25 اکتوبر 2025 - 05:45
12 روزہ جنگ کا تجزیہ آنے والے واقعات کا آئینہ، حسین طائب

انھوں نے کہا:واشنگٹن اور تل ابیب کی اسٹریٹجک ہم آہنگی کے مطابق، امریکہ نے مخلوط جنگ (Hybrid warfare ) کی حکمت عملی پر عمل کیا اور اسرائیل نے اس کا سیکیورٹی پہلو سنبھالا تاکہ علاقائی تنازعات پیدا کر کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کر سکیں/  12 روزہ جنگ کا تجزیہ آنے والے واقعات کی شناخت کا امکان فراہم کرتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق سربراہ حجت الاسلام و المسلمین حسین طائب نے حالیہ واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: "حالیہ 12 روزہ جنگ ایران، خطے اور یہاں تک کہ دنیا کے حالات کے تجزیوں کا مرکزی نقطہ ہے اور اس کا درست تجزیہ مستقبل کے رجحانات کو سمجھنے کا امکان فراہم کرتا ہے۔

روایت طائب از اختلافات راهبردی بین آمریکا و اسرائیل/ شکاف‌ها در حمایت از تل‌آویو آشکار شد

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق سربراہ حجت الاسلام و المسلمین حسین طائب:

• موجودہ حالات میں، اسلامی انقلاب اور استکبار کے محاذ اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں واقعات کی رفتار پیشین گوئیوں سے تجاوز کر گئی ہے اور اب سب کچھ پہلے کے حساب کتاب کے مطابق نہیں چل رہا۔

• سنہ 1991ع‍ میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی پر نظرثانی کی اور اپنی قیادت میں عالمی گاؤں (Global Village) کی خاکہ کشی اور قومی سلامتی کے قانون میں تبدیلی کی منصوبہ بندی کی۔ سنہ 2025ع‍ تک 25 سالہ امریکی قومی سلامتی کی دستاویز کا ہدف اس کی عالمی بالادستی کے تسلسل کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹوں کو دور رکھنا تھا، اور 2020 کی نظرثانی میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ 2025 تک اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے گا، اور 2020 سے 2030 کے عشرے کو فیصلہ کن قرار دیا۔ اس دستاویز میں ایران اور مشرق وسطی کو فیصلہ کن مسائل کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

• واشنگٹن اور تل ابیب کی اسٹریٹجک ہم آہنگی کے مطابق، امریکہ نے مخلوط جنگ (Hibrid warfare) کی حکمت عملی پر عمل کیا اور اسرائیل نے اس کا سیکورٹی پہلو  سنبھالا تاکہ وہ سرحدی تنازعات پیدا کر کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کر سکے۔ صہیونی ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ پڑوسیوں کو نشانہ بنا دے؛ اور پڑوسیوں میں محور مقاومت ـ جیسے جہاد اسلامی، حماس، غزہ، حزب اللہ، شام، عراق اور ایران ـ شامل تھا۔

• لیکن حقائق امریکہ اور اسرائیل کی پیشین گوئیوں سے آگے نکل گئے۔ ایران اندرونی انتشار کے دوران کمزور نہیں ہؤا، روس نے یوکرین پر پہل کرکے حملہ کیا، اور حماس کے پیشگی آپریشن نے جنگ کی کمان امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں سے چھین لی۔

• صہیونی ریاست کو 12 روزہ جنگ میں بہت سے میدانی محاذوں میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی حمایت کے باوجود اسرائیل حماس کو تباہ نہ کر سکا، غزہ پر قبضہ نہ کر سکا، سرنگوں تک نہ پہنچ سکا اور قیدیوں کو رہا نہ کر سکا۔ ان ہی ناکامیوں نے ناکامی امریکہ کو براہ راست حماس سے مذاکرات پر مجبور کر دیا۔

• 12 روزہ جنگ کے دوران سیاسی دباؤ، میدانی تھکن اور اسرائیلی محاذ میں سماجی برداشت کم پڑ جانے کا مجموعہ جنگ بندی کی وجہ بنی۔ سروے کے مطابق اسرائیل میں 40 فیصد سے زیادہ عوام صرف قلیل المدت جنگ کے حق میں تھے اور امریکہ میں 85 فیصد عوام کا خیال تھا کہ امریکہ کو ایران کے خلاف اگلی جنگ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ آپریشنل کمزوریوں اور بجٹ کی مشکلات نے بھی دشمن کے محاذ پر زیادہ دباؤ ڈالا؛ یہاں تک کہ امریکی کانگریس میں اضافی دفاعی بل پیش کئے گئے، ان تمام عوامل نے جنگ بندی کے فیصلے کو تیز کیا۔

• جنگ بندی کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجیک اختلافات پیدا ہوئے۔ امریکی تناؤ پر قابو پانا اور بااثر امن کی طرف واپسی چاہتے ہیں، جبکہ اسرائیل اب بھی لبنان اور شام میں اپنے آپریشنز پھیلانے کے درپے ہے۔ لبنان میں امریکہ سعودی عرب کے کردار پر زور دے رہا ہے، جبکہ اسرائیل براہ راست کارروائی چاہتا ہے۔ شام میں الجولانی دھڑے کی حمایت کرنے یا اسے لگام دینے پر، اختلاف ہے۔ عراق پر امریکی انتخابات کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیل کا نقطہ نظر عسکری ہے۔ یہ اختلافات استکباری محاذ میں یکجہتی کے کمزور ہو جانے کی علامت ہیں۔

• 12 روزہ جنگ کے دوران بننے والی سماجی برداشت ایرانی قوم کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے، اور اسے حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔ 12 روزہ جنگ نے عالمی حساب کتاب کو بدل دیا، یہاں تک کہ امریکہ اور مغرب کی نوجوان نسل جو پہلے بے پروا تھی، اب اسرائیل کے رویے کے خلاف موقف اختیار کر چکی ہے اور تل ابیب کی حمایت کے حوالے سے نسلی دراڑیں واضح ہو چکی ہیں۔

• ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکی عوام کی نئی نسل کو بے حسی سے بیداری تک پہنچایا، اور یہ رائے عامہ میں صہیونی ریاست کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha