بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || رہبر انقلاب نے فرمایا: "امریکہ کی ایران سے دشمنی صرف زبانی دشمنی نہیں تھی، محض پابندیاں بھی نہیں تھیں؛ یہ عملی دشمنی تھی۔ جہاں تک امریکیوں سے ہو سکا، جہاں تک ان کا ہاتھ پہنچا، اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کیں؛ انہوں نے ـ جہاں تک ممکن تھا ـ اسلامی جمہوریہ کے بنیادی دشمنوں کی مدد کی؛ انھوں نے ـ جہاں تک ممکن تھا ـ ایرانی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ امریکہ کی استکباری فطرت اور انقلاب کی آزادی پسند فطرت باہم سازگار نہیں تھیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ: اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کا اختلاف کوئی تاکتیکی (اور وقتی) اختلاف نہیں ہے، کوئی حادثانی اور اتفاقی اختلاف نہیں ہے، یہ ایک فطری (اور بنیادی) اختلاف ہے۔" 3 نومبر 2025ع
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم کے اس جامع اور اہم بیان کے اس اقتباس میں ایک چند پرتوں پر مشتمل پیغام مضمر ہے:
1۔ بنیادی (Substantial) پرت جس میں اختلاف کی جڑ دونوں فریقوں کی فطرت میں ہے۔ اسلامی انقلاب آزادی اور خودمختاری پر قائم ہے اور امریکہ تسلط پسندی اور غلبے پر، اور ایسے دو متضاد وجود ایک ہی راستے پر ساتھ نہیں چل سکتے۔
2۔ عملی اور طرز عمل کی پرت، کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی محض زبانی نہیں تھی؛ یہ ایک مسلسل عملی اقدام سے عبارت تھی؛ جہاں کہیں بھی انہیں موقع ملا، انہوں نے ہمارے قومی مفادات کو طرح طرح سے نقصان پہنچایا۔
چنانچہ، اگر اختلاف "بنیادی" ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وقتی تدبیری حل (جیسے وقتی سفارت کاری سے لے کر کبھی کبھار معاشی لین دین تک)، اس بنیادی خلیج کو پُر نہیں کر سکیں گے۔
اس تناظر میں، ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ اعتراف کہ "میں 13 جون کو اسرائیل کے ایران پر حملے کی قیادت کر رہا تھا، مجھے مکمل کنٹرول حاصل تھا" اسی دشمنی کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے جس کے بارے میں رہبر انقلاب نے چار دہائیوں کے دوران بار بار خبردار کیا تھا۔ یہ اعتراف ایسا ہی ہے جیسے کسی پرانے قالین سے ایک دھاگہ نکل آئے، اور جب ہم اسے کھینچ لیں تو امریکہ کی عملی دشمنی کا پوشیدہ کردار ظہور پذیر ہو جائے؛ یہ دشمنی کوئی وقتی غلط فہمی نہیں بلکہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے اصول سے ایک گہرا، اور فطری و جوہری اور بنیادی تصادم ہے۔
سازشوں کا سلسلہ؛ سفارت خانے کے کمرے سے لے کر خلیج فارس کی فضاؤں تک
رہبر انقلاب نے 6 اگست 2003ع کو اس دشمنی کی عملی جڑوں کی ایک دستاویزی اور مربوط تصویر کشی کی تھی، جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے دنوں سے شروع ہوتی ہے اور قدم بہ قدم بعد کی دہائیوں تک پھیلی ہوئی ہے؛ فرماتے ہیں: "انقلاب کے شروع سے ہی یہ حرکتیں مختلف شکلوں میں موجود رہی ہیں۔ آپ سب کو یاد ہوگا - امریکی سفارت خانے میں جو حکومت گرانے کی کوششیں ہوئیں، ان کوششوں کا آغاز وہیں سے ہؤا (جس کے مظاہر میں سے ایک 'شہید نوژہ' ائیر بیس میں بغاوت کی تیاری تھی، جس کے بارے میں سفارت خانے میں حاضر نوجوانوں نے اس وقت اس کی تقریباً سو اہم دستاویزات شائع کی تھیں؛ یہ ہمارے زمانے کی اہم دستاویزات ہیں، لیکن وہ ان دستاویزات پر کام نہیں ہونے دیتے) پھر 'طبس' پر حملہ، پھر عراق کو ایران کے خلاف جنگ پر اکسانا، پھر جنگ میں عراق کی مدد کرنا، پھر ہمارے مسافر طیارے پر حملہ، ہمارے تیل کے پلیٹ فارمز پر حملہ، اور مختلف اوقات میں ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں - جنہیں انہوں نے 1990ع کی دہائی کے درمیانی سالوں میں 'ڈی-ماٹو D'Amato" (یا IRAN OIL SANCTIONS ACT OF 1996) کے نام سے ایک قانون بنا دیا۔ ان کی دشمنی، کینہ اور عداوت کو اس طرح سمجھنا چاہئے۔ جہاں کہیں بھی اسلامی جمہوریہ نے ملک کی تعمیر و ترقی کی طرف کوئی قدم اٹھایا، انہوں نے جہاں بھی ہو سکا اسے روک دیا۔"
واقعات کا سلسلہ امریکی دشمنی کے جال کو ایک مربوط زنجیر کی طرح واضح کرتا ہے: بغاوت کی سازش سے لے کر براہ راست فوجی کارروائی تک؛ آٹھ سالہ جنگ بھڑکانے سے لے کر مسافر طیارہ گرانے تک؛ تیل کے پلیٹ فارموں پر حملے سے لے کر کثیر الجہتی پابندیوں کا نظام قائم کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی ریاست کے حملوں کی براہ راست کمانڈ کا اعتراف کرنے تک۔
جب ہم اس تاریخی سلسلے اور واقعات کے تسلسل کا موازنہ ٹرمپ کے حالیہ اعتراف کے ساتھ کرتے ہیں، تو سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "کیا اس گہرائی، وسعت اور تسلسل پر مبنی دشمنی کو محض سیاسی اختلاف کہا جا سکتا ہے؟
یہ دشمنی ذاتی اور شخصی نہیں؛ بنیادی ہے
رہبر انقلاب نے 9 مئی 2018ع میں اس دشمنی کو منتشر رویوں کی سطح سے بلند کرکے "بنیادی" سطح پر پہنچاتے ہوئے فرمایا: "امریکہ کا معاملہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ امریکہ ہمارا دشمن ہے؛ [امریکہ کی] یہ دشمنی نہ میری ذات سے ہے نہ ہی نظام کے عہدیداروں کے ذات سے، بلکہ اسلامی نظام کے مجموعے کے ساتھ ہے جس [نظام] کو آج ایرانی قوم نے قبول کر لیا ہے اور اس کی راہ پر گامزن ہے؛ یہ دشمنی ایک ایسی دشمنی ہے۔ یہ اس خاص شخص [ٹرمپ] سے مختص نہیں ہے؛ امریکی حکومت اور امریکی نظام، اسلامی جمہوریہ کے قیام کے آغاز سے ہی اس کا دشمن اور بدخواہ تھا اور اسے گرانے کے درپے تھا۔ یہاں تک کہ پچھلی حکومت - اوباما حکومت - جو اپنے بھیجے ہوئے خط میں بھی اور بیانات میں بھی کہتی تھی کہ "ہم تو ایران کا اسلامی نظام گرانے کے درپے نہیں ہیں"؛ پھر بھی [یہ حکومت] جھوٹ بول رہی تھی؛ وہ [اوباما] بھی اسلامی جمہوری نظام کو گرانے کے درپے تھے؛ ایٹمی معاہدے (JCPOA) کا معاملہ اور یہ باتیں محض بہانے ہیں{.....} جھگڑا، بنیادی جھگڑا ہے؛ وہ اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔"
رہبر انقلاب کے بیان کا یہ حصہ دشمن کی پہچان کی گہرائی کو بالکل عیاں کرتا ہے؛ اس لئے وائٹ ہاؤس کا مستقل اور بنیادی رویہ نہ صرف ایران میں حکومتوں یا افراد سے دشمنی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ قومی خودمختاری اور عوامی مرضی سے ابھرنے والے سیاسی ڈھانچے کے بنیادی تصور سے دشمنی رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک [امریکی] صدر کی مسکراہٹ یا کسی دوسرے [امریکی] صدر کے دھمکیوں، سے بنیادی فرق پیدا نہیں ہؤا کرتا۔
رہبر معظم نے اسی تقریر میں آگے اس دشمنی کی وجہ یوں بیان فرمائی: "اسلامی جمہوری نظام سے مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے امریکی تسلط کا ہاتھ ملک سے کاٹ دیا؛ پورا مسئلہ یہی ہے۔ امریکی ایک مالدار، سہولیات سے بھرپور اور ایران جیسے حساس جغرافیائی محل وقوع کے حامل ملک پر مکمل طور پر مسلط تھے؛ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نے آ کر ان کا ہاتھ کاٹ دیا؛ یہ لوگ اسی وجہ سے انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں؛ وہ تسلط قائم مسلط ہونا چاہتے ہیں؛ جیسا کہ بدقسمتی سے وہ خطے کے بہت سے ممالک پر قابض ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکم دیں 'تمہیں یہ کام کرنا ہوگا' اور اس حساس خطے کے فلاں ملک کے حکمران کو ان کی ہر بات کو آنکھوں پر رکھنا اور ماننا ہوگا! وہ یہی چاہتے ہیں۔ غور فرمایئے! یہ اہم بات ہے؛ معاملہ جذبات کا نہیں ہے؛ معاملہ یہ نہیں ہے کہ انسان اچانک کسی واقعے پر ردعمل ظاہر کرے؛ معاملہ بنیادی اور اساسی ہے؛ انہیں نوکر [اور غلام] چاہئے۔" (9 مئی 2018ع )
تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ انقلاب سے پہلے کا ایران واشنگٹن کے تسلط کی زنجیر میں ایک فرمانبردار کڑی تھا۔ انقلاب نے اس زنجیر کو توڑ دیا اور نوکری [اور غلامی] کے بندھن سے آزاد ہو گیا۔
مستقل دشمنی؛ حکومتوں کے بدلنے سے اصل حقیقت نہیں بدلتی
رہبر انقلاب 16 نومبر 2016ع میں ایک ایسا جملہ فرماتے ہیں جو چار دہائیوں کے تجربے کا نچوڑ ہے: "امریکہ، امریکہ ہے؛ خواہ یہ جماعت بر سر اقتدار ہو، خواہ وہ جماعت؛ ان میں جو بھی بر سر اقتدار آیا، ہمیں ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا، انہوں نے نقصان ہی پہنچایا ہے۔ ایک نے پابندیاں لگائیں، ایک نے ہوائی جہاز مار گرایا، ایک نے تیل کے پلیٹ فارم پر حملہ کیا، ایک نے ہمارے دشمنوں کی مدد کی۔ ہمیں کوئی فکر بھی نہیں ہے؛ ہم خدا کی توفیق سے ہر ممکنہ واقعے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔"
اسی لئے ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ، جنگجو ہو یا سفارت کار کے بھیس میں ہو، مسکراہٹ ہو یا دھمکی ہو؛ ان میں سے کسی نے بھی [امریکہ کے] تسلط پسند ڈھانچے کو نہیں بدلا اور ٹرمپ کا اعتراف بھی اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت دوسرے امریکی صدور سے ان کا فرق صرف یہ ہے کہ وہ وہ بات کھُل کر کہہ دیتے ہیں جس کو پچھلے صدور صرف بیان نہیں کرتے تھے۔ "اس صاحب نے ـ جو آج امریکہ میں برسرِاقتدار ہیں، ـ معاملے کو بے نقاب کر دیا، اس حقیقی مقصد کو واضح کر دیا؛ کہا کہ ایران سے، ایرانی قوم سے ہماری مخالفت اس لئے ہے کہ ایران امریکہ کا فرمانبردار ہونا چاہئے!" (24 اگست 2025)
دشمن کی پہچان؛ آزاد و خودمختار حکمرانی کی بنیادی شرط
رہبر انقلاب نے 3 جون 2016ع کو دشمن کی "مسلسل نگرانی" کی ضرورت کے بارے میں ایک واضح حکمت عملی پیش کی: "دشمن کو پہچانیں، دشمن کی حرکات و سکنات کے سامنے حساس رہیں۔ جو لوگ دفاع مقدس کے دوران محاذ پر تھے وہ جانتے ہیں کہ وہاں کمانڈ ہیڈکوارٹرز میں ایسے افراد تھے جو اپنے ذرائع سے دشمن کی ہر چھوٹی حرکت کو جانچتے پرکھتے تھے، اس پر حساس ہو جاتے تھے: فرض کیجئے کہ دشمن آج یہ نقل و حرکت کرتا ہے؛ یہ کس لئے ہے، اس نے کیوں یہ حرکت کی ہے؛ وہ وجہ تلاش کرتے تھے۔ دشمن کی حرکات و سکنات پر حساس تھے۔ ہمیں دشمن کو پہچاننا چاہئے، اس کے منصوبوں کو بھانپ لینا چاہئے، اس کے کاموں، باتوں، بیانات وغیر پر حساس ہونا چاہئے؛ اور اس کے ممکنہ زہر کے مقابلے میں اِکْسِیر فراہم کرنی چاہئے، اور اس کی حرکت کو ناکام بنانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دشمن کے مقابلے میں حساسیت یہی ہے۔"
یہ نقطہ نظر درحقیقت آزادی اور خودمختاری کی بنیادی شرط ہے: دشمن شناسی (دشمن کو پہچاننا) محض بدگمانی نہیں بلکہ حکمرانی کی عقلیت کا تقاضا ہے۔ ٹرمپ کے اعتراف سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس پہچان کو نظرانداز کرنے کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔
دشمن، جسے دیکھنا چاہئے، نہ کہ اس کے نہ ہونے کی آرزو کی جاتی ہے!
جب ہم رہبر انقلاب کے ان بیانات کو یکجا کرتے ہیں اور ٹرمپ جیسے سیاستدانوں کے سرکاری اعترافات کے ساتھ ملاتے ہیں، تو نتیجہ بالکل واضح ہوتا ہے:
1۔ امریکہ کی دشمنی عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ساختی (Structural) ہے۔
2۔ یہ دشمنی پالیسیوں پر نہیں، بلکہ انقلاب کی فطرت اور ایران کی آزادی پر ہے۔
3۔ یہ کسی ایک صدر کی پیدا کردہ دشمنی نہیں، بلکہ پورے امریکی سیاسی نظام کی تسلط پسندانہ منطق کا نتیجہ ہے۔
4۔ یہ دشمنی نہ مذاکرات اور مسکراہٹوں سے ختم ہوتی ہے، اور نہ ہی یہ دھمکیوں سے شروع ہوئی ہے۔
یہ وہی حقیقت ہے جسے رہبر انقلاب نے واضح طور پر بیان فرمایا: "اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کا اختلاف ایک بنیادی اور فطری اختلاف ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ