26 ستمبر 2025 - 01:09
فلسطین پر اقوام متحدہ کا کردار 'ضمنی' ہے/ مغربی اور عرب حکومتیں دھوکہ بازی میں مصروف ہیں، سید عبدالملک الحوثی

انقلاب یمن کے قائد اور تحریک انصار اللہ کے سربراہ نے اقوام متحدہ کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے معاملے میں اس عالمی ادارے کا کردار بالکل "ضمنی" اور بالکل غیر مؤثر ہے /ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ حقیقی جدوجہد کے بجائے بین الاقوامی فورمز پر تقریریں کرتے ہیں، اور پھر دشمن کو ہتھیار فراہم کرکے اس کے معاون بن جاتے ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انقلاب یمن کے قائد اور تحریک انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدر الدین الحوثی نے اپنی ہفتہ وار تقریر میں کہا: اقوام متحدہ کے ناکافی اور غیر مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بہت سے مغربی اور عرب ممالک فلسطینیوں کے حق میں نعرے تو لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی سطحوں پر اسرائیلی ریاست کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، اور یہ سراسر ریاکاری اور دھوکہ بازی ہے۔

سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے جمعرات کو فلسطین کے تازہ ترین واقعات اور فلسطین اور غزہ کے حوالے سے بین الاقوامی موقف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: کچھ ممالک کا "فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے" پر مبنی اقدام اگرچہ اسرائیلی ریاست کی ساکھ کو مزید کمزور کر سکتا ہے لیکن یہ فلسطینوں کے خلاف ہونے والی جارحیت کی روک تھام کا باعث نہیں بنتا؛ اور اس سے انہیں کوئی ٹھوس فائدہ نہیں پہنچتا۔

انھوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کی قرارداد سنہ 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور ہوئی تھی اور اس کی بنیاد پر اراضی کی تقسیم بھی ہوئی تھی چنانچہ فلسطین کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے اندر سے آئے گا، اور اقوام متحدہ کے باہر سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مختلف ممالک کی طرف سے حالیہ اقدام ـ جسے فلسطینی ریاست کی تسلیم کرنے کا نام دیا جا رہا ہے، ـ درحقیقت ایک 'سیاسی آڑ' ہے، تاکہ یہ ممالک قابض ریاست پر عملی دباؤ ڈالنے اور اس کے خلاف عملی اقدام کرنے سے پہلو تہی کر سکیں۔

سید عبدالملک الحوثی نے وضاحت کی کہ "دو ریاستی" منصوبہ ایک مصنوعی اور کمزور سانچے کے اندر تیار کیا گیا ہے، جس میں فلسطینی ریاست کے پاس آزادانہ دفاع کی صلاحیت نہیں ہوگی جبکہ اس کی سرحدوں اور خارجہ امور پر کنٹرول پہلے ہی محدود کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ 'کم از کم، فلسطین سے متعلق بین الاقوامی قراردادوں کے کم از کم بنیادی نکات' سے متصادم ہے۔

انقلاب یمن کے قائد نے مزید کہا کہ کچھ عربی اور مغربی حکومتیں ظاہری طور پر فلسطین کی حمایت کرتی ہیں، لیکن پس پردہ اسرائیلی حکومت کو اقتصادی، معلوماتی، سیاسی اور لاجسٹک مدد بہم پہنچاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "کچھ لوگ حقیقی جدوجہد کے بجائے بین الاقوامی فورمز پر تقریریں کرتے ہیں، اور پھر دشمن کو ہتھیار فراہم کرکے اس کے معاون بن جاتے ہیں۔"

سید الحوثی نے زور دے کر کہا کہ اقوام متحدہ اپنی 80 سالہ موجودگی کے بعد بھی فلسطینی قوم کے لئے کوئی حقیقی کامیابی فراہم نہیں کر سکی ہے اور تاریخی پیمانے پر "اس کا کردار ضمنی اور غیر مؤثر" ہے۔

انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈونلڈ ٹرمپ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "ٹرمپ کا خطاب امریکی استبدادیت اور تسلط پسندی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں انھوں نے بے شرمی سے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے۔"

سید عبدالملک الحوثی نے خبردار کیا کہ اسرائیل نے فلسطین سے آگے، خطے پر تسلط کے منصوبے تیار کئے ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کا ہدف اب صرف فلسطین تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ مقاومت کو شکست دے کر دوسرے ممالک پر تسلط کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا: امریکہ اور اسرائیل 'اس مقاومت و مزاحمت' کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صہیونی منصوبے کے خلاف ہے۔ وہ خطے پر تسلط کے [گریٹر اسرائیل] کے منصوبے کو تیز کرنا چاہتے ہیں۔

انصاراللہ کے سربراہ کا یہ موقف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے کہ کچھ ممالک نے ـ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ـ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ تاہم، عبدالملک الحوثی نے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا یہ شوشہ درحقیقت اسرائیل کے ساتھ تعاون کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی ادارے اور بعض عربی حکومتوں پر صراحت کے ساتھ تنقید کی اور زور دیا کہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر ـ قانونی اقدامات اور علامتی اعلانات کے ساتھ ساتھ، ـ عملی دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ فلسطینی عوام کے لئے حقیقی انصاف کا حصول ممکن ہو سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha