بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || میجر جنرل محمد علی جعفری نے کل (مورخہ 25 اکتوبر کی شام کو ٹی وی پروگرام "ماجرائے جنگ" میں محور مقاومت اور حزب اللہ لبنان کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا ہے، مقاومت و مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر چیز نہیں ہمارے ہے جسے شکست دی جا سکے۔ اگر مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر شیئے ہوتی، تو آج حزب اللہ موجود نہ ہوتی۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق کمانڈر انچیف اور حضرت بقیۃ اللہ(ع) ثقافتی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل محمد علی جعفری نے اس پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
• بنیادی فیصلہ یہ تھا کہ میزائل اور ڈرون کی صلاحیتوں کو تیزی سے اور زیادہ تسدیدی اثرات (ڈیٹرنس) کے ساتھ، ترقی دی جائے تاکہ فضائی میدان میں تکنیکی خلا کو ممکنہ حد تک پورا کیا جا سکے۔
• ایک بار میں نے تجویز پیش کی کہ شام میں داعش کے ہیڈکوارٹر کو میزائل سے نشانہ بنایا جائے۔ رہبر معظم کو شک تھا اور انہیں یقین نہیں تھا کہ عام شہری نشانہ بنیں گے یا نہیں۔ میں نے ضمانت دی کہ عام لوگ نشانہ نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد رہبر معظم کی رضامندی حاصل ہوئی۔ میزائل نے تقریباً 700 سے قریب 1000 کلومیٹر کے فاصلے پر شام میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا اور دنیا نے پہلی بار ایرانی میزائلوں کی درست نشانہ بازی کی صلاحیت دیکھ لی۔
• اگلی کاروائی میں، عراقی کردستان میں انقلاب دشمن دہشت گردوں کے ہیڈکوارٹر میں ایک میٹنگ اور اجتماع کو نشانہ بنایا گیا اور ایک میزائل میٹنگ کے کمرے میں جا لگا۔ یہ آپریشن اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کے بانی شہید میجر جنرل حسن طہرانی مقدم شہید میجر جنرل امیر علی حاجی زادہ جیسے شہیدوں کی 30 سالہ کوششوں اور جدوجہد کا نتیجہ تھے، اور ان لوگوں کی کوششوں کا جنہوں نے آج کمانڈ سنبھالی ہوئی ہے۔
روسی میزائل ہمارے میزائلوں کی طرح درست نشانے پر نہیں لگتے
• سنہ 1980 کی دہائی کے آغاز میں اور مقدس دفاع کے دوران، میزائل کے شعبے میں غیر ملکی امداد زیادہ نہیں تھی۔ اس وقت کچھ ممالک جیسے لیبیا اور شمالی کوریا نے معلوماتی امداد اور تجربات کے تبادلے میں تعاون کیا، لیکن یہ حمایت بہت کم تھی۔ روسیوں نے بھی اس دور میں قابل ذکر مدد نہیں کی، اور ہم نے اپنی زیادہ تر ضروریات اپنے ماہرین کے تجربے اور کوششوں سے پوری کر دیں، جبکہ کچھ انجینئرنگ مسائل اور معلومات کے تبادلے میں دوسروں کا محدود تعاون تھا۔
• صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اب ہمارے ملک میں نہ صرف کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ دیگر ممالک ہماری کچھ ٹیکنالوجیز جیسے ڈرون اور میزائل کی نشانہ بازی کی درستگی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگرچہ دیگر ممالک میزائل کی رینج کے حوالے سے صلاحیتیں رکھتے ہیں، لیکن نشانہ بازی کی درستگی اور میزائل ٹیکنالوجی کے ماڈلز کے میدان میں ہماری کامیابیاں ممتاز ہیں اور کچھ پہلوؤں میں برتر ہیں۔ اس لیے آج دوسرے بھی میزائل اور ڈرون کے میدان میں ہماری صلاحیتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
شہید امیر علی حاجی زادہ ایرواسپیس فورس کے کمانڈر کیسے بنے
• اس زمانے میں شہید لیفٹیننٹ جنرل سلامی ایرواسپیس فورس کے کمانڈر تھے اور شہید حاجی زادہ کو ان کا نائب مقرر کیا گیا تھا۔
• شہید طہرانی مقدم بھی موجود تھے، جو میزائل کے تحقیقی اور تکنیکی پہلوؤں، خاص طور پر میزائل کی نشانہ بازی اور میزائل پروڈکشن کی ترقی میں مصروف تھے، اور وہ ایرواسپیس فورس کی تحقیقی شعبے اور 'خودکفالت جہاد تنظیم' کی نگرانی کرتے تھے۔
• شہید میجر جنرل حاجی زادہ اور شہید میجر جنرل مجید موسوی نے یزائل سیکشن کے انچارج شہید میجر جنرل محمود باقری کے تعاون سے سات سے دس سال کے اندر سپاہ پاسداران کی ایرواسپیس کو قابلیت کی ایک اعلیٰ سطوح تک پہنچایا۔ میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجیز کی تحقیق، ترقی اور تعمیر پر توجہ مرکوز کی گئی اور ملک کی تسدیدی صلاحیت اور ڈیٹرنس کو مضبوط کیا گیا۔
شہید طہرانی مقدم کی شہادت میں بیرونی ہاتھ ملوث نہیں تھا
• ایرواسپیس فورس کے سابق کمانڈر میجر جنرل حسن طہرانی مقدم کی شہادت کا واقعہ کسی تخریب کاری یا غیر ملکی مداخلت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ محض تکنیکی نقص اور کام کے حالات کا نتیجہ تھا۔ شہید مقدم خود بھی اس مقام پر موجود تھے اور براہ راست نگرانی کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ