اہل بیت نیوز ایجسنی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، عراق کی اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے کے مداخلت آمیز بیانات پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے صرف اور صرف عراق کے قومی مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ کے تحت۔
عراقی خبررساں ادارے بغداد الیوم کے مطابق، ٹرمپ کے خصوصی فرستادے برائے امورِ عراق مارک ساویا نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح عراقی مزاحمتی گروہوں کا خاتمہ ہے۔ ان کے یہ الفاظ واشنگٹن کی جانب سے بغداد کے حوالے سے ایک زیادہ جارحانہ پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ساویا، جو چھ دن قبل اس عہدے پر فائز ہوئے، نے اپنے بیان میں کہا:ہم تمام عراقی فریقوں کے ساتھ مل کر ایک مضبوط عراق کے قیام کے لیے کام کریں گے تاکہ وہ امریکہ کا حقیقی شراکت دار بن سکے اور علاقائی تنازعات سے دور رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ عراق کے ساتھ تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز چاہتے ہیں اور "عراق کو دوبارہ عظیم" بنانے کے خواہاں ہیں۔ان بیانات کے فوراً بعد عراقی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے ردعمل سامنے آیا۔
ایک ذریعے نے، جو ان گروہوں کے قریب سمجھا جاتا ہے، بغداد الیوم کو بتایا کہ مزاحمت کے اصول کسی فرد یا حکومت کے آنے یا جانے سے تبدیل نہیں ہوتے۔اس نے واضح کیا کہ مزاحمتی گروہ تمام فیصلے عراق کی خودمختاری اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں اور مغربی یا امریکی ذرائع کے پروپیگنڈے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
ذرائع کے مطابق، یہ گروہ حکومتِ عراق کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کے درمیان کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔اس نے مزید کہا کہ مزاحمتی گروہوں کے ہتھیار عراقی عوام کے ہیں، جن کا مقصد کسی بھی اندرونی یا بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اور کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔
ذرائع نے یاد دلایا کہ انہی ہتھیاروں نے عراق کو دہشت گردی سے نجات دلائی، شدت پسندوں کو پسپا کیا اور ملک کے شہروں کو آزاد کرایا۔بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ مزاحمت عراقی عوام کی روح اور غیرت کا حصہ ہے، جسے کسی بیرونی دباؤ یا فیصلے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کا تبصرہ