بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || 15 نومبر، قرآن کے عظیم مفسر اور حوزہ علمیہ میں فلسفیانہ و اور علمی فکر کے احیاء کرنے والے اصولی، فقیہ، عارف اور فلسفی آیت اللہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی کی برسی ہے۔ ایک ایسے مفکر جن کی تصانیف اور تربیت آج بھی عالم اسلام کے فکری و دینی ماحول جلوہ فگن ہے۔
اسی مناسبت سے فارس نیوز ایجنسی نے مہدویت فاؤنڈیشن کے مدرس اور قران حدیث میں پی ایچ ڈی کے سند یافتہ، احسان عبادی، سے گفتگو میں علامہ طباطبائی کی علمی و فکری شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
اس انٹرویو میں احسان عبادی نے علامہ طباطبائی کے علمی و تاریخی مرتبے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "علامہ طباطبائی کا اہم اور شاندار علمی کام حوزہ علمیہ میں قرآن کی تفسیر اور فلسفے کا احیاء سے عبارت ہے۔"
انھوں نے علامہ کی شخصیت کے قرآنی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "علامہ طباطبائی شخصیت کے تمام پہلوؤں ـ علمی، اخلاقی، عرفانی اور نفس کی پاکیزگی ـ میں اپنے زمانے کے گنے چنے انسانوں میں سے ایک تھے۔ وہ نہ صرف شاگردوں کی ایک ممتاز نسل کی تربیت میں کامیاب رہے، بلکہ انھوں نے عالم اسلام میں قرآن پر مبنی فکر کے احیاء میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور اپنی انوکھی تفسیری روش ـ یعنی "یعنی قرآن کی تفسیر قرآن سے"، سے ایک ایسا مکتب قائم کیا جو آج بھی قرآنی علوم کے تحقیقی طریقوں میں معتبر سمجھا جاتا ہے۔"
عبادی نے علامہ کی تصانیف کے تاریخی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "علامہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی مکتب کا تعارف کروانا اس کی درست تاریخ کی تصویر پیش کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کی کتاب "'شیعہ در اسلام' "تشیّع کیا ہے؟" کے سوال کا ایک پُر سکون اور مدلل جواب ہے؛ یہ وہ کتاب ہے جس کا ہنری کاربن (Henry Corbin) کے تعارفی نوٹ کے ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ مکتب اہل بیتؑ فکر کے لئے ایک معتبر شناخت نامہ سمجھی جاتی ہے۔"
عبادی نے تفسیر المیزان کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ تفسیر اتنی بدیع، جدید اور جامع ہے کہ شہید مطہری کے بقول 'اسلام کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی' اور اس کی تعلیمات کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے دہائیوں کا عرصہ درکار ہے۔ علامہ سے پہلے، زیادہ تر تفاسیر یا تو بہت حد تک روایات و احادیث پر انحصار کرتی تھیں، یا پھر کلامی اور ادبی بحثوں میں گم ہو جاتی تھیں؛ لیکن علامہ نے "تفسیرِ قرآن بہ قرآن" کے بنیادی اور انقلابی طریقے کو عروج تک پہنچایا۔"
انھوں نے علامہ کی تفسیری منطق کو یوں بیان کیا: "علامہ کا ماننا تھا کہ قرآن ایک مربوط اکائی ہے اور کسی آیت کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے دوسری آیات کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے؛ گویا قرآن کے اندر ایک اندرونی گفتگو ہے اور آیات ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔ انھوں نے اس طریقے سے قرآن کو بیرونی مفروضوں میں قید ہونے سے آزاد کروایا اور قرآن کے متن کی اصلیت کو نمایاں کر دیا۔"
اس مدرسے کے استاد نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں علامہ کی فلسفیانہ جہت کا حوالہ دیا اور مزید کہا: "جس وقت مادیت پسند افکار خصوصاً مارکسزم کی لہر نے نوجوانوں کے ذہنوں کو چیلنج کیا تھا، علامہ طباطبائی مضبوطی کے ساتھ میدان میں اترے۔ انھوں نے اسلامی فلسفے کو پیچیدہ اور محض علمی ماحول سے نکال کر عام فہم عصری زبان میں میں ڈھال کر پیش کیا۔"
عبادی نے کتاب "اصولِ فلسفہ و روشِ رئالیسم" (The Principles of Philosophy and the Method of Realism) کے بارے میں کہا: "یہ کتاب ایک شاہکار کامل ہے؛ متن علامہ کا ہے اور اس کی تجزیاتی تشریحات شہید مطہری کی ہیں۔ علامہ شناخت کے بنیادی مسائل سے شروع کرتے ہیں اور عقلی دلائل کے ذریعے مادی فلسفے کی بنیادوں کو ہلا دیتے ہیں اور مثالیت (مثالیت) اور سوفسطائییت (سَفْسِطَہ اور مغالطہ) کے مقابلے میں حقیقیت (Realism) کی اَصالَت (و اصلیت) کو ثابت کرتے ہیں۔ یہ کام اپنے زمانے اور آنے والی نسلوں کے لئے فکری ویکسین ثابت ہؤا۔"
انھوں نے علامہ کی دو دیگر اہم کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "کتابیں 'بدایۃ الحکمۃ اور نہایۃ الحکمۃ' حوزہ علمیہ میں فلسفہ کی تعلیم کے لئے درست روڈ میپ (Roadmap) دکھاتی ہیں۔ پہلی کتاب نئے سیکھنے والوں کے لئے ایک مختصر کورس ہے اور دوسری گہرا اور خصوصی کورس۔ علامہ نے ان کتابوں کے ذریعے فلسفہ کی تعلیم کے ڈھانچے کو بدل دیا۔"
اس قرآنی محقق نے علامہ طباطبائی کے عرفانی پہلو کے بارے میں بتایا اور کہا: "علامہ کی تصانیف میں عرفان کی روح جاری و ساری ہے۔ ان کا عرفان، عملی تھا اور قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی سنت پر مبنی تھا، نہ کہ محض نظری مباحث پر مشتمل۔ کتاب 'رسالۃ الولایۃ' علامہ کے عرفانی نقطہ نظر کا خلاصہ ہے؛ اس کتاب میں وہ ولایت کے تصور کو انسان کے سیر و سلوک کی منزل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔"
انھوں نے شاگردوں کی تربیت میں علامہ کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "جس وقت کمیونزم اور مارکسزم نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے، علامہ نے شہید مطہری، آیت اللہ مصباح یزدی، شہید سید محمد بہشتی اور امام موسیٰ صدر جیسے شاگردوں کو 'فکری اوزاروں کا صندوق' (Intellectual toolbox) سے لیس کیا۔ انھوں نے منطق اور فلسفے کے ذریعے انہیں دکھایا کہ اسلام صرف فردی عبادت کا مذہب نہیں ہے، بلکہ حکومت، معیشت اور معاشرے کے بارے میں بھی اس کے پاس گہری اور منطقی تعلیمات ہیں۔"
احسان عبادی نے معاصر فکری تبدیلیوں میں علامہ کے کردار کا خلاصہ بیان کرتے کہا: "علامہ نے کبھی آتشین تقریر نہیں کی اور نہ ہی لوگوں کو مظاہروں پر بلایا؛ وہ ایک پُر سکون اور فکر میں ڈوبے ہوئے انسان تھے۔ لیکن اپنی اسی خلوت میں انھوں نے ایسا کام کیا جو ہزاروں ریلیوں اور جلسے جلوسوں سے زیادہ مؤثر تھا: انھوں نے انقلاب کے فکری رہنماؤں کو پروان چڑھایا۔"
انھوں نے علامہ کے بنیادی کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "علامہ ایک خاموش بجلی گھر کی مانند تھے؛ وہ خود سیاست کے میدان میں نہیں اترے، لیکن انھوں نے ایک پورے ملک کو روشن کرنے کے لئے درکار فکری توانائی کا انتظآم کیا۔ ان کے شاگردوں نے ان کی فکر کو معاشرے تک پہنچایا اور انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی نظریاتی بنیادوں کو تشکیل دیا۔ ان کی فکر کے بغیر، انقلاب شاید ایک جذباتی تحریک ہی رہ جاتی، نہ کہ ایک 'نظریہ' اور 'مربوط فکر پر مبنی' نظام۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ