22 اکتوبر 2025 - 21:30
صہیونیوں کو ایک بار پھر ہیگ کی عدالت سے سزا سنائی گئی

بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیلی ریاست کے اُنروا ایجنسی (UNRWA) کے متعلق دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اس ریاست پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ عدالت نے واضح کیا کہ صہیونیوں کو نہتے شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا نہیں رکھنا چاہئے اور بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بین الاقوامی عدالت انصاف نے آج بدھ کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ اسرائیل نے اُنروا کے ملازمین پر حماس یا دیگر گروہوں سے وابستگی کے دعوے کئے لیکن وہ اپنے دعوؤں کو کافی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس عدالت نے، جو اقوام متحدہ کا سب سے اعلی عدالتی ادارہ ہے، واضح طور پر کہا:

• حقائق کی بنیاد پر، کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ اُنروا نے غیر جانبداری کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہو یا انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم میں امتیاز برتا ہو۔

• اُنروا مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے والا اہم ترین ادارہ ہے اور غزہ کی پٹی میں اس کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ ایجنسی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ ہے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے۔

• موجودہ حالات میں، کوئی بھی دوسرا ادارہ اُنروا کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے، اور کسی مناسب منتقلی کے منصوبے کے بغیر اس ایجنسی کا متبادل لانا ممکن نہیں ہے۔

• اسرائیل غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔

• اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کی اجازت دے اور انہیں آسان بنائے۔ نیز اس ریاست پر یہ بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غیر فوجی فلسطینی شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔

• اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کو ان افراد سے ملنے کی اجازت دے جنہیں اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں حراست میں لیا ہے۔

• صہیونی ریاست کو غیرفوجی شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنے کے عمل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

• اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام اور تحفظ کرے، چاہے وہاں تنازعہ اور مسلح تصادم کی کیفیت ہی کیوں نہ ہو۔

• اسرائیل، ایک قابض طاقت کے طور پر، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے کسی بھی حصے بشمول مشرقی بیت المقدس پر حکمرانی لاگو کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

• صہیونی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے اداروں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے بارے میں یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کو معطل کر دے۔

• اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے عملے کی خودمختاری اور ان کی مراعاتوں اور استثنیٰ کا احترام کرے جو ان کے فرائض کی انجام دہی کے لئے ضروری ہیں۔

• صہیونی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے داخلی قوانین کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نافذ کرے یا فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

• اسرائیل کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، خواہ وہ اقوام متحدہ یا دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے ہو، میں رکاوٹ ڈالے۔ نیز اس ریاست پر لازم ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں کو بنیادی ضروریات، بشمول خوراک، رہائش اور طبی خدمات، تک رسائی حاصل ہو۔

• ہم سب متفق ہیں کہ اسرائیل، بطور ایک قابض  طاقت، بین الاقوامی انسانی قوانین (International humanitarian law [یا جنگی قوانین]) کے تحت اپنے قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کی پابند ہے۔

• ہم سب متفق ہیں کہ بھوک کو جبری و ارادی طور پر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کی ممنوعیت پر تاکید کرتے ہیں؛ نیز اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ خیرسگالی کے ساتھ اقوام متحدہ سے تعاون کرے اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آنروا (UNRWA) کی حمایت کرنے سمیت ہر قسم کی مدد فراہم کرے۔

• ہیگ کی عدالت کا یہ فیصلہ ایک غیر لازم (Non-binding) قانونی مشاورتی رائے ہے جو بین الاقوامی طور پر بہت اہم ہے، کیونکہ اس کی روشنی میں، صہیونی ریاست پر اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل آسان بنانے کے لئے بین الاقوامی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha