیں ریاستی دباؤ، ڈیجیٹل نگرانی اور میڈیا کے توسط سے حملوں اور کردار کشی کا سامنا ہے۔ نیوز چینلز انہیں "قوم دشمن عناصر" کہتے ہیں۔ پولیس غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کا استعمال کرتے ہوئے پرامن کارکنوں کو تنگ یا پھر گرفتار کرتی ہے۔ سوشل میڈیا نیٹ ورکس، خاص طور پر یونیورسٹیوں میں، نگرانی اور سنسرشپ کا شکار ہیں۔
مزاحمت بائیں طرف سے
یہ کریڈٹ ہندوستان کی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی اخلاقی سچائی قائم رکھی ہے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کی ہے اور عوام کے حقِّ احتجاج کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے ایک حالیہ بیان میں لکھا:
"ہم فلسطینی عوام کے انصاف، وقار اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوستان کی ایک حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تزویراتی طور گلے لگانا ہندوستان کے استعمار مخالف اصولوں اور انسانی حقوق سے ہماری تاریخی وابستگی کے ساتھ غداری ہے۔"
سنیُکت کسان مورچہ جو احتجاج کرنے والے کسانوں کو منظم کرنے والی اہم تنظیم ہے، نے بھی بیان جاری کیا ہے اور ثابت کیا کہ 'جدوجہد فلسطینیوں کو دنیا کے ہر گوشے کے مظلوم عوام کی مزاحمت سے جوڑتی ہے۔ ان آوازوں کو نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔ وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہندوستان کی روح مکمل طور پر ضائع نہیں ہوئی ہے؛ اور یہ کہ ہندوستانی سیاسی زندگی میں اب بھی اخلاقی لنگر (Anchors) موجود ہیں۔
بھارت اپنے موقف پر نظر ثانی کیوں کرنا پڑے گی؟
ہندوستان اس معاملے میں محض ایک 'دوسرا' ملک نہیں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے، ہمارے انتخابوں کا وزن ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی کرکے، ہندوستان نہ صرف اپنی استعمار دشمنی پر مبنی یکجہتی کے ورثے کو داغدار کر رہا ہے، بلکہ اپنے قومی مفادات کو بھی کمزور کر رہا ہے۔
ہندوستان خود بھی استعماری حکومت کا شکار رہا ہے۔ ہم نے قبضے کے خمیازے بھگت لئے ہیں، تقسیم کے زخم سہہ لیے ہیں، اور تشدد کے نقصانات کو سمجھتے ہیں۔ ایک ایسے نظام کی حمایت جو وہی مظالم دہرا رہا ہو جو ہم نے سہہ لیے ہیں، نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ بدترین غداری ہے بلکہ ہمارے اپنے تاریخی حقائق کے ساتھ بھی خیانت ہے۔
سامراجیت سے آزادی کا مطلب فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا
ہندوستان کو عالمی سطح پر استعمار اور سامراجیت کا مطالبہ کرنا چاہئے نہ کہ استعماری ریاستوں کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور ان کا دفاع کرے۔ ہم ایسے حال میں کشمیر یا سری لنکا میں انسانی حقوق کی بات نہیں کر سکتے جب ت کہ غزہ میں نسلی امتیاز اور اپارتھائیڈ کو ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہوں۔ ہم گاندھی اور نہرو کے اقوال کا حوالہ نہیں دے سکتے جب تک کہ فلسطین کے حق خود ارادیت کے سلسلے میں ان کے واضح موقف کو نظر انداز کر رہے ہوں۔
ایک باعزت خارجہ پالیسی کا مطلب ہے:
- ہندوستان فوری جنگ بندی اور غزہ تک بلا روک ٹوک انسانی امداد کی ترسیل کا مطالبہ کرنا؛
- اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی، معلوماتی اور فوجی تعاون معطل کرے؛
- اقوام متحدہ اور عالمی جنوب میں اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنا، اس پر سفارتی تنہائی مسلط کرنا اور اس ریاست کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹہرانے کا مطالبہ کرنا؛
- بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعے تحقیقات کی حمایت کرنا، نہ کہ ان اداروں کو کمزور کرنا؛
- اپنے ملک میں اختلاف رائے کے حق کا تحفظ کرنا، بشمول فلسطین کی حمایت کرنے والی آوازوں کا احترام کرنا؛
اختتام: تاریخ گواہی دے گی
غزہ کی نسل کشی کوئی عام اور معمولی سا واقعہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے زمانے کا اخلاقی مسئلہ اور اخلاقی امتحان ہے۔ اور ہندوستان کا مقام تاریخ میں اس کے تجارتی اعداد و شمار یا جغرافیائی-سیاسی حساب کتاب سے نہیں، بلکہ اس نازک موقع پر اس کے موقف سے طے ہوگا جب روٹی کی قطار میں کھڑے بچوں پر بمباری ہو رہی ہو۔ کیا ہم 'انصاف' کا انتخاب کریں گے یا صرف تماشائی بن کر رہیں گے؟
ہندوستان عالمی جنوب کی قیادت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ وہ جبکہ وہ نسل کشی کی مشین کو سپورٹ کر رہا ہو۔ یہ راستہ سیدھا کرنے کا موقع ہے، ہماری آواز بلند کرنے کی خاطر ہتھیاروں کی تجارت بند کرو؛ اپنے اقدار کو بحال کرو۔ کیونکہ آخر میں، فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطین کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ہمارے اپنے بارے میں (ہماری شناخت اور انسانی فرض شناسی کے بارے میں)، ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانجن سلیمان ایک سیاسی تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ وہ 1987 سے فلسطینی کے لئے انصاف کے مشن میں سرگرم ہیں اور براعظموں میں سامراجیت سے چھٹکارے، نسلی امتیاز کے خلاف اور عوام کو بااختیار بنانے جیسے مسائل پر کام کرتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ